Open Menu

Madina Ilm Ka Darwaza. Maula Ali Alaihi Salam - Article No. 3436

Madina Ilm Ka Darwaza. Maula Ali Alaihi Salam

مدینہ علم کا دروازہ، مولا علی علیہ السّلام - تحریر نمبر 3436

آپ کی قرآن فہمی اور فقہی بصیرت پر صحابہ کرام کو اس قدر اعتماد تھا کہ جو مسئلہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرمادیتے وہ تمام صحابہ کرام کے نزدیک حرف آخر سمجھا جاتا اور اس کی مزید تحقیق نہ کی جاتی

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ جمعہ 15 مئی 2020

امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ ایک ایسی نادر روزگار شخصیت ہیں جو اپنی خصوصیات اور خصائل کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں۔حضرت علی علیہ الصلاة والسلام داماد مصطفی بھی ہیں اور شیر خدا بھی۔عبادت و ریاضت میں یکتا ہیں اور فصاحت و بلاغت میں بے مثال بھی۔وہ علم کی دولت سے مالا مال ہیں اور حلم آپ کی طبیعت کا خاصہ۔فاتح خیبر بھی ہیں اور شہنشاہ خطابت بھی۔

آپ حیدر کرار بھی ہیں اور صاحب ذوالفقار بھی۔سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے شوہر نامدار بھی ہیں اور حسنین کریمین کے والد بزرگوار بھی۔آپ میں بہت سے ایسے کمالات اور خوبیاں جمع ہیں جو آپ کو دیگر تمام صحابہ کرام سے ممتاز کرتی ہیں اس لیے آپ کو مظہر العجائب والغرائب بھی کہا جاتا ہے۔۔۔
امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت میں اتنی احادیث موجود ہیں کہ شاید ہی کسی اور صحابی کی شان میں وارد ہوئی ہوں۔

(جاری ہے)

شاگرد امام اعظم امام محمد فرماتے ہیں جتنی حدیثیں آپ کی فضیلت میں ہیں اتنی احادیث کسی اور صحابی کی شان میں وارد نہیں ہوئی ہوئیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کو حضرت ہارون کی طرح اپنا بھائی قرار دیا ۔بخاری و مسلم میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی روایت ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کو مدینہ طیبہ میں رہنے کا حکم ارشاد فرمایا تو حضرت علی نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے عورتوں اور بچوں پر اپنا خلیفہ بناکر کر چھوڑے جا رہے ہیں گویا حضرت علی کی خواہش تھی کہ وہ مدینہ منورہ میں رہنے کے بجائے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر داد شجاعت دیتے اور اپنی شمشیر خاراشگاف سے دشمنوں کے سر قلم کرتے جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میں تمہیں اس طرح چھوڑے جارہا ہوں جس طرح حضرت موسی حضرت ہارون کو چھوڑ کر گئے تھے فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔
۔
ترمذی میں حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ منافق علی سے محبت نہیں کرتا اور مومن علی سے بغض و عداوت نہیں رکھتا۔جبکہ مشکوٰة شریف میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے علی کو برا بھلا کہا اس نے مجھے برا بھلا کہا۔
تاریخ الخلفاء میں حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علی نے ایک کھلے میدان میں بہت سے لوگوں کو جمع کرکے پوچھا کہ میں تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ رسول اللہ نے یوم غدیرخم کے موقع پر میرے متعلق کیا ارشاد فرمایا تھا اس مجمع میں سے کم و بیش تیس افراد کھڑے ہوئے اور انہوں نے گواہی دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا جس کا میں مولا، علی اس کا مولا۔
یااللہ جو شخص علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ اور جو شخص علی سے عداوت رکھے تو بھی اس سے عداوت رکھ۔لیکن حضرت علی کی علمی شان سب سے جداتھی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے سامنے ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا علی سے زیادہ شرعی مسائل کو جاننے والا کوئی نہیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ طیبہ نہیں علم فرائض اور مقدمات کے فیصلے کرنے میں حضرت علی سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی دوسرا شخص نہیں۔
جب کہ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے حضرت علی کے سوائے کوئی بھی اس صحابی نہیں تھا جو یہ کہتا کہ جو کچھ پوچھنا چاہو مجھ سے پوچھ لو۔
حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کا علمی مقام و مرتبہ ان کی قرآن فہمی، حقیقت شناسی،غورو فکر کی صلاحیت تمام اولین و متاخرین صحابہ کرام منفرد تھی۔
اللہ کریم نے انہیں عقل و خرد کی اس قدر صلاحیتیں عطا فرمائی تھی تھی کہ لا ینحل مسئلہ بھی آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا تو وہ اس کو حل کر دیتے۔حضرت سیدنا سیدنا سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایسے پیچیدہ مسئلے سے پناہ مانگتے تھے جسے حل کرنے کے لئے حضرت علی علیہ السلام موجود نہ ہوں۔(فضائل صحابہ۔جلد دوم۔)
آپ کی قرآن فہمی اور فقہی بصیرت پر صحابہ کرام کو اس قدر اعتماد تھا کہ جو مسئلہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرمادیتے وہ تمام صحابہ کرام کے نزدیک حرف آخر سمجھا جاتا اور اس کی مزید تحقیق نہ کی جاتی۔
حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب ہمیں کسی چیز کا ثبوت حضرت علی علیہ السلام سے مل جائے تو پھر کسی اور کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ حضرت علی کی حکمت اور آپ کی فہم و فراست پر صحابہ کرام اعتماد کیوں نہ کرتے؟کیونکہ خود سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو صاحب حکمت قرار دے رکھا تھا۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حکمت دس حصوں میں تقسیم کی گئی۔نو حصے علی علیہ السلام کو دیے گئے اور ایک حصہ باقی تمام امت کو دیا گیا۔(حلیت الاولیاء۔جلد اول)
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دس خصائل۔
حضرت عمر بن میمون رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر تھا کہ 9 افراد پر مشتمل ایک وفد آیا اور حضرت ابن عباس سے الگ ہوکر کچھ باتیں کیں۔ کی جب وہ چلے گئے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اس شخص کی غیبت کر رہے تھے جس کو دس خصوصیات حاصل ہے ۔پھر اپ نے وہ خصوصیات بیان فرمائیں۔
1۔فرمایا کہ قلعہ خیبر کو فتح کرنے کے لیے یہ جھنڈا دیتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں یہ پرچم اس شخص کو دوں گا
جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ تعالی کبھی بھی اس کو شرمندہ نہیں فرمائے گا۔

2. ایک غزوہ سے واپسی پر سورة توبہ کی برات کی آیات نازل ہوئیں۔ تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو وہ آیات طیبات دے کر روانہ فرمایا ساتھ ہی حضرت علی کو ان کے پیچھے روانہ کیا اور ارشاد فرمایا کہ اعلان برات کے ساتھ فقط وہ شخص جائیگا جو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔
3.حضرت علی علیہ السلام کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا امام حسن،سیدنا امام حسین،سیدہ فاطمة الزہرا،اور سیدنا علی علیہھم السلام کو بلا کر ان پر چادر پھیلائی اور یہ دعا فرمائی یا اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے ہر طرح کی ناپاکی دور فرما دے اور خوب پاک فرما دے۔

4.حضرت علی علیہ السلام وہ شخص ہیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بعد اسلام لائے۔
5 ۔حضرت علی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ شب ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر اوڑھ کر آپ کے بستر پر سو گئے تھے۔اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے پکارا یا رسول اللہ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ تشریف لے گئے ہیں۔یوں ساری رات بستر رسالت پر آرام فرما رہے اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ پاک تشریف لے گئے۔
۔
6 غزوہ تبوک کی طرف روانگی کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو موسیٰ کے بھائی ہارون کی مانند اپنا بھائی قرار دیا۔
7.ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام حجروں کے دروازے بند کردیئے گئے لیکن حضرت علی کا دروازہ کھلا رہا۔
8.حضرت علی واحد صحابی ہیں جن کے متعلق سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کا میں ولی اس کا علی ولی۔

9. حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اللہ نے ہمیں قرآن میں خبر دی کہ وہ درخت تلے بیعت کرنے والوں سے راضی ہوگیا۔۔
10, فرمایا کہ حضرت علی اصحاب بدر میں سے تھے رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا یا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالی نے اہل بدر کے متعلق فرما دیا کہ تم جو چاہو کرو میں نے تمہاری مغفرت کردے۔(السنن الکبری النسائی۔حدیث نمبر 8355)۔

حضرت علی علیہ السلام کی حیات طیبہ کا ہر گوشہ سیرت رسول کا عکس ہے۔آپ کا بچپن گہوارہ نبوت میں گزرا۔ آپ براہ راست فیض رسالت سے فیضیاب ہوئے۔ آپ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے لاڈلی صاحبزادی کے شوہر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔آپ کے حق میں کئی آیات طیبات نازل ہوئی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک آپ کی تعریف میں ہمیشہ رطب اللسان رہی۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ تصوف کے تمام سلاسل کے سرچشمہ ہیں۔آپ سے محبت راہ سلوک کی منازل طے کرنے میں ممدومعاون ہے ہے اور آپ سے بغض جہنم کی طرف لے جانے والا ہے۔اللہ کریم ہم سب کو فیضان علی سے حظ وافر عطا فرمائے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu