Open Menu

Ar-raheeq Al-makhtoom ...... Hazrat Hamza Ka Qabool E Islam - Article No. 1221

Ar-raheeq Al-makhtoom ...... Hazrat Hamza Ka Qabool E Islam

الرحیق المختوم، حضرت حمزہ کا قبول اسلام - تحریر نمبر 1221

مکہ کی فضا ظلم و جور کے سیاہ بادلوں سے گھمبیر تھی کہ اچانک ایک بجلی چمکی اور مقہوروں کا راستہ روشن ہوگیا

maulana safiur rahman mubarakpuri مولانا صفی الرحمان مبارک پوری جمعہ 10 نومبر 2017

مکہ کی فضا ظلم و جور کے ان سیاہ بادلوں سے گھمبیر تھی کہ اچانک ایک بجلی چمکی اور مقہوروں کا راستہ روشن ہوگیا۔ یعنی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے۔ ان کے اسلام لانے کا واقعہ 6 نبوی کے اخیر کا ہے۔ اور اغلب یہ ہے کہ وہ ماہ ذی الحجہ میں مسلمان ہوئے تھے۔
ان کے اسلام لانے کا سبب یہ ہے کہ ایک روز ابوجہل کوہ صفا کے نزدیک رسول اللہﷺ کے پا س سے گزرا تو آپﷺ کو ایذا پہنچائی اور سخت سست کہا۔

رسول اللہﷺ خاموش رہے اور کچھ بھی نہ کہا لیکن اس کے بعد اس نے آپﷺ کے سر پر ایک پتھر دے مارا، جس سے ایسی چوٹ آئی کہ خون بہ نکلا۔ پھر وہ خانہ کعبہ کے پاس قریش کی مجلس میں جا بیٹھا، عبداللہ بن جدعان کی ایک لونڈی کوہ صفا پر واقع اپنے مکان سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کمان حمائل کئے شکار سے واپس تشریف لائے تو اس نے ان سے ابوجہل کی ساری حرکت کہہ سنائی۔

(جاری ہے)

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ غصے سے بھڑک اُٹھے۔ یہ قریش کے سب سے طاقتور اور مضبوط جوان تھے۔ ماجرا سن کر کہیں ایک لمحہ رکے بغیر دوڑتے ہوئے اور یہ تہیہ کئے ہوئے آئے کہ جوں ہی ابوجہل کا سامنا ہوگا، اس کی مرمت کر دیں گے۔ چنانچہ مسجد حرام میں داخل ہوکر سیدھے اس کے سر پر جا کھڑے ہوئے اور بولے: او سرین پر خوشبو لگانے والے بزدل! تو میرے بھتیجے کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں بھی اس کے دین پر ہوں۔
اس کے بعد کمان سے اس زور کی مار ماری کہ اس کے سر پر بدترین قسم کا زخم آگیا۔ اس پر ابوجہل کے قبیلے بنو مخزوم اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قبیلے بنو ہاشم کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف بھڑک اُٹھے۔ لیکن ابوجہل نے یہ کہہ کر انہیں خاموش کر دیا کہ ابو عمارہ کو جانے دو۔ میں نے واقعی اس کے بھتیجے کو بہت بُری گالی دی تھی۔
ابتداً حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا اسلام محض اس حمیت کے طور پر تھا کہ ان کے عزیز کی توہین کیوں کئی گئی۔
لیکن پھر اللہ نے ان کا سینہ کھول دیا اور انہوں نے اسلام کا کڑا مضبوطی سے تھام لیا۔ اور مسلمانوں نے ان کی وجہ سے بڑی عزت و قوت محسوس کی۔
حضرت عمر کا قبول اسلام:
ظلم و طغیان کے سیاہ بادلوں کی اسی گھمبیر فضا میں ایک اور برق تاباں کا جلوہ نمودار ہوا جس کی چمک پہلے سے زیادہ خیرہ کن تھی، یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے۔
ان کے اسلام لانے کا واقعہ 6 نبوی کا ہے۔ وہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے صرف تین دن بعد مسلمان ہوئے تھے اور نبیﷺ نے ان کے اسلام لانے کے لیے دعا کی تھی۔ چنانچہ امام ترمذیؒ نے ابن عمر سے روایت کی ہے اور اسے صحیح بھی قراردیا ہے۔ اسی طرح طبرانی نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا۔
ترجمہ:”اے اللہ! عمر بن خطاب اور ابوجہل بن ہشام میں سے جو شخص تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعے سے اسلام کو قوت پہنچا۔

اللہ نے دعا قبول فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے۔ اللہ کے نزدیک ان دونوں میں زیادہ محبوب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے متعلق جملہ روایات پر مجموعی نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے دل میں اسلام رفتہ رفتہ جاگزیں ہوا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان روایات کا خلاصہ پیش کرنے سے پہلے حضرت عمر بن رضی اللہ عنہ کے مزاج اور جذبات و احساسات کی طرف بھی مختصراً اشارہ کر دیا جائے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی تند مزاجی اور سخت خوئی کے لیے مشہور تھے۔ مسلمانوں نے طویل عرصے تک ان کے ہاتھوں طرح طرح سختیاں جھیلی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں متضاد قسم کے جذبات باہم دست و گریباں تھے، چنانچہ ایک طرف تو وہ آباواجداد کی ایجاد کردہ رسموں کا بڑا احترام کرتے تھے اور بلا نوشی اور لہو و لعب کے دلدادہ تھے لیکن دوسری طرف وہ ایمان و عقیدے کی راہ میں مسلمانوں کی پختگی کے سلسلے میں ان کی قوت برداشت کو خوشگوار حیرت و پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
پھر ان کے اندر کسی بھی عقلمند آدمی کی طرح شکوک و شہبات کا ایک سلسلہ تھا جو رہ رہ کر ابھرا کرتا تھا کہ اسلام جس بات کی دعوت دے رہا ہے غالباً وہی زیادہ برتر اور پاکیزہ ہے۔ اسی لیے ان کی کیفیت دم میں ماشہ دم میں تولہ کی سی تھی کہ ابھی بھڑکے اور ابھی ڈھیلے پڑ گئے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے متعلق تمام روایات کا خلاصہ مع جمع و تطبیق یہ ہے کہ ایک دفعہ انہیں گھر سے باہر رات گزارنی پڑی۔
وہ حرم تشریف لائے اور خانہ کعبہ کے پردے میں گھس گئے۔ اس وقت نبیﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور سورہ الحاقہ کی تلاوت فرما رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ قرآن سننے لگے اور اس کی تالیف پر حیرت زدہ رہ گئے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے اپنے جی میں کہا: خدا کی قسم یہ تو شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں۔ لیکن اتنے میں آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔
ترجمہ:”یہ ایک بزرگ رسول کا قول ہے۔
یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے۔ تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے اپنے جی میں کہا اوہو یہ تو کاہن ہے لیکن اتنے میں آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔
”یہ ایک بزرگ رسول کا قوم ہے یہ کسی شاعر کا قوم نہیں ہے تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے ۔۔۔۔ اپنے جی میں۔۔۔
۔ ۔کہا: (اوہو) یہ تو کاہن ہے۔ لیکن اتنے میں آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔
ترجمہ:”یہ کسی کاہن کا کلام بھی نہیں، تم لوگ کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو۔ یہ اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس وقت میرے دل میں اسلام جاگزیں ہوگیا۔
یہ پہلا موقع تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں اسلام کا بیج پڑا، لیکن ابھی ان کے اندر جاہلی جذبات، تقلیدی عصبیت اور آباؤ اجداد کے دین کی عظمت کے احساس کا چھلکا اتنا مضبوط تھا کہ نہاں خانہ دل کے اندر مچلنے والی حقیقت کے مغز پر غالب رہا، اس لیے وہ اس چھلکے کی تہہ میں چھپے ہوئے شعور کی پروا کیے بغیر اپنے اسلام دشمن عمل میں سرگرداں رہے۔

ان کی طبیعت کی سختی اور رسول اللہﷺ سے فرط عداوت کا یہ حال تھا کہ ایک روز خود جناب محمد رسول اللہﷺ کا کام تمام کرنے کی نیت سے تلوار لے کر نکل پڑے لیکن ابھی راستے میں تھے کہ نعیم بن عبدا للہ الخام عدوی یا بنی زہرہ یا بنی مخزوم کے کسی آدمی سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے تیور دیکھ کر پوچھا: عمر کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا محمدﷺ کو قتل کرنے جارہا ہوں۔
اس نے کہا محمدﷺ کو قتل کرکے بنو ہاشم اور بنو زہرہ سے کیسے بچ سکو گے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا معلوم ہوتا ہے تم بھی اپنا پچھلا دین چھوڑ کر بے دین ہوچکے ہو، اس نے کہا عمر رضی اللہ عنہ ایک عجیب بات نہ بتا دوں، تمہاری بہن اور بہنوئی بھی تمہارا دین چھوڑ کر بے دین ہو چکے ہیں۔ یہ سن کر عمر غصے سے بے قابو ہوگئے اور سیدھے بہن بہنوئی کا رُخ کیا۔
وہاں انہیں حضرت خباب رضی اللہ عنہ بن ارت سورہ طٰہٰ پر مشتمل ایک صحیفہ پڑھا رہے تھے اور قرآن پڑھانے کے لیے وہاں آنا جانا حضرت خباب رضی اللہ عنہ کا معمول تھا۔ جب حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آہٹ سنی تو گھر کے اندر چھپ گئے۔ ادھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن فاطمہ رضی اللہ عنہا نے صحیفہ چھپا دیا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر کے قریب پہنچ کر حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی قرات سن چکے تھے چنانچہ پوچھا کہ یہ کیسی دھیمی دھیمی سی آواز تھی جو تم لوگوں کے پاس میں نے سنی تھی؟ انہوں نے کہا کچھ بھی نہیں۔
بس ہم آپس میں باتیں کررہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ غالباً تم دونوں بے دین ہوچکے ہو؟ بہنوئی نے کہا، اچھا عمر یہ بتاﺅ اگر حق دین تمہارے دین کے بجائے کسی اور دین میں ہو تو؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اتنا سننا تھا کہ اپنے بہنوئی پر چڑھ بیٹھے اور انہیں بری طرح کچل دیا۔ ان کی بہن نے لپک کر انہیں اپنے شوہر سے الگ کیا تو بہن کو ایسا چانٹا مارا کہ چہرہ خون آلود ہوگیا۔
ابن اسحاق کی روایت ہے کہ ان کے سر میں چوٹ آئی۔ بہن نے جوش غضب میں کہا عمر اگر تیرے دین کے بجائے دوسرا ہی دین برحق ہو تو؟ میں شہادت دیتی ہوں کہ۔
ترجمہ: ”اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور میں شہادت دیتی ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔“
یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر مایوسی کے بادل چھا گئے اور انہیں اپنی بہن کے چہرے پر خون دیکھ کر شرم و ندامت بھی محسوس ہوئی، کہنے لگے، اچھا یہ کتاب جو تمہارے پاس ہے ذرا مجھے بھی پڑھنے کو دو، بہن نے کہا تم ناپاک ہو۔
اس کتاب کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں، اٹھو، غسل کرو۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اٹھ کر غسل کیا، پھر کتاب لی اوربسم اللہ الرحمان الرحیم پڑھی، کہنے لگے یہ تو بڑے پاکیزہ نام ہیں، اس کے بعد قرات کی۔ کہنے لگے یہ تو بڑا عمدہ اور بڑا متحرم کلام ہے۔ مجھے محمدﷺ کا پتا بتاﺅ۔
حضرت خباب رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے یہ فقرے سن کر اندر سے باہر آ گئے۔
کہنے لگے! عمر خوش ہو جاﺅ، مجھے امید ہے کہ رسول اللہﷺ نے جمعرات کی رات تمہارے متعلق جو دعا کی تھی (کہ اللہ!عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ یا ابو جہل بن ہشام کے ذریعے اسلام کو قوت پہنچا) یہ وہی ہے اور اس وقت رسول اللہﷺ کوہ صفا کے پاس والے مکان میں تشریف فرما ہیں۔
یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوارحمائل کی اور اس گھر کے پاس آکر دروازے پر دستک دی، ایک آدمی نے اُٹھ کر دروازے کی دراز سے جھانکا تو دیکھا کہ عمر تلوار حمائل کئے موجود ہیں۔
لپک کر رسول اللہﷺ کو اطلاع دی اور سارے لوگ سمٹ کر یکجا ہوگئے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا عمر رضی اللہ عنہ ہیں، حضرت حمزہ نے کہا بس! عمر رضی اللہ عنہ ہے، دروازہ کھول دو۔ اگر وہ خیر کی نیت سے آیا ہے تو اسے ہم خیر عطا کردیں گے۔ اور اگر بُرا ارادہ لے کر آیا ہے تو ہم اسی کی تلوار سے اُس کا کام تمام کردیں گے۔
ادھر رسول اللہﷺ اندر تشریف فرما تھے۔ آپﷺ پر وحی نازل ہورہی تھی۔ وحی نازل ہوچکی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے۔ بیٹھک میں ان سے ملاقات ہوئی۔ آپﷺ نے انکے کپڑے اور تلوار کا پرتلا سمیٹ کر پکڑا اور سختی سے جھٹکتے ہوئے فرمایا: عمر! کیا تم اس وقت تک باز نہیں آﺅ گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ تم پر بھی ویسی ہی ذلت و رسوائی اور عبرتناک سزا نازل نہ فرمادے جیسی ولید بن مغیرہ پر نازل ہو چکی ہے؟ یااللہ! یہ عمر بن خطاب ہے، یااللہ اسلام کو عمر بن خطاب کے ذریعے قوت و عزت عطا فرما۔
آپﷺ کے اس ارشاد کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حلقہ بگوش اسلام ہوتے ہوئے کہا۔
ترجمہ:”میں گواہی دیتا ہوں کہ یقیناً اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور یقینا آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔“
یہ سن کر گھر کے اندر موجود صحابہ رضی اللہ عنہ نے اس زور سے تکبیر کہی کہ مسجد حرام والوں کو سنائی پڑی۔ معلوم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زور آوری کا حال یہ تھا کہ کوئی ان سے مقابلے کی جرات نہ کرتا تھا اس لیے ان کے مسلمان ہو جانے سے مشرکین میں کہرام مچ گیا اور انہیں بڑی ذلت و رسوائی محسوس ہوئی۔
دوسری طرف ان کے اسلام لانے سے مسلمان کو بڑی عزت و قوت، شرف و اعزاز اور مسرت و شادمانی حاصل ہوئی، چنانچہ ابن اسحاق نے اپنی سند سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان روایت کیا ہے کہ جب میں مسلمان ہوا تو میں نے سوچا کہ مکے کا کون شخص رسول اللہ ﷺ کا سب سے بڑا اور سخت ترین دشمن ہے؟ پھر میں نے جی ہی جی میں کہا‘ یہ ابو جہل ہے، اس کے بعد میں نے اس کے گھر جا کر اس کا دروازہ کھٹکھٹایا، وہ باہر آیا اور دیکھ کر بولا ۔
۔۔۔۔۔۔۔ خوش آمدید خوش آمدید، کیسے آنا ہوا؟ میں نے کہا تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ میں اللہ اور اس کے رسول محمدﷺ پر ایمان لا چکا ہوں اور جو کچھ وہ لے کر آئے ہیں اس کی تصدیق کر چکا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ (یہ سنتے ہی) اس نے میرے رخ پر دروازہ بند کر لیا اور بولا! اللہ تیرا برا کرے اور جو کچھ تو لے کر آیا ہے اس کا بھی بُرا کرے۔

امام ابن جوزی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ جب کوئی شخص مسلمان ہوجاتا تو لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے۔ اسے زد و کوب کرتے اور وہ بھی انہیں مارتا اس لیے جب میں مسلمان ہوا تو اپنے ماموں عاصی بن ہاشم کے پاس گیا اور اسے خبر دی۔ وہ گھر کے اندر گھس گیا، پھر قریش کے ایک بڑے آدمی کے پاس گیا۔ شاید ابوجہل کی طرف اشارہ ہے۔۔ اور اسے خبر دی وہ بھی گھر کے اندر گھس گیا۔

ابن ہشام اور ابن جوزی کا بیان ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تو جمیل بن معمر جمحی کے پاس گئے۔ یہ شخص کسی بات کا ڈھول پیٹنے میں پورے قریش کے اندر سب سے زیادہ ممتاز تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بتایا کہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں۔ اس نے سنتے ہی نہایت بلند آواز سے چیخ کر کہا کہ خطاب کا بیٹا بے دین ہوگیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے پیچھے ہی تھے۔
بولے یہ جھوٹ کہتا ہے۔ میں مسلمان ہوگیا ہوں۔ بہرحال لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے اور مار پیٹ شروع ہو گئی۔ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مار رہے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو مار رہے تھے یہاں تک کہ سورج سر پر آ گیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھک کر بیٹھ گئے، لوگ سر پر سوار تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا جو بن پڑے کر و۔
خدا کی قسم اگر ہم لوگ تین سو کی تعداد میں ہوتے تو پھر مکے میں یا تم ہی رہتے یا ہم ہی رہتے۔
اس کے بعد مشرکین نے اس ارادے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گھر پر ہلہ بول دیا کہ انہیں جان سے مار ڈالیں چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خوف کی حالت میں گھر کے اندر تھے کہ اس دوران ابو عمرو عاص بن وائل سہمی آگیا۔
وہ دھاری دار یمنی چادر کا جوڑا اور ریشمی گوٹے سے آراستہ کرتا زیب تن کئے ہوئے تھا۔ اس کا تعلق قبیلہ سہم سے تھا اور یہ قبیلہ جاہلیت میں ہمارا حلیف تھا۔ اس نے پوچھا کیا بات ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں مسلمان ہو گیا ہوں اس لیے آپ کی قوم مجھے قتل کرنا چاہتی ہے۔ عاص نے کہا یہ ممکن نہیں، عاص کی یہ بات سن کر مجھے اطمنیان ہوگیا اس کے بعد عاص وہاں سے نکلا اور لوگوں سے ملا۔
اس وقت حالت یہ تھی کہ لوگوں کی بھیڑ سے وادی کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ عاص نے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے؟ لوگوں نے کہا: یہی خطاب کا بیٹا مطلوب ہے جو بے دین ہوگیا ہے۔ عاص نے کہا اس کی طرف کوئی راہ نہیں۔ یہ سنتے ہی لوگ واپس چلے گئے۔ ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ واللہ ایسا لگتا تھا گویا وہ لوگ ایک کپڑا تھے جسے اس کے اوپر سے جھٹک کر پھینک دیا گیا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر یہ کیفیت تو مشرکین کی ہوئی تھی۔ باقی رہے مسلمان تو ان کے احوال کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ مجاہد نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے عمر بن الخطاب سے دریافت کیا کہ کس وجہ سے آپ کا لقب فاروق پڑا؟ تو انہوں نے کہا مجھ سے تین دن پہلے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے اسلام لانے کا واقعہ بیان کرکے اخیر میں کہا کہ پھر جب میں مسلمان ہوا تو۔
۔۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم حق پر نہیں ہیں خواہ زندہ رہیں خواہ مریں؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگ حق پر ہو خواہ زندہ رہو خواہ موت سے دوچار ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ پھر چھپنا کیسا؟ اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ہم ضرور باہر نکلیں گے۔
چنانچہ ہم دو صفوں میں آپﷺ کو ہمراہ لے کر باہر آئے۔ ایک صف میں حمزہ رضی اللہ عنہ تھے اور ایک میں میں تھا، ہمارے چلنے سے چکی کے آٹے کی طرح ہلکا ہلکا غبار اُڑ رہا تھا یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں داخل ہو گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ قریش نے مجھے اورحمزہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو ان کے دلوں پر ایسی چوٹ لگی کہ اب تک نہ لگی تھی۔
اسی دن رسول اللہﷺ نے میرا لقب فاروق رکھ دیا۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ ہم خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھنے پر قادر نہ تھے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔
حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تو اسلام پردے سے باہر آیا۔ اس کی علانیہ دعوت دی گئی۔ ہم حلقے لگا کر بیت اللہ کے گرد بیٹھے، بیت اللہ کا طواف کیا اور جس نے ہم پر سختی کی اس سے انتقام لیا اور اس کے بعض مظالم کا جواب دیا۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تب سے ہم برابر طاقتور اور باعزت رہے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu