Open Menu

Rozay Ki Ehmiyat Wa Afadiyat - Article No. 3146

Rozay Ki Ehmiyat Wa Afadiyat

روزے کی اہمیت وافادیت - تحریر نمبر 3146

روزہ اسلامی معاشرے کی پہچان اور اہل اسلام کا اہم ترین عملی امتیاز ہے

جمعہ 17 مئی 2019

حافظ غلام صابر
روزہ اسلامی معاشرے کی پہچان اور اہل اسلام کا اہم ترین عملی امتیاز ہے اور یہ بات کسی وضاحت کی محتاج نہیں کہ توحیدورسالت اور نماز کے بعد اسلام کا تیسرا بنیادی رکن روزہ ہے۔روزے 10شعبان المعظم سن دو ہجری میں مسلمانوں پر فرض کیے گئے۔اللہ رب العالمین نے قرآن کریم کے دوسرے پار ہ میں ارشاد فرمایا:”اے ایمان والو تم پر روزے اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پر ہیز گار بن جاؤ۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ روزے صرف مسلمانوں پر ہی فرض نہیں کیے گئے بلکہ پہلے انبیاء علیہم السلام اور ان کی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔ان کے روزے مسلسل ایک ماہ تک نہیں بلکہ ان کی صورت ہمارے روزوں سے مختلف تھی۔

(جاری ہے)

اسی آیت مبارکہ کے آخری حصے میں روزے کا مقصد بیان فرمایا گیا ہے ۔وہ یہ ”تاکہ تم پرہیز گاربن جاؤ“۔


اگر ایک مسلمان روزہ رکھ کر بھی تقویٰ حاصل نہیں کر پاتا تو وہ روزے کے حقیقی مقصد کے حصول سے محروم رہتا ہے ۔تقویٰ کا منبع دل ہے اور روزے کی حالت میں دل کی کیفیات واقعتا بدل جاتی ہیں۔روزے کو حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈھال قرار دیا گیا ہے اور ڈھال ہمیشہ دشمن کے مقابلے میں دفاع کے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔
چونکہ روزے میں نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے ۔
اس سے نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے ۔جس سے ضبط نفس اور حرام سے بچنے کے لیے قوت حاصل ہوتی ہے ۔یہی وہ بنیادی عمل ہے جس کے ذریعے انسان گناہوں سے بچا رہتا ہے ۔روزہ ہمیں خود پر قابو پانے اور نفسانی خواہشات کو روکنا سکھاتا ہے ۔ایک ماہ تک مسلسل روزے رکھنے کے باعث ہم عام زندگی میں مختلف علتوں مثلاً سگریٹ نوشی،شراب نوشی اور بدزبانی وغیرہ سے چھٹکارہ پا سکتے ہیں
۔

شرعی اعتبار سے روزے کی نیت کے ساتھ طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کوئی بھی چیز کھانے پینے،ازدواجی تعلقات سے پرہیز (اور اللہ جل جلالہ کی رضا کے لیے ہر قسم کی برائی مثلاً جھوٹ ،چغلی ،
غیبت ،فحش گوئی ،بدگمانی ،بدکلامی اور لڑائی ،جھگڑا وغیرہ سے بچے رہنے)کانام روزہ ہے ۔روزے سے پہلے نیت کرنا لازم ہے نیت دل کے پختہ ارادے کانام ہے ۔ورنہ روزے کی نیت کیے بغیر محض کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے پر ہیز کرنے سے ہر گز روزہ نہیں ہو گا۔

سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”روزہ اور قرآن بندے کے لیے قیامت کے دن شفاعت کریں گے۔”روزہ عرض کرے گا“اے رب کریم جل جلالہ میں نے اسے کھانے اور خواہشوں سے روکے رکھا میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما۔“قرآن کہے گا “میں نے اسے رات میں سونے سے باز رکھا میری شفاعت اس کے لیے قبول فرما۔“پس دونوں کی شفاعتیں قبول ہوں گی۔

روزے کے لیے بنیادی شرط مسلمان اور عاقل ہونا،دوسری شرط بالغ اور تندرست ہونا ہے اگر کوئی شخص کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو کہ روزہ رکھنے سے مرض کے بڑھ جانے کا خدشہ ہویا بھوک اور پیا س کی شدت سے جان جانے کا اندیشہ ہوتو اس صورت میں کسی عالم دین اور ڈاکٹر کے مشورے سے روزہ چھوڑ سکتا ہے لیکن تندرست ہونے پر اس کی قضا لازم ہے ۔
اگر کوئی شخص اتنا کمزور ہو یا بڑھاپے کی وجہ سے بہت زیادہ لاغر ہو جائے کہ اسے دوبارہ طاقت آنے کی امید بھی نہ ہوتو اس کے لیے رخصت ہے۔
وہ ہر روزے کے بدلے صدقہ فطر کی مقدار میں فدیہ دے یا کسی فقیر مسکین کو پیٹ بھر کر دو وقت کا کھانا کھلائے۔یاد رہے کہ یہ رعایت صرف معذور دائمی مریضوں کے لیے ہے تندرست وتوانا کو روزہ وہی رکھنا ہو گا۔مسافر کے لیے بھی روزہ نہ رکھنے میں رعایت ہے ۔
بعد میں اس کی قضا لازم ہے دوران سفر اگر روزہ تکلیف کا باعث نہ بنے روزہ رکھنا افضل ہے ۔
میدان جنگ میں اگر روزہ کمزوری کی وجہ یا کسی روکاوٹ کا سبب بنے تو ایسے مجاہد کے لیے بھی رخصت ہے۔
کسی شرعی عذر کی وجہ سے رمضان المبارک کا یا نفلی روزہ ٹوٹ جائے تو اس کی قضا لازم ہے ۔لیکن اگر کوئی شخص کسی شرعی عذر کے بغیر رمضان المبارک کا روزہ توڑ دے تو قضا کے ساتھ کفار ہ ادا کرنا بھی لازم ہو گا۔شریعت میں اس کم از کم مقدار تسلسل کے ساتھ 60دن کے روزے رکھنا یا ساٹھ مساکین کو پیٹ بھر کر دو وقت کا کھانا کھلاناہے۔
روزہ عبادت کے ساتھ ساتھ صحت انسانی کے لئے بھی بہت مفید ہے ۔
ماہرین طب کا کہنا ہے کہ روزے سے انسانی جسم میں کوئی نقص یا کمزوری واقع نہیں ہوتی بلکہ روزہ رکھنے سے صرف دو کھانوں کا درمیانی وقفہ معمول سے کچھ زیادہ ہوتا ہے ۔انسانی جسم ایک مشین کی طرح ہے جو خود کا رانداز میں اپنے کام سر انجام دیتا رہتا ہے ۔لیکن جس طرح مشین کو مسلسل کام کرنے کے بعد آرام کی ضررت ہوتی ہے اسی طرح ہمارے جسمانی اعضاکوبھی مسلسل کام سے آرام کی ضرورت ہوتی ہے ۔
رمضان المبارک میں یہ کام بخوبی سر انجام پاتا ہے ۔ایک مہینہ کم کھانے پینے کے باعث ہمارا جسم آرام کرتا ہے اور یہ پھر سے پورے سال کے کام کے لیے تیار ہوجاتاہے۔
ماہ رمضان کے روزے صرف روح کی پاکیزگی ہی نہیں بلکہ جسم کے بہت سے مسائل کا حل بھی ہیں۔طبی ماہرین اس بات کی تصدیق کرچکے ہیں کہ روزہ مذہبی عبادت کے ساتھ ساتھ جسمانی فوائد بھی پہنچاتا ہے ۔
ماہ رمضان کے روزے نظام انہضام کو ایک ماہ کے لئے آرام مہیا کرتے ہیں ۔درحقیقت اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگرو معدہ پر ہوتا ہے کیونکہ معدہ کھانا ہضم کرنے کے علاوہ مزید اعمال بھی سر انجام دیتا ہے جس وجہ سے اس پرتھکن طاری ہو جاتی ہے ۔دوسری طرف روزہ کے ذریعے جگر کو چار سے چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے جو روزہ کے بغیر قطعی ناممکن ہے ۔کیونکہ معمولی خوراک بھی اگر معدہ میں داخل ہو جائے تو پورا نظام انہضام اپناکام شروع کر دیتا ہے اور جگر فوراً مصروف عمل ہو جاتا ہے ۔
سائنسی نقطہ نظر سے ماہرین طب کا دعویٰ ہے کہ اس آرام کا وقفہ ہفتے میں ایک دن اور سال میں ایک ماہ ضرور ہونا چاہیے۔
دوران روزہ خون کی مقدار میں کمی ہوجاتی ہے جوکہ دل کے لیے فائدہ مند ہے۔مزید برآں آج کا انسان مصروف ترین زندگی کے باعث شدید تناؤ یاٹینشن کا شکار ہے۔رمضان کے ایک ماہ کے روزے بطور خاص ذہنی تناؤ کم کرکے انسان کو بہت زیادہ فائدے پہنچاتے ہیں ۔
پھیپھڑے براہ راست خون صاف کرنے اور سانس کے نظام میں بنیادی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس لئے ان پر بلاواسطہ روزے کے اثرات پڑتے ہیں۔اگر نالیوں میں خون منجمد ہو جائے تو روزے کی وجہ سے(نالیاں صاف ہونے سے)یہ شکایت بہت جلد رفع ہوجاتی ہے ۔
حالت روزہ میں پھیپھڑے فضلات کو بڑی تیزی کے ساتھ خارج کرتے ہیں اس سے خون اچھی طرح صاف ہونے لگتا ہے اور خون کی صفائی سے تمام جسمانی نظام میں صحت کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔
جو افراد اپنا وزن کم کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے رمضان کا مہینہ ایک نادر موقع ہے ۔حالت روزہ میں کیلوریز کی مقدار میں کثرت سے کمی واقع ہوتی ہے اور یوں وزن کم ہوتا ہے ۔دن کا طویل حصہ روزے میں گزارنے کے بعد انسانی جسم میں موجودزہریلا مواد اور دیگر فاسد مادے ختم ہو جاتے ہیں یوں جسم کو فاسد مادوں سے نجات ملتی ہے ۔
روزے کی حالت میں انسانی جسم میں موجود ایسے ہار مونز حرکت میں آجاتے ہیں جو بڑھاپے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں ۔
روزے سے انسانی جلد مضبوط اور اس پر موجود جھریوں میں کمی آتی ہے۔ماہرین کے مطابق روزہ دل ودماغ اور اعصاب کو سکون فراہم کرتا ہے ۔روزہ ظاہری خوبصورتی میں بھی اضافہ کرتا ہے۔روزے کے دوران ناخن اور سر کے بالوں کی نشونما اور ان کی مضبوطی میں اضافہ ہوتا ہے ۔
روزے کی حالت میں جسم ان ہارمونز کو پھیلاتا ہے جو جلد کی خوبصورتی، ناخنوں کی چمک اور بالوں کی مضبوطی کا سبب بنتے ہیں ۔

ماہ رمضان میں رات کو20رکعات نماز تراویح ادا کرنے سے جسمانی ورزش بھی ہوتی ہے ۔جس سے نہ صرف روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں بلکہ انسانی جسم بھی تندرست رہتا ہے ۔روزہ دار سحری کھانے کے بعد سارا دن خود کو کھانے پینے سے روکے رکھتا ہے اور مغرب کے وقت افطار کرتا ہے ۔ایک روزہ دار کے لئے سارے دن بھوکے پیٹ رہنے کے بعد افطاری نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے ،لیکن افطاری کے وقت بد پر ہیزی کے باعث صحت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ،کیونکہ ہم افطاری کے وقت بہت زیادہ اور بہت کچھ کھانا چاہتے ہیں ۔

افطارے کے وقت ہمیں ٹھنڈے مشروبات اور چکناہٹ والی غذائیں مثلاً سموسے،پکوڑے وغیرہ سے اجتناب کرنا چاہیے۔سادہ پانی یا پھل(کھجور)کے ساتھ روزہ افطار کریں ۔پھل کو رات کے کھانے کے ساتھ ملانا درست نہیں کیوں کہ ایسا کرنے کی صورت میں کھانا ہضم ہونے میں مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے ۔کھانا ہمیشہ آہستہ آہستہ اور چبا چبا کر کھائیں ۔کھانا کھانے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ سارا دن بھوکا
رہنے کے بعد اگر آپ کو جسم یک دم بہت زیادہ غذا حاصل کر لیتا ہے تو اس سے نظام انہضام کے بگڑنے کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر امراض بھی جنم لیتے ہیں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu