Open Menu

Hajj Kis Par Farz Hai - Article No. 2240

Hajj Kis Par Farz Hai

حج کس پر فرض ہے - تحریر نمبر 2240

حج صاحب ِاستطاعت پر فرض ہے۔”وتزودّوا “اور حج پر جانے کے لیے حج کا اہتمام کرو جس کے پاس اخراجات نہیں ہیں اس پر حج فرض ہی نہیں ہے۔ حج اس پر فرض ہے جس کے پاس آنے جانے اور قیام کا خرچ ہو اور جتنا عرصہ اس نے گھر سے باہر رہنا ہے۔ اتنے عرصے کے

جمعرات 16 اگست 2018

مولانا امیر محمد اکرم اعوان
حج صاحب ِاستطاعت پر فرض ہے۔”وتزودّوا “اور حج پر جانے کے لیے حج کا اہتمام کرو جس کے پاس اخراجات نہیں ہیں اس پر حج فرض ہی نہیں ہے۔ حج اس پر فرض ہے جس کے پاس آنے جانے اور قیام کا خرچ ہو اور جتنا عرصہ اس نے گھر سے باہر رہنا ہے۔ اتنے عرصے کے اخراجات بچوں کو بھی دے کر جائے تاکہ وہ کسی کے محتاج نہ ہوں اور اگر اتنی مالی حیثیت نہیں تو اس پر حج فرض نہیں”فان خیرالزاد التقویٰ“ اور بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے۔

اخراجات کا اہتمام ہے تو ضرور جاﺅ اور نہیں ہے تو جو فرائض عائد ہیں انھیں پورا کرو۔ اجر اللہ نے دینا ہے۔ اس لیے کہ سفر حج مقصد نہیں۔ مقصد اللہ کی اطاعت ہے۔ حج اللہ کے احکام میں سے ایک حکم ہے۔ مگر صرف حج ہی تو اللہ کا حکم نہیں۔

(جاری ہے)

مقصد اللہ اوراللہ کے رسول کی فرمانبرداری ہے اور جو دیگر فرائض اس کے ذمے ہیں اس کی بھی اُسے فکر کرنی ہے۔ اس جذبے کے ساتھ جو فرائض جس پر عاید ہوتے ہیں وہ دیانتداری سے ادا کرے اُسے اللہ وہیں اجر عطا فرمائے گا۔

حضور نے ایسے شخص کو جس کے پاس حج کے اخراجات کی سکت نہیں، خوشخبری سنائی ہے کہ وہ جمعہ کا اہتمام کرے۔ خلوص کے ساتھ جمعہ پڑھے۔ ہر جمعہ میں حج کا درجہ پائے گا۔ اشراق کے نوافل ادا کرے۔ عمرے کا ثواب پا لے گا سو سفر کرنا غرض نہیں۔ غرض اللہ کی اطاعت ہے۔
بیت اللہ روئے زمین کا ایک ایسا ٹکڑا ہے جس پر ہرحال ہر وقت اللہ کی تجلیات برستی رہتی ہیں۔
حاجی وہاں اس حال میں حاضر ہوتا ہے کہ جس حال میں اللہ کے بندے میدانِ حشر میں اللہ کے حضور حاضر ہوں گے۔ حاجی وہ حال اسی فانی دنیا میں اسی عالم ِفناءمیں بنا کر اللہ کے رُوبرو جا کر کہتا ہے ”لبیک اللّٰھُمَّ لبیک“ اے اللہ میں حاضر ہوں”لاشریک لک لبیک“ تیرا کوئی شریک نہیں میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں” ان الحمدوالنعمة لک والملک“بے شک تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں۔
تمام نعمتیں تیری ہیں اور تمام ملک تیرا ہے۔ کسی کا اس میں کوئی دخل نہیں”لاشریک لک“ تیرا کوئی شریک نہیں۔
یہ وہ تقویٰ ہے جو انسان کی سوچ اوراس کے دل کی گہرائیوں سے تعلق رکھتی ہے۔ یہی وہ قلبی کیفیت ہے جو حج سے مقصود ہے جس کے بارے حضورِ اکرم کا ارشاد پاک ہے کہ جس نے حج کیا وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو گیا گویا وہ دنیا میں آج پیدا ہوا ہے۔
اس کے سارے گناہ دُھل گئے۔ حج سے مطلوب تو وہ باطنی کیفیت ہے کہ بندہ دِل کی گہرائی کے ساتھ خود کو اللہ کے رُوبرو کھڑا محسوس کرے اور اس کا اثرتادمِ مرگ ہی نہیں مرنے کے بعد بھی باقی رہے۔ قبر اور پھر حشر میں بھی تجلیاتِ باری اور اللہ کی حضوری نصیب رہے۔
حج اور عمرہ
بیت اللہ کے ساتھ دو عبادتیں متعلق ہیں ایک حج جو صرف ماہ ذی الحجہ کے پانچ دِنوں میں مقررہ مناسک کی ادائیگی ہے۔
حج دوسرے ایام میں نہیں ہو سکتا۔ دوسری عبادت عمرہ ہے جو حج کے پانچ دِنوں کے علاوہ باقی سارا سال ہر وقت ہو سکتا ہے۔ عمرے میں صرف تین کام ہیں ایک یہ کہ میقات سے یا میقات سے پہلے عمرہ کا احرام باندھنا دوسرے مکہ مکرمہ پہنچ کر بیت اللہ کا طواف کرنا۔ تیسرے صفا مروہ کے درمیان سعی کرنا اس کے بعد سَر کے بال کٹوا کر یا منڈوا کر احرام ختم کر دینا۔

عمرے کو حج کے ساتھ جمع کرنے نہ کرنے کے اعتبار سے حج کی تین قسمیں ہو جاتی ہیں۔ماہِ شوال سے حج کے مہینے شروع ہو جاتے ہیں یعنی شوال، ذی قعدہ اور ذی الحج کے دس دِن۔ شوال سے پہلے حج کا احرام باندھنا جائز نہیں۔ حج کی پہلی قسم قِران ہے۔
حج کے مہینوں میں میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھ لے اس کو اصطلاحِ حدیث میں قِران کہا گیا ہے۔
اس کا احرام حج کے اختتام پر کھلتا ہے۔ آخر ایام ِ حج تک حاجی کو احرام کی حالت میں رہنا ہوتا ہے۔ قِران کی افضلیت زیادہ ہے بشرطیکہ اس طویل احرام کی پابندیوں کو احتیاط کے ساتھ پورا کر سکے۔
دوسری قسم تمتع ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ میقات سے صرف عمرہ کا احرام باندھے اس احرام میں حج کو شریک نہ کرے، پھر مکہ مکرمہ پہنچ کر افعالِ عمرہ سے فارغ ہونے اور بال کٹوانے کے بعد آٹھویں ذالحج کو مسجد ِحرام سے حج کا احرام باندھے اس کو تمتع کہتے ہیں۔
اس میں یہ سہولت ہے کہ احرام کی پابندیوں سے عمرہ کے بعد فارغ ہو جاتا ہے۔
تیسری قسم کا نام افراد ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ سفر کے وقت صرف حج کی نیت کرے۔ اسی کا احرام باندھے عمرہ کو حج کے ساتھ جمع نہ کرے۔
احرام
دو اَن سِلی چادروں میں عمرہ اور حج کی نیت سے ملبوس ہونا حالت ِاحرام ہے۔ صرف نیت کرنے سے احرام شروع نہیں ہوتا بلکہ الفاظ تلبیہ پڑھنے سے شروع ہوتا ہے۔
الفاظ تلبیہ پڑھتے ہی احرام شروع ہو جاتا ہے۔ مرد حضرات اس سے پہلے سَر کو چادر سے کھول دیں اور بلند آواز سے تلبیہ کہیں۔ خواتین فرض پردے کے ساتھ آہستہ تلبیہ پڑھیں۔احرام کی حالت میں مرد سِلے ہوئے کپڑے نہیںپہن سکتا۔مرد کا سَر کو اور عورت کا چہرہ کوڈھانپنالازم ہے۔ خوشبو لگانا،خوشبودار تمباکو یا کوئی خوشبودار چیز کھانا،ناخن کاٹنا،شکار مارنایا شکاری کی مدد کرنا ممنوع ہے ۔
اللہ کریم کا ارشاد ہے کہ جو کوئی حج کا ارادہ کر لے تو پھر یہ بات یاد رکھے۔ اس سفر میں”لارفث ولا فسوق ولاجدال“کسی فحش بات یا کسی طرح کی نافرمانی یا کسی قسم کے نزاع کی دورانِ حج کوئی گنجائش نہیں۔ان باتوںسے اپنی پوری کوشش سے بچے۔
یہ ایک نہایت ضروری لیکن بہت باریک بات ہے۔ اس کا احساس رکھنا اشد ضروری ہے نیکی اور بھلائی اللہ کریم کو خوش کرنے کے لیے کی جاتی ہے لیکن انسان اس بات پر بضد رہتا ہے کہ میں ایسا کروں گا تو لوگ کیا کہیں گے۔اگر کسی نے اللہ کی رضا پرانسانوں کی رضامندی مد ِنظر رکھی تویہ باعث عذاب ہو گا۔تجارت کی غرض سے حج پر جانے سے حج ادا نہیں ہوتا۔لہٰذا اگر مقصد ہی مزدوری کرنا، پیسہ کمانا یا تجارت کرنا ہو تو پھرقبول حج نہ ہو گا۔

Browse More Islamic Articles In Urdu