Open Menu

Roza Amaal Ki Taheer Ka Zarya - Article No. 3125

Roza Amaal Ki Taheer Ka Zarya

روزہ اعمال کی تطہیر کا ذریعہ - تحریر نمبر 3125

رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ۔

بدھ 8 مئی 2019

لیاقت بلوچ
رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ اس ماہ مبارکہ میں جن فیوض وبرکات کو حاصل کرنا چاہیے تھا جس کیلئے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تلقین فرمائی تھی یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا جو طریقہ رہا ،ہم اس پر اچھی طرح عمل نہ کر سکے یہ ایسا مہینہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے روزہ فرض اور قیام سنت قرار دیا ہے ۔
اس ماہ میں اگر کوئی ایک نفل ”نیکی“سر انجام دیتا ہے تو اسے ایک فرض ادا کرنے کے برابر ثواب ملتا ہے اور ایک فرض ادا کرنے والے کو ستر فرائض کے برابر اجر ملتا ہے ۔یہ خیر خواہی اور غم خواری کا مہینہ ہے ۔
ایک ایسا مہینہ جس میں مومن کا رزق بڑھادیا جاتا تھا۔یہ مہینہ جہاں انفرادی اصلاح ،تزکیہ نفس اور عبادات کا تقاضا کرتا ہے وہیں خلق خدا سے محبت ،ہمدردی اور خیر خواہی کا بھی متقاضی ہے ۔

(جاری ہے)

اور سب سے بڑی خیر خواہی تو یہی ہے کہ انسانیت اپنے خالق کائنات کے بتائے ہوئے طریقہ زندگی کو نہ صرف خود اختیار کرے بلکہ دوسروں کو بھی بندگی رب کے راستہ پر لگایا جائے تاکہ وہ اپنے نفس کی بندگی کی بجائے رب کی خواہش ومرضی کے مطابق اپنی پوری زندگی گزار سکیں ۔
اللہ کے فضل وکرم سے ایک مرتبہ پھر یہ ماہ مبارکہ ہمارے اوپر سایہ فگن ہے۔رمضان المبارک کا مقصود مغفرت ،رحمت اور جہنم سے نجات ہے ۔
ایمان وتقویٰ اس کا زاد راہ ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینہ سے ہی رمضان المبارک کی تیاری شروع کر دیتے تھے اور لوگوں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔
نیت وارادہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ”انماالاعمال بالنیات“یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔اس لیے پہلی چیزنیت اور مصمم ارادہ ہے ۔
کیونکہ نیت شعور اور احساس پیدا کرتی ہے ۔یعنی ہر کام صرف اور صرف اللہ کی رضا کے حصول اور اجر وانعام حاصل کرنے کے لیے ہو۔چنانچہ اعمال میں صحیح نیت کی روح ہوتو وہ اثر آفرینی ،نشوونما اور نتیجہ خیزی کی قوت رکھتی ہے۔
تلاوت قرآن
رمضان اور قرآن کا آپس میں گہر ا تعلق ہے اس لیے سب سے زیادہ جس چیز کا اہتمام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے شب وروز قرآن کی صحبت ومعیت میں بسر ہوں ۔
رمضان المبارک کا مہینہ اپنی مخصوص عبادات یعنی روزے اور قیام اللیل کوکسی نہ کسی صورت میں قرآن مجید پر مرکوز کر دیتا ہے ۔اس مہینے کا حاصل قرآن سننا ،پڑھنا اور قرآن سیکھنا اور اس پر عمل کرنے کی استعداد پیدا کرنا ہے ۔تاکہ دل ودماغ وجسم سب تلاوت کے کام میں شریک ہو جائیں۔ اسے خود پڑھاجائے پھر اس پر عمل کیا جائے اور دوسروں کو بھی پڑھنے اور عمل کی ترغیب دی جائے۔

احتساب وجائزہ
روزہ صرف پیٹ کا روزہ نہیں ہے۔آنکھ اور کان کا بھی روزہ ہے ۔زبان اور ہاتھ کا بھی روزہ ہے یعنی اس دوران ہماری آنکھ وہ نہ دیکھے ،کان وہ نہ سنے ،زبان وہ نہ بولے ،ہاتھ پاؤں وہ کام نہ کریں جو اللہ تعالیٰ کوناپسند ہیں ۔یہ ہمیں احتساب کا موقع بھی فراہم کرتا ہے ۔اس پورے معاشرے کے ٹھیک ہونے سے پہلے ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کی اکائی یعنی فرددرست ہو۔
روزہ ہمیں غیبت ،چغلی ،لعن طعن ،
بدگمانی ،تکبیر ،ظلم ،غصہ ،جھوٹ ،وعدہ خلافی ،بدنگاہی ،حسد ،بغض وغیرہ سے دور رہنے کی ہدایت دیتاہے۔
نماز باجماعت
قرآن مجید میں جگہ جگہ نماز با جماعت قائم کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور نماز باجماعت قائم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ نماز کے تمام حقوق ادا کیے جائیں ۔نماز کے حقوق کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ اذان کے بعد سب کام چھوڑ کر مسجد پہنچیں اور تکبیر تحریمہ کے ساتھ پہلی صف میں نماز ادا کرنے کی کوشش کریں ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ”جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ وہ مطیع وفرمانبردار بندے کی حیثیت سے روز قیامت اللہ سے ملے ،تو اس کو پانچوں نمازوں کی دیکھ بھال کرنی چاہیے اور انہیں مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرنا چاہیے․․․․․․․
اہل ایمان باقاعدگی کے ساتھ نماز تراویح کا اہتمام کریں ۔رات کے آخری تہائی حصے میں پڑھی جانے والی نماز تہجد بھی تقویٰ کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے ،اس کا بھی التزام کرنے کی کوشش کریں ۔
سحر سے ذراقبل اُٹھ کر آپ باآسانی پورا ماہ صلوٰة اللیل کا اجر حاصل کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ وہ معاف کرنے والا اور زبردست درگزرکرنے والا ہے ۔اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بھی صبر کرنے والوں میں سب سے افضل اور معاف کرنے والوں میں سب سے بہتر تھی ۔
شھر رمضان عفوودرگزر ،بخشش ورحمت اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے ۔
جس طرح ہم خود اللہ سے معافی کے طلب گار ہوتے ہیں اسی طرح لازم ہے کہ ہم ستانے والوں کو معاف کردیں کیونکہ ارشاد بانی ہے کہ :”جس نے معاف کیا اور اپنی اصلاح کرلی اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے ۔بلاشبہ وہ ظالموں کی پسند نہیں کرتا۔“اسی طرح سورة النساء میں فرمایا گیا ہے کہ :”تم نیکی اعلانیہ کرویا چھپ کر تم کسی کی زیادتی کو معاف کرو،بے شک اللہ معاف کرنے والا اور بدلہ لینے پر قادر ہے ۔
بلاشبہ آپ کے ساتھ زیادتی کرنے والے کے لیے آپ کی معافی آپ کو اللہ کے قریب لے جائے گی اور اس کے بدلے بہترین اجر ملے گا ۔اس لیے اپنے دلوں کو صاف کیجیے اور ساتھیوں اور قرابت داروں کی فروگزاشتوں کو معاف کرکے قلبی تعلق پیدا کیجیے۔کیونکہ بے شک صبر اور معافی عظیم کاموں میں سے ہیں۔“

Browse More Islamic Articles In Urdu