Open Menu

Ramadaan Al Mubarak Ke Khusoosi Aamaal O Wazaif - Article No. 1840

Ramadaan Al Mubarak Ke Khusoosi Aamaal O Wazaif

رمضان المبارک کے خصوصی اعمال و وضائف - تحریر نمبر 1840

قرآن مجید میں اللہ نے رمضان کے احکام و مسائل کے درمیان دعاکی ترغیب بیان کی ہے۔ ”جب میرے بندے آپ سے میری بابت پوچھیں تو میں قریب ہوں ‘پکارنے والے کی پکار کو قبول کرتا ہوں جب بھی وہ مجھ کو پکارے‘ لوگوں کو چاہیے کہ وہ بھی میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔

منگل 22 مئی 2018

قرآن مجید میں اللہ نے رمضان کے احکام و مسائل کے درمیان دعاکی ترغیب بیان کی ہے۔
”جب میرے بندے آپ سے میری بابت پوچھیں تو میں قریب ہوں ‘پکارنے والے کی پکار کو قبول کرتا ہوں جب بھی وہ مجھ کو پکارے‘ لوگوں کو چاہیے کہ وہ بھی میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔
اس سے علماء اور مفسرین نے استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالی کی منشا اس انداز بیان سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ رمضان المبارک میں دعاوٴں کا بھی خصوصی اہتمام کیا جائے کیونکہ روزہ ایک تو اخلاص عمل کا بہترین نمونہ ہے۔
دوسرے ‘روزے کی حالت میں انسان نیکیاں بھی زیادہ سے زیادہ کرتا ہے راتوں کو اٹھ کر اللہ تعالی کی عبادت کرتا اور توبہ واستغفار بھی کرتا ہے۔ اور یہ سارے عمل انسان کو اللہ تعالی کے قریب کرنے والے ہیں۔

(جاری ہے)

اس لیے اس مہینے میں اللہ تعالی سے دعائیں بھی خوب کی جائیں، خصوصا افطاری کے وقت اور رات کے آخری پہر میں‘ جب اللہ تعالی خود آسمان دنیا پر نزول فرما کر لوگوں سے کہتا ہے کہ مجھے سے مانگو میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔

تاہم قبولیت دعا کے لیے ضروری ہے کہ دعا کے آداب و شرائط کا بھی اہتمام کیا جائے۔ جیسے اللہ تعالی کی حمد وثنا اورنبی ﷺ پر درود کا اہتمام - حضور قلب اور خشوع کا اظہار۔ اللہ تعالی کی ذات پر اعتماد و یقین۔تسلل وتکرار سے دعا کرنا اور جلد بازی سے گریز۔ صرف حلال کمائی پر قناعت اور حرام کمائی سے اجتناب وغیرہ۔
اس سلسلے میں چند ارشادات ملاحظہ ہوں۔
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالی سے اس طرح دعا کرو کہ تمہیں یہ یقین ہو کہ وہ ضرور دعا قبول فرمائے گا اور یہ بھی جان لو کہ اللہ تعالی غافل ہے پروا دل سے نکلی ہوئی دعا قبول نہیں فرماتا۔
ایک اور حدیث میں فرمایا:
جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو اس طرح دعا نہ کرے: اے اللہ اگر تو چاہے تو مجھے معاف کر دے اگر تو چاہے تو رحم فرما“بلکہ پورے یقین از عان اور الحاح واصرار سے دعا کرے۔
اس لیے کہ اسے کوئی مجبور کرنے والا نہیں۔
ایک حدیث میں فرمایا:
بندے کی دعا ہمیشہ قبول ہوتی ہے جب تک وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعانہ ہواور جلد بازی بھی نہ کی جائے۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! جلد بازی کا مطلب کیا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: وہ کہتا ہے میں نے دعا کی اور بار بار دعا کی۔ لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ میری دعا قبول " نہیں ہوئی۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں وہ سست اور مایوس ہو جاتا اور دعا کرنا چھوڑ بیٹھتا ہے۔

نبی کریمﷺنے ایک آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے پراگندہ حال‘ گردوغبار میں اٹا ہوا اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتا اور کہتا ہے
اے رب !اے رب ! (کرتے ہوئے دعا کرتا ہے) حالانکہ اس کا کھانا حرام کا ہے اس کا پینا حرام کا ہے اور اس کا لباس بھی حرام کا ہے حرام کی غذا ہی اس کی خوراک ہے تو ایسے شخص کی دعا کیوں کر قبول ہوسکتی ہے؟
مذکورہ احادیث سے ان آداب و شرائط کی وضاحت ہو جاتی ہے جو اس عنوان کے آغاز میں بیان کیے گئے ہیں۔
ان آداب و شرائط کوملحوظ رکھتے ہوئے دعا کی جائے تو یقینا وہ دعا قبول ہوتی ہے یا اس کے عوض کچھ اور فوائد انسان کو حاصل ہو جاتے ہیں۔ جیسے ایک حدیث میں نبیﷺ نے فرمایا:
جو مسلمان بھی کوئی دعا کرتا ہے۔ بشرطیکہ وہ گناہ اورقطع رحمی کی نہ ہو تو اللہ تعالی اسے دعا کی وجہ سے تین چیزوں میں سے ایک چیز ضرور عطا کرتا ہے یا تو فی الفور اس کی دعا قبول کرلی جاتی ہے یا اللہ تعالی اس کو اس کے لیے ذخیرہ آخرت بنا دیتا ہے یا اس سے اس کی مثل اس کوپہنچنے والی برائی کو دور کر دیتا ہے۔
یہ سن کر صحابہ نے کہا: تب تو ہم خوب دعائیں کیا کریں گے۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالی کے پاس بھی بہت خزانے ہیں۔
ایک دوسرے کے حق میں غائبانہ دعا کی فضیلت: انسان کو صرف اپنے ہی لیے دعا نہیں کرنی چاہئے بلکہ اپنے دوست احباب اور خویش واقارب کے حق میں پرخلوص دعائیں کرنی چاہئیں۔ نبیﷺ نے فرمایا:
مسلمان کی اپنے (مسلمان) بھائی کے حق میں غائبانہ دعا قبول ہوتی ہے۔
اس کے سر پر ایک مقررہ فرشتہ ہوتا ہے جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو اس پر مقررہ فرشتہ کہتا ہے آمین (اے اللہ! اس کی دعا قبول فرمالے) اور تجھے بھی اس کی مثل اللہ وے۔
بددعا سے اجتناب کیا جائے: انسان فطرتا کمزور اور جلد باز ہے اس لیے جب وہ کسی سے تنگ آ جاتا ہے تو فورا بد دعائیں دینی شروع کر دیتا ہے حتیٰ کہ اپنی اولاد کو اور اپنے آپ کو بھی بد دعائیں دینے سے گریز نہیں کرتا۔
اس لیے نبی کریمﷺ نے فرمایا:
اپنے لیے بددعا نہ کرو اپنی اولاد کے لیے بددعا نہ کرو اپنے مال اور کاروبار کے لیے بد دعا نہ کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھاری بددعا ایسی گھڑی کے موافق ہو جائے‘ جس میں اللہ تعالی انسان کو وہ کچھ عطا فرما دیتا ہے جس کا وہ سوال کرتا ہے اور یوں وہ تمھاری بددعائیں تمھارے ہی حق میں قبول کر لی جائیں
مظلوم کی آہ سے بچو:یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان دوسرے مسلمان بلکہ کسی بھی انسان پرظلم نہ کرے۔
اس لیے کہ مظلوم کی بد دعا فوراََ عرش پر پہنچتی ہے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
مظلوم کی بددعا سے بچو اس لیے کہ اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی آڑ نہیں ہوتی ،،
حق تلفیوں کا ازالہ اور گناہوں سے اجتناب کریں: یہ مہینہ توبہ واستغفار اور اللہ کی رحمت و مغفرت کا مہینہ ہے۔ لیکن اس میں ایک مسلمان کثرت سے توبہ واستغفار کرتا ہے اور توبہ واستغفار سے حقوق اللہ تعالی میں روا رکھی گئی کوتاہیاں تو شاید اللہ معاف فرما دے۔
لیکن حقوق العباد سے متعلق کوتاہیاں اس وقت تک معاف نہیں ہوں گی جب تک دنیا میں ان کا ازالہ نہ کرلیا جائے۔ مثلاََ کسی کا حق غصب کیا ہے تو اسے واپس کیا جائے۔ کسی کو سب وشتم یا الزام و بہتان کا نشانہ بنایا ہے تو اس سے معافی مانگ کر اسے راضی کیا جائے کسی کی زمین یا کوئی اور جائیداد ہتھیائی ہے تو وہ اسے لوٹا دے۔ جب تک ایک مسلمان اس طرح تلافی اور از الہ نہیں کرے گا اس کی توبہ کی کوئی حیثیت نہیں۔
اسی طرح وہ کسی اور معاملے میں اللہ تعالی کی نافرمانیوں کا ارتکاب کر رہا ہے۔ مثلاََ رشوت لیتا ہے سود کھاتا ہے حرام اور ناجائز چیزوں کا کاروبار کرتا ہے یا کاروبار میں جھوٹ اور دھوکے سے کام لیتا ہے تو جب تک ان گناہوں اور برکتوں سے بھی انسان باز نہیں آئے گا اس کی توبہ بے معنی اور مذاق ہے۔
اسی طرح اس مہینے میں یقینا اللہ تعالی کی رحمت و مغفرت عام ہوتی ہے۔
لیکن اس کے مستحق وہی مومن قرار پاتے ہیں جنہوں نے گناہوں کو ترک کر کے اور حقوق العباد ادا کر کے خالص توبہ کرلی ہوتی ہے۔ دوسرے لوگ تو اس مہینے میں بھی رحمت و مغفرت الہی سے محروم رہ سکتے ہیں۔
اپنے دلوں کو باہمی بغض و عناد سے پاک کریں: اللہ تعالی کی رحمت و مغفرت کامستحق بننے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم آپس میں اپنے دلوں کو ایک دوسرے کی بابت بعض وعناد سے پاک کریں ، قطع رحمی سے اجتناب کریں اور اگر ایک دوسرے سے دنیوی معاملات کی وجہ سے بول چال بند کی ہوئی ہے تو آپس میں تعلقات بحال کریں۔
ورنہ یہ قطع رحمی‘ ترک تعلق اور باہم بغض وعناد بھی مغفرت الہی سے محرومی کا باعث بن سکتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ہر اس بندے کو معاف کر دیا جاتا ہے جو اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرا تا سوائے اس آدمی کے کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درمیان دشمنی اور بغض ہو۔
ان کی بابت کہا جاتا ہے کہ جب تک یہ باہم صلح نہ کر لیں اس وقت تک ان کی مغفرت کے معاملے کو موخر کردو۔صلح کرنے تک ان کے معاملے کو موخر کر دو۔ ان کے باہم صلح کرنے تک ان کے معاملے کو موخر کر دو،
اس حدیث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپس میں بغض وعناد اور ترک تعلق کتنا بڑا جرم ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے تین دن سے زیادہ بول چال بند رکھنے او تعلق ترک کئے رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔
چنانچہ ایک حدیث میں فرمایا:
کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلق منقطع کیے رکھے۔ اور جس نے تین دن سے زیادہ تعلق توڑے رکھا اور اسی حال میں اس کو موت آ گئی تو وہ جہنمی ہے۔
اسی طرح قطع رحمی کا جرم ہے یعنی رشتے داروں سے رشتے ناطے توڑ لینا، ان سے بدسلوکی کرنا اور ان سے تعلق قائم نہ رکھنا۔ ایسے شخص کے بارے میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا،
اللہ تعالی ہمیں ان تمام اعمال سے بچائے جو جنت میں جانے سے رکاوٹ بن سکتے ہیں اور ایسے اعمال کرنے کی توفیق سے نوازے جو ہمیں رحمت و مغفرت الہی کا مستحق بنادیں۔ (آمین)

Browse More Islamic Articles In Urdu