Open Menu

Anokhi Fatah - Article No. 3431

Anokhi Fatah

انوکھی فتح - تحریر نمبر 3431

انسانی تاریخ میں تحمل، برداشت اور درگزر کا اس سے بہتر اور کوئی نمونہ نہیں ملتا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پتھر دل مشرکین کے دل موم کر دیے تھے۔اور وہ اس عالی شان رویے سے متاثر ہوکر اسلام کی طرف کھنچے چلے آتے تھے

بدھ 13 مئی 2020

تحریر: محمد عابد خاں


بہت ہی ویران علاقے میں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہوئے وہ کتیا اس وقت گبھراگئی جب اس نے دور سے گرد و غبار کے بادل، لاتعداد سپاہیوں کا لشکر اور دل دہلا دینے والی للکار سنی۔ جونہی یہ عالیشان لشکر جرار اسکے قریب پہنچا تو اس لشکر کے سپہ سالار نے اپنے ایک سپاہی جمیل بن سراقہ کو طلب کیا اور حکم دیا کہ کتیا کے پاس کھڑا رہے تاکہ دس ہزار سپاہیوں کا یہ لشکر بے خبری میں کتیا اور اس کے بچوں کو روند نہ ڈالے دے۔

ذرا اس لشکر کے سپہ سالار کو دیکھیں، اس کا نام محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے،جو آج مکہ میں کفر پر فیصلہ کن ضرب لگانے نکلا ہے مگر اس کو اس کتیا کے بچوں کی حفاظت کا بھی احساس ہے۔وہ آج ایک نہایت طاقتور فوج کے ساتھ مکہ کی طرف رواں دواں ہے، یہ وہی مکہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد عزیز تھا،جہاں سے چند ہی سال پہلے وہ نہایت ہی غم زدہ ہوکر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہجرت پر مجبور ہوئے تھے۔

(جاری ہے)


آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم علم کی بہترین حکمت عملی کے نتیجے میں مکہ کے مشرکین نہایت خوفزدہ ہوکر ہار مان چکے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شاندار فتح پر عاجزی اور شکر گزاری کے ساتھ اپنا سر جھکائے ہوئے تھے آپ کی داڑھی مبارک کے بال کجاوے کی لکڑی سے جا لگے تھے۔ یہ وہی مکہ ہی تو تھا جس میں آپ کو گالیاں دی گئیں،آپ پر نجاست پھینکی گئی،آپ پر پتھر پھینکے گئے،آپ کی ہجویں کہی گئیں،آپ کے راستوں میں کانٹے بچھائے گئے اور آپ کے قتل کے منصوبے بنائے گئے۔
آج وہ سب لوگ آپ سے رحمت کی امید لگائے ندامت سے نظریں جھکائے کھڑے تھے،ان میں وہ بھی تھے جنہوں نے آپ کے عزیز چچاکا دل و جگر ٹکڑے کرکے چبایا تھا۔آج یہ سب مجرم سرنگوں تھے اور دس ہزار خون آشام تلواریں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے کی منتظر تھیں۔مگر آپ نے فرمایا آج تم پر کوئی دوش نہیں، جاؤ تم سارے کے سارے آزاد ہو۔انسانی تاریخ میں تحمل، برداشت اور درگزر کا اس سے بہتر اور کوئی نمونہ نہیں ملتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پتھر دل مشرکین کے دل موم کر دیے تھے۔اور وہ اس عالی شان رویے سے متاثر ہوکر اسلام کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔فتح مکہ سے حاصل ہونے والے بے شمار سنہرے اسباق میں سے چند یہ ہیں؛
اللہ کی ذات پر پختہ یقین۔
بے خوفی اور غیر متزلزل ارادہ۔
طاقتور ہونے کے باوجود عاجزی۔
نہایت اعلی درجے کی جنگی حکمت عملی اور تدبیر۔
اور سب سے بڑھ کردرگذر، سراسر محبت اور معافی۔
اب آئیے، ذرا رمضان المبارک630ء کے اس شکستہ مگر اخلاقی طور پرپاکیزہ خیمے سے نکل کر رمضان المبارک 2020ء کے ریشمی مگر اخلاقی طور پر خستہ حال خیمے میں جھانکتے ہیں۔اس آج کے خیمے میں محبت، درگزر اور معافی نام کا کوئی سودا نہیں۔اس میں ہم نے بس وہ سجا رکھا ہے جو اچھا بکتا ہے، جس کا منڈی میں دام ذرا اچھا لگتا ہے۔ خوشخبری یہ ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیمہء رحمت کا دروازہ بدترین مشرکین پربھی بند نہ ہواتو ہمارے لئے بھی کھلا ہے۔ وہاں سے رحمت کا جھونکا ہمارے خیمے میں بھی بھی آ جائے گا،بس ہم تھوڑی سی درگزر، محبت اور معافی کا سودا رکھ لیں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu