Open Menu

Shaab E Qadar Ummat Mohammadiyaa Per Rehmat Khas - Article No. 3167

Shaab E Qadar Ummat Mohammadiyaa Per Rehmat Khas

شبِ قدر اُمتِ مُحمدّیہ پر رحمت خاص - تحریر نمبر 3167

اس رات اللہ کی رحمت خاص کی تجلی آسمان دنیا پر ہوتی ہے

ہفتہ 1 جون 2019

مولانا حافظ مجیب الرحمن
رمضان المبارک کے بابرکت ومقدس مہینہ میں عطا ہونے والی”شبِ قدر“کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہزار مہینوں سے افضل اور بہتر قرار دیا ہے ۔یعنی جس قدر اخلاص ومحنت اور للہیت کے ساتھ اس ”شبِ قدر“میں عبادت وریاضت اور دعاوغیرہ کی جائے اس قدر اس کے اجروانعام میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ قدر سے محروم رہنے والے شخص کو خیر سے محروم اور حقیقی محروم قرار دیا ہے ۔
درحقیقت یہ اللہ رب العزت کی طرف سے امت محمد یہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بخشش ومغفرت کیلئے بہانے ہیں۔کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو اس رات کی عبادت نصیب ہو جائے اور آسمانوں پر اس کی بخشش و مغفرت کے فیصلے کر دیے جائیں ،اور کتنے بدنصیب ہیں وہ لوگ جنھوں نے رمضان المبارک جیسا مغفرت کا مہینہ معصیت ونافرمانی اور غفلت میں گزارنے کے بعد اب شب قدر سے بھی محروم رہے اس سے بڑھ کر اس رات کی فضیلت کیا ہوسکتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں“سورة القدر“کے نام سے پوری ایک سورة اس کی عظمت میں نازل فرمائی۔

(جاری ہے)


اس رات میں قرآن مجید نازل ہوا ،اس رات میں فرشتے آسمانوں سے اترتے ہیں ،یہ رات ہزار مہینوں سے افضل وبہتر ہے ،اس رات میں صبح صادق تک خیروبرکت اور امن وسلامتی کی بارش ہوتی ہے۔
ایک روایت میں ہے شب قدر میں ملائکہ (فرشتوں)کی پیدائش ہوئی اور اسی رات میں حضرت آدم علیہ السلام کا مادہ جمع ہونا شروع ہوا ،اسی رات میں جنت میں درخت لگائے گئے اور اس رات میں عبادت کا ثواب دوسرے اوقات کی عبادت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے اور یہی وہ مقدس را ت ہے جس میں بندہ کی زبان وقلب سے نکلی ہوئی دعا اللہ رب العزت کی بار گاہ میں قبولیت سے نوازی جاتی ہے۔
اسی مقدس رات میں اللہ رب العزت کی رحمت خاص کی تجلی آسمان دنیا پر غروب آفتاب کے وقت سے صبح صادق تک ہوتی ہے ۔بعض روایات کے مطابق اسی رات (شب قدر)کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے اور اسی رات میں بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی۔
مفسرین کے مطابق”لیلة القدر“میں جو لفظ”قدر“ہے اس کا معنی ”تقدیر وحکم“کے ہیں،چونکہ اس رات میں تمام مخلوقات کیلئے جو کچھ تقدیر ازلی میں لکھا ہے اس کا جو حصہ اس سال رمضان تک پیش آنے والا ہے وہ ان فرشتوں کے حوالہ کردیا جاتا ہے جو کائنات کی تدبیر اور تنفیذ امور کیلئے مامور ہیں اس لئے اس کانام لیلة القدر رکھا گیا ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ”قدر “کے معنی عظمت وشرافت کے بھی آتے ہیں․․․․․چونکہ یہ رات بھی عظمت و شرافت والی رات ہے اس لئے اس کا نام بھی “لیلة القدر“رکھا گیا ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ ایک تو اس میں بڑی عظیم مرتبہ و شان والی کتاب(قرآن مجید)نازل ہوئی ہے دوسرا یہ کہ ذی مرتبہ فرشتہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ نازل ہوئی ہے ،تیسرایہ کہ ذی مرتبہ امت پر نازل ہوئی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورة القدر میں لفظ”قدر“ تین مرتبہ ذکر کیا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص”شب قدر“میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کیلئے)کھڑا ہوا ،اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں،(بخاری و مسلم)۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پوشیدہ رکھا گیا ہے (1)لوگوں کی عبادت پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا مندی ظاہر کرنے کو(2)گناہوں پر اپنے غضب اور غصہ کوظاہر کرنے کو (3)وسطیٰ نماز کو دوسری نمازوں سے(4)اپنے دوستوں کو عام لوگوں کی نظروں سے (5)اور رمضان کے مہینہ میں شب قدر کو (غنیة الطالبین)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”شبِ قدر“اللہ تعالیٰ نے میری امت کو عطا فرمائی ہے پہلی امتوں کو نہیں ملی ۔

اس کے بارے میں مختلف روایات ہیں کہ اس امت پر اس انعام واکرام کا سبب کیا ہے ؟بعض احادیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی امتوں کی عمروں کو دیکھا کہ بہت لمبی لمبی عمریں ہوئیں ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ”امت“کی عمریں بہت تھوڑی اور کم ہیں اگر وہ نیک اعمال میں ان کی برابری بھی کرنا چاہیں تو ناممکن ہے ۔اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت رنج وافسوس ہوا ،اس کی تلافی کیلئے اللہ تعالیٰ نے یہ رات (شب قدر )مرحمت فرمائی۔

بعض روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ وہ ایک ہزار مہینے تک اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرتا رہا․․․․․صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو اس پر ”رشک“آتا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی تلافی کیلئے اس رات (شبِ قدر )کا نزول فرمایا․․․․
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ”شب قدر“ کے بارے میں دریافت کیا تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں ہے 29,27,25,23,21 یا رمضان المبارک کی آخر رات میں ہے۔

ام المومنین حضرت سید ہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتی ہیں لیلة القدر کو رمضان المبار ک کے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو(بخاری شریف)۔حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لیلة القدر ستائیسویں رات ہے۔(مسلم)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی نقل کرتے ہیں کہ وہ(لیلة القدر)رمضان المبارک کی ستائیسویں شب ہے۔
(ابن کثیر)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس رات (شب قدر)کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ وہ چمکدار اور کھلی ہوئی ہوتی ہے ،صاف وشفاف ،نہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی،بلکہ معتدل گویا کہ اس میں (انواروبرکات کی کثرت کی وجہ سے)چاند کھلا ہوا ہے،اس رات میں صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے ،نیز اس کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے بعد کی صبح کو آفتاب بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے ،․․․․․․بالکل ہموار ٹکیہ کی طرح ہوتا ہے جس طرح چودھویں رات کا چاند،اللہ تعالیٰ اس دن کے آفتاب کے طلوع کے وقت شیطان کو اس کے ساتھ نکلنے سے روک دیتے ہیں ۔

حضرت عبدہ‘بن ابی لبابہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو سمندر کا پانی چکھا تو بالکل میٹھا تھا۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شب قدر کی اطلاع فرما دیں․․․․․․․مگر دو مسلمانوں میں جھگڑا ہورہا تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اس لئے آیا تھا کہ تمہیں شب قدر کی خبردوں مگر فلاں فلاں شخص میں جھگڑا ہورہا تھا جس کی وجہ سے اس کی تعیین اٹھالی گئی۔
کیا بعید ہے کہ یہ اٹھالینا اللہ تعالیٰ کے علم میں بہتر ہو ،لہٰذااب اس رات کو انتسویں ،ستائیسویں اور پچسویں شب میں تلاش کرو․․․․․
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق”شب قدر “کی تعیین اٹھا لینے میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کیلئے کوئی بہتری ہے ۔اگر شب قدر کا علم باقی رکھا جاتا اور بتا دیا جاتا تو پورا رمضان المبارک سستی وغفلت میں گزرتا اور صرف شب قدر میں عبادت کی جاتی یا جس کی شب قدر بغیر عبادت کے گزر جاتی تو باقی رمضان المبارک کے ایام دکھ اور افسوس میں گزر جاتے ۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کی رحمت نے گوارانہ کیا کہ اس عظمت والی رات کے معلوم ہونے کے بعدکوئی گناہ پر جرات کرے کیونکہ اگر اس شب کے پانے پر ہزار مہینوں کی عبادت کا ثواب ملتا ہے اسی طرح اس شب میں گناہ کرنے پر ایک ہزار مہینوں کا گناہ بھی ہوتا․․․․․اب انسان شب قدر کی تلاش میں ہر وقت عبادت و ریاضت میں مصروف رہتا ہے اور اسی شب قدر کی تلاش میں اعتکاف کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی میں گزارتا ہے لیکن شب قدر کا زیادہ احتمال ستائیسویں شب میں ہی ہے۔

ام المومنین حضرت سید ہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے تو کیا دعا مانگوں؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا بتائی!
”ترجمہ:اے اللہ بے شک تو معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے ،پس تو میری خطائیں بھی معاف فرمادے۔

احادیث میں دعا مانگنے کی بڑی فضیلت وعظمت بیان کی گئی ہے ،اس لئے ”شب قدر“میں اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے ،دعا زبان سے نکلے ہوئے ان الفاظ کو کہاجاتا ہے جو نہایت عاجزی وانکساری سے اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کرتے ہیں ،دعا کیلئے وہ الفاظ زیادہ قیمتی اور موثر ثابت ہوتے ہیں جو دل سے اٹھتے ہیں اور زبان کی پوری تاثیروں کو ساتھ لیے بار گاہ ایزدی میں پہنچتے ہیں ،ایسے الفاظ رحمت خداوندی اور بخشش ومغفرت کو گناہ گار کے دامن میں لاڈالتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم کوشبِ قدر کا حق ادا کرنے اور اللہ کی رحمت وبخشش ومغفرت کو سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu