Open Menu

Ramadan Neki Ki Behtar Mauqa - Article No. 3388

Ramadan Neki Ki Behtar Mauqa

رمضان نیکی کا بہتر موقع - تحریر نمبر 3388

برکتوں کی واپسی اور دلوں کو زندہ کرنے کے لیے رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ نے عطا کیا اس کی برکت کے حوالے سے اللہ نے فرمایا کہ میرے اور موسیٰ کی درمیان بھی ستر پردے ہیں لیکن میرے نبی کی اُمت جب رمضان کے روزے رکھیں گے اور افطار کے وقت روزے دار اور میرے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوگا

ہفتہ 25 اپریل 2020

تحریر: شمائلہ ملک


بھی کبھار ہم بغیر وجہ کے خود کو بے سکون محسوس کرتے ہیں۔اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتیں ہیں۔آج کل کی بے چینی اور مایوسی کی سب سے بڑی وجہ دنیا کا قرب اور دین سے دوری ہے۔ جب انسان دنیا کی نعمتوں کو بھول بیٹھتا ہے اور اس خوش فہمی میں ہوتا ہے کہ دنیا کی سب نعمتیں صرف اسی کے لیے ہی پیدا کی گئیں ہیں اور بنانے والے کا شکر ادا نہیں کرتا۔

پھر آہستہ آہستہ جیسے سب خوشیوں کے دروازے کھلتے ہیں۔ ویسے ہی بند ہونے لگتے ہیں۔ انسان خود کو تنہا اور بے سکون محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہ مایوسی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس دنیا سے کنارہ کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔
اس کی ایک مثال لیتے ہیں جیسے گائے کا بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے اسے آ زاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

وہ ِادھر ُادھر آزادی سے بھاگ سکتا ہے۔

لیکن جب وہ آزادی کو اپنی طاقت سمجھ کر نقصان کرنے لگتا ہے ساتھ والے جانوروں کو نقصان دینے لگتا ہے انہیں مارنے لگتا ہے اپنے مالک کو نقصان پہنچانے لگتا ہے تو وہ آ زادی سے اچانک سخت جکڑ میں آ جاتا ہے۔
اُسے ایک رسی کی بجائے دونوں طرف رسیوں سے باندھ دیا جاتا ہے اب وہ آ سانی سے حرکت نہیں کر سکتا۔ اردگرد والوں کو نقصان بھی اب نہیں پہنچا سکتا۔
اب وہ خود کو بہت بے بس محسوس کرتا ہے۔ بالکل ایک انسان کی طرح جیسے انسان بہت گناہ کرنے کے بعد جب اس پاک ذات کو بھول کر طاقت کے نشے میں آ تا ہے تو ایک وقت آ تا ہے اس کے لیے خوشیوں اور کامیابیوں کے دروازے بھی بند ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ مایوس اور کمزور ہونے لگتا ہے اچانک اسے امید کی کرن نظر آ تی ہے اور وہ ہوتا ہے رب کا در۔
جیسے ایک بچہ جوکہ بول نہیں سکتا لیکن جب اسے بھوک پیاس لگتی ہے یا پیٹ،کان میں درد ہو تو وہ زاروقطار رونے لگتا ہے اور ماں رونے سے ہی پہچان لیتی ہے کہ اسکے بچے کو یا تو بھوک لگی ہے یا پھر کوئی تکلیف ہے وہ فوراً سب کام چھوڑ کر اپنے بچے کو پیار سے اُٹھاتی ہے دودھ دیتی ہے اور بچہ سکون میں آ کر سو جاتا ہے اور وہ رب تو اپنے بندوں کو ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے اور اپنے بندے کو کیسے تکلیف میں دیکھ سکتا ہے۔
اسی طرح بندہ اپنے کئے ہوئے گناہوں پر شرمندہ ہو کر معافی مانگ کر روتا ہے تو وہ رب فورًا معاف کر دیتا ہے۔ اس کی تکلیف سمجھ جاتا ہے اور پھر سے خوشیوں کے راستے کھول دیتا ہے۔
آج کے دور میں ہم تقریباً ہر انسان کو پریشان اور افراتفری میں دیکھتے ہیں۔ دین کے بتائے گئے احکامات کی پیروری نہیں کرتے۔ جیسے صاحب استطاعت صبح و شام اچھے اچھے کھانے کھاتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ ہمسائے کے گھر میں اگر چولہا نہیں جلا تو کچھ کھانا اُنہیں بھجوا دیں۔

اسی طرح یتیم مسکین کی کفالت کا حکم دیا گیا۔آپٌ نے فرمایا کہ قیامت کے دن یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنے والا میرے ساتھ ایسے ہوں گا جیسے میرے ہاتھ کی دو اُنگلیاں۔ لیکن ہم تو زیادہ نقصان بھی یتیموں کو پہنچاتے ہیں۔ ان کے پاس اگر مال ہو تو وہ ہڑپ کر لیتے ہیں بغیر کسی دنیاوی و دینی خوف و خطرہ کے۔
جس سے دلوں کا سکون جانے لگا ہے اور گھروں میں برکتیں اور اتفاق ختم ہوتا جارہا ہے اور ان برکتوں کی واپسی اور دلوں کو زندہ کرنے کے لیے رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ نے عطا کیا اس کی برکت کے حوالے سے اللہ نے فرمایا کہ میرے اور موسیٰ کی درمیان بھی ستر پردے ہیں لیکن میرے نبی کی اُمت جب رمضان کے روزے رکھیں گے اور افطار کے وقت روزے دار اور میرے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوگا اس وقت میں اس کی ہر بات ہر دعا قبول کروں گا۔
تو ہمارے گناہوں کی معافی کا مہینہ بھی ہے تو ضروری ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو اچھے کاموں پر لگانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے دین و دنیا کو سنواریں۔اس طرح ہی ہم اپنی زندگی کو بھی خوشگوار بنا سکتے ہیں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu