Open Menu

Islam K Bunyadi Aqayed Ka Ilm Hasil Karna - Article No. 1062

Islam K Bunyadi Aqayed Ka Ilm Hasil Karna

اسلام کے بنیادی عقائد کا علم حاصل کرنا - تحریر نمبر 1062

ایمان ایک پاکیزہ اور تناور درخت کی مانند ہے جس کی جڑ یا بنیاد اللہ کی وحدانیت پر ایمان لانا ہے۔ اس کے بعد رسولوں پر ایمان ، فرشتوں پر ، آسمانی کتب ، یومِ آخرت اور تقدیر کے اچھے برے ہونے پر ایمان لانا اس بنیاد پر استوار ہے۔پھر ایمان کی ستر سے زائد فروع ( شاخیں ) ہیں جن میں سب سے ہلکی شاخ راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا ہے۔

جمعہ 21 اکتوبر 2016

محسن:
ایمان ایک پاکیزہ اور تناور درخت کی مانند ہے جس کی جڑ یا بنیاد اللہ کی وحدانیت پر ایمان لانا ہے۔ اس کے بعد رسولوں پر ایمان ، فرشتوں پر ، آسمانی کتب ، یومِ آخرت اور تقدیر کے اچھے برے ہونے پر ایمان لانا اس بنیاد پر استوار ہے۔پھر ایمان کی ستر سے زائد فروع ( شاخیں ) ہیں جن میں سب سے ہلکی شاخ راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا ہے۔

اسلام ، دین کے پانچ ارکان ( کلمہ کا اقرار ، نماز ، زکوٰة ، روزہ ، حج ) کی ادائیگی اور ان پر قائم رہنے کا نام ہے۔ اکے ہاں وہی اسلام معتبر اور قابل قبول ہے جس کے سواا للہ پر صحیح ایمان لانے سے پھوٹتے ہوں۔ ایمان کے بغیر ارکان اسلام کی ادائیگی خالص نفاق ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے دور کے منافقین تمام ارکان اسلام پر عمل کرتے تھے لیکن ان کے قلوب ایمان سے خالی تھے یا پھر وہ اسلام کی حقانیت اور محمد ﷺکی رسالت کے متعلق شک میں پڑے ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

اس لئے ان کا اسلام لانا ان کے کسی کام نہ آیا۔ تاہم ظاہراً اسلام پر عمل کرنے کی بناء پر رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا برتاؤ کیا۔ اور ان کے ” اصلی کافر “ ہونے کے باوجود انہیں قتل نہ کرنے کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ کہیں لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ محمد اپنے صحابہ کو قتل کرنے لگے ہیں۔
لاریب ، کہ شریعت فرد اور معاشرے کے ظاہر و باطن دونوں کوسدھا رنے اور سنوارنے کا اہتمام کرتی ہے۔
لیکن دنیا میں شریعت کے احکامات و قوانین لوگوں کے ظاہر ہی پر لاگو ہوتے ہیں۔ اگر مدینہ کے منافقین سے کوئی کفر اعلانیہ طور پر ظاہر ہوتا تو رسول اللہ ﷺضرور بالضرور ان سے قتال فرماتے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلم قبیلہ بنو المصطلق کے زکوٰةکی ادائیگی سے انکار کی خبر سن کر اس پر چڑھائی کا حکم دیا تھا۔ تاہم بعد میں یہ خبر غلط ثابت ہوئی تھی۔
اور جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے زکوٰة کی ادائیگی سے انکار کرنے والے قبیلہ سے قتال کیا تھا حالانکہ وہ لوگ لَآ اِلٰہَ اِلَّا مْحَمَّد رَّسُولْ اللہ کا اقرار کرتے تھے اور دیگر ارکان اسلام پر عمل پیرا تھے۔ لیکن اس اقرار اور دعوائے اسلام کے باوجود ان سے کفر کا اعلانیہ اظہار ہوا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں کافر و مرتد قرار دیا۔
گویا اسلام کے دعویدار کسی شخص یا گروہ کے اعلانیہ اظہار کفر سے اس کے اسلام کا اعتبار دنیا میں بھی ختم ہو جاتا ہے اور ایسے لوگوں کے جان و مال کی حرمت اسلامی معاشرہ پر سے اٹھ جاتی ہے۔
ہر ایسا نظریہ یا عمل جس سے ایمان کی بنیادی ارکان پر زد پڑتی ہو ، انسان کو اسلام سے خارج کر دینے کا سبب بنتا ہے اور انہیں نواقض الایمان یا نواقض الاسلام ( ایمان / اسلام کو توڑ دینے والے امور ) کہا جاتا ہے۔
ایسے امور میں سے کسی کا ارتکاب خواہ پوشیدہ یا دلی طور پر ہو ، یا ظاہراً کھلے طور پر ، دونوں صورتوں میں انسان کافر ہوجاتا ہے۔ البتہ کسی فرد یا گروہ کی تکفیر صرف اس صورت میں کی جاسکتی ہے جب اس کا کفر اعلانیہ طور پر کھل کر سامنے آجائے۔ بشرطیکہ اس پر اس مسئلہ کی بابت حجت پوری ہو چکی ہو۔ تاہم یہاں تمام حجت کے مسئلہ میں کچھ امور کا لحاظ رکھنا نہایت ضروری ہے۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں قرآن و حدیث کی تعلیمات تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہو اور ایک معمولی پڑھا لکھا شخص بھی کوشش اور جستجو اور علمائے دین سے استفسارات وغیرہ کے ذریعے دین کے صحیح منہج تک پہنچ سکتا ہو ، یہی ماحول اس شخص یا گروہ کے اتمامِ حجت کے لئے کافی ہے۔ جبکہ وہ خود اسلام کا دعویدار بھی ہو۔ ایسے کسی معاشرے میں کوئی شخص یا گروہ دین و ایمان کے بنیادی اجزاء اور عقائد کے مخالف نظریات کی آواز بلند کرے ، یا ان سے متصادم اعمال میں کھلے بندوں ملوث پایا جائے ( بلکہ اسی کو عین اسلام بھی سمجھے ! ) تو اب اس کے بطلان کے لئے مزید ” کچھ اور “ اتمامِ حجت درکار نہیں ہونا چاہئے۔
بھلا جو کوئی اسلام کا مدعی ہو اور قرآن و حدیث کی بہ آسانی دستیابی کے باوجود ان سے دین کی بنیاد نہ حاصل کر سکا ہو ، ایسے پر حجت تمام کرنے کے لئے آپ اب کس چیز اور کونسے وقت کا انتظار فرمائیں گے ؟ کفار و مشرکین سے برات اور دشمنی کا فریضہ ، جو انہیں کافر سمجھنے پر موقوف ہے ، کب تک یونہی معطل رہے گا ؟ کیا اس وقت تک ، جب تک آپ بنفسِ نفیس ان کے روبرو تشریف لے جا کر تمام قرآن کی تلاوت نہ فرما لیں ؟ اور تمام متعلقہ احادیث مع اسناد کے نہ سنا لیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اس سے پہلے بھی کافر ہیں اور اس کے بعد بھی کافر رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu