- Home
- Islam
- Prayer Timings
- Ramadan
- Quran Kareem
- Hadith
- Hajj/Umrah
- Muslim Calandar
- Islamic Info
-
Naats
- Famous Naat Khawan
- Atif Aslam Naats
- Junaid Jamshed Naats
- Amir Liaquat Hussain Naats
- Abdul Rauf Rufi Naats
- Siddique Ismail Naats
- Yousaf Memon Naats
- Shehbaz Qamar Fareedi Naats
- Amjad Sabri Naats
- Khursheed Ahmed Naats
- Marghoob Hamdani Naats
- Waheed Zafar Qasmi Naats
- Owais Raza Qadri Naats
- Fasih Ud Din Soherwardi Naats
- Sami Yusuf Naats
- Listen Urdu Naats
- Arabic Naats MP3
- 12 Rabi-ul-Awal Naats MP3
- More
Islam Pur Aman Aur Salamati Wala Deen - Article No. 3221
اسلام پرامن اور سلامتی والا دین۔۔۔تحریر:میر افسر امان - تحریر نمبر 3221
اگر کوئی انسان اپنی ذاتی عداو ت کی خاطر اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے تویہ بدترین قساوت اور انتہائی سنگدلی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایاکہ” بغیر حق کے اگر کوئی کسی کو قتل کرتا ہے تو گویا اس نے ساری انسانیت کا قاتل ہے۔اگر کسی نے کسی انسان کی جان بچائی تو گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی“
جمعرات 29 اگست 2019
(جاری ہے)
اسلام دشمنی میں ایک عرصہ سے اور خصوصی طور پر نائین الیون کے بعد تومسلمانوں کو دہشت گرد، بنیاد پرست ،وحشی اور نہ جانے کتنے اور الزامات کا سامنا کر پڑھ رہا ہے۔
پاکستان کاازلی دشمن بھارت تو اس ناجائز مہم میں سب سے آگے آگے ہے۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے عروج کے دور میں ننانویں سالوں کے اندر اندر اس وقت کی معلوم دنیا کے غالب حصہ پر مسلمانوں نے اسلام کی جھنڈے گھاڑ دیے تھے۔تاریخ بتاتی ہے کہ جس وقت مسلمانوں عروج پر تھے اور ان کے تلواریں دشمنوں کو کاٹ رہیں تھیں تو دشمنوں نے اُس وقت مسلمانوں کو وحشی، بنیاد، پرست اور دہشت گرد نہیں کہا تھا۔ کیونکہ اسلام اصولوں کی بنیاد پر آگے بڑھ رہا تھا۔ جب مسلمانوں کی تلواریں ان کے اپنے کرتوتوں سے زنگ آلود ہو گئیں اور یہود ونصارا پھر ان پر غالب آ گئے تو انہوں نے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے شروع کیے۔ اپنی دہشت گردی ، وحشی پن اور خونخواری کو چھپانے کے لیے مسلمانوں کو یہ کہہ کر پکارنے لگے کہ اسلام تو تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ ہندو قوم کے صائب الرائے گاندھی جیسے شخص نے بھی کہا تھا کہ ”اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا جس کی فیصلہ کن طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے“ نہیں ہر گز نہیں! اسلام انصاف اورجہاد فی سبیل اللہ کی بنیاد پر پھیلا ہے۔ اب بھی اسی فلسفہ پر عمل کر نشاة ثانیہ میں داخل ہو سکتا ہے۔اسلام نہ پہلے بنیاد پرست اور وحشی تھا اورنہ اب ہے۔ہاں مسلمان جب جہاد فی سبیل اللہ کے فلسفہ سے نابلد ہو گئے اور جہاد کے نام پر کچھ لوگ غلطیاں کرنے لگے تو دشمنوں کے اس بیانیہ کو تقویت ملی۔ اگر کچھ مسلمان علماء نے اس سفید جھوٹ کا جواب دیا بھی تو وہ دشمنوں سے مغلوب یا متاثر ہو کر دیا۔ مسلمان ایک زندہ جاوید مذہب کے پیروکار ہیں ۔اللہ نے خود اپنے کلام قرآن شریف کی حفاظت کا ذمہ لیا ہواہے۔ توکیوں نہ مسلمان معذرتانہ رویہ کے بر خلاف ڈنکے کی چوٹ پرانبیاء کی سنت پر چلتے ہوئے قرآن ،حدیث کے مطابق اسلام کو ایک پر امن اور سلامتی والے دین کے طور پر انسانیت کے سامنے پیش کریں۔الحمد اللہ مجددِ وقت سید ابو اعلیٰ موددی صاحب نے یہ کام کیااور دین کے دشمنوں کے سامنے الااعلان قرآن حدیث میں بیان کیے گئے احکامات کے مطابق بیان کیااور دین کے دشمنوں کو مدلل جواب دیا۔اللہ تعالیٰ کے احکامات ایسی چیزہیں کہ انہیں اسی طرح بیان کر دینا چاہیے کہ جیسا اللہ نے چاہا۔ اگر کو ئی مانتا ہے تو نہ مانے مگر یہ احکامات انسانیت کے فائدے کے لیے ہیں اور روز روزشن کی طرح عیاں ہیں اوربلا آ ٓخر کٹر سے کٹرانسان بھی ان کوماننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اسلام نے انسانی جان اور اس کا خون محترم قرار دیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھرچار آدمی کیسے مل کر رہ سکتے ہیں۔ اگر کوئی انسان اپنی ذاتی عداو ت کی خاطر اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے تویہ بدترین قساوت اور انتہائی سنگدلی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایاکہ” بغیر حق کے اگر کوئی کسی کو قتل کرتا ہے تو گویا اس نے ساری انسانیت کا قاتل ہے۔اگر کسی نے کسی انسان کی جان بچائی تو گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی“(مائدہ۔۳۲) ایک دوسری جگہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ”وہ اُس جان کو جیسے اللہ نے محترم قرار دیا بغیر حق کے ہلاک نہیں کرتے“(الفرقان۔۶۸)ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ”کسی ایسی جان کوجسے اللہ نے محترم قراردیا ہے ہلاک نہ کرو،سوائے اس صورت کہ ایسا کرنا حق کا تقاضا ہو“(الانعام۔۱۵۱)محسن انسانیت حضرات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے۔ انس بن مالک روایت کرتے ہیں۔فرمایا رسولاللہ نے کہ بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا،قتل نفس اور والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹ بولنا۔حضرت ابن عمر سے رویات کہ حضور نے فرمایا ۔مومن اپنے دین کی وسعت میں اس وقت تک برابر رہتا ہے جب تک وہ کسی حرام خون کو نہیں بہاتا۔ یہ اُس وقت کی باتیں ہیں جب عرب میں انسانی جان کی قیمت کچھ نہیں تھی۔ اُس وقت کے تہذیب و شائستگی اور علم حکمت کے مر کز سلطنتِ روم کی بات کریں ،تو روم کے کلوسیم(colosseum) کے افسانے اب تک تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں جن میں ہزار ہا انسان شمشیر زنی(istory) کے کمالات اور رومی امراء کے شوقِ تماشہ کی نذر ہو گئے۔ یورپ اور ایشیا کے اکثر ممالک میں مہمانوں کی تفریح کے لیے یا دوستوں کی تواضع کے لیے غلاموں کو درندوں سے پھڑوا دینایا جانوروں کی طرح ذبح کر دینا کوئی معیوب کام نہیں تھا۔قیدیوں اور غلاموں کو مختلف طریقوں سے عذاب دے دے کر مار ڈالنا اس عہد کا عام دستور تھا۔جاہل و خوخوار امراء سے گزر کر یونان ا و روما کے بڑے بڑے حکماء و فلاسفہ تک کے اجتہادات میں انسانی جانوں کے بے قصور ہلاک کرنے کی بہت سی وحشیانہ صورتیں جائز تھیں۔ ارسطو اور افلاطون جیسے اساتذہ اخلاق ماں کو اختیار دینے میں کوئی خرابی نہ پاتے تھے کہ وہ جسم کے ایک حصہ کو الگ کر دے۔چناچہ یونان ا وروما میں اسقاط حمل کوئی ناجائز فعل نہ تھا۔جیسے موجودہ دور میں یہ کام مسلم دنیا اور غیر مسلم دنیا میں زور شور سے جاری ہے۔ حکماء رواقین(stoics) کے نزدیک انسان کو خود اپنے آپ کو قتل کرنا کوئی بُرا کام نہیں تھا۔ بلکہ لوگ جلسے کر کے اُن میں خود کشیاں کیاکرتے تھے۔ حد ہے کہ افلاطون جیسا حکیم اسے معصیت نہیں سمجھتا تھا۔کچھ عرصہ پہلے اخبارات میں خبر لگی تھی کہ یورپ کے کسی ملک میں کئی ہزار لوگوں نے زہر پی کر اجتمائی خود کشی کی تھی۔شوہرکو اپنی بیوی کو قتل کرنا ایسا تھا کہ اپنے پالتور جانورذبح کر دے۔قانونِ یونان میں اس کی کوئی سزا نہیں تھی۔جِیو رکھشا کا گہوارا ہندوستان اس سب سے بھرا ہوا تھا۔جہاں مرد کی لاش پر زندہ عورت کو جلا دیناایک جائز فعل تھااور مذہباً اس کی تاکید تھی۔ شودر کی جان کوئی قیمت نہیں رکھتی تھی۔ اس لیے کے وہ غریب برہما کے پاؤں سے پیدا ہوا ہے۔اس کا خون برہمن کے لیے حلال ہے۔وید کی آواز سن لینا شودر کے لیے اتنا بڑا گناہ تھاکہ اس کے کان میں پگلا ہوا سیسا ڈال کر اسے مار ڈالنانہ صرف جائز بلکہ ضروری تھا”جل پروا“ کی رسم عام تھی۔جس کے مطابق ماں باپ اپنے پہلے بچہ کو دریائے گنگا کی نذر کر دیتے تھے۔ اس قسادت کو اپنے لیے موجب سعادت سمجھتے تھے۔(حوالہ کتاب سید موددی الجہاد فی الاسلام) صاحبو! ایسے تاریک دور میں امن و سلامتی والے اسلام نے آواز بلند کی کہ”انسانی جان کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دے دیا ہے۔اسے قتل نہ کرو مگراس وقت کی جب حق اس کے قتل کرنے کا مطالبہ کرے ۔اس آواز میں ایک قوت تھی ہندوؤں کے”اہنساپر مودھرا“ کی آواز کی طرح عقل اور فطرت کی مطابقت سے محروم نہ تھی۔ اس لیے قرآن کی آوازکے دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچی۔اس نے انسان کو اپنی جان کی صحیح قیمت سے آگاہ کیا۔انصاف پسند عالم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ دنیا کے اخلاقی قوانین میں،انسانی جان کی حرمت قائم کرنے کا فخر جتنا اسلام کی اس آواز کو حاصل ہے اتنا” پہاڑی کے وعظ“ یا’ اہنساپرمودھرا“ کی آوازکو حاصل نہیں ہوا۔کیوں کہ اسلام دین ِفطرت اورامن و سلامتی والا دین ہے۔Browse More Islamic Articles In Urdu
زکوۃ ادا نہ کرنے کا گناہ
Zakat Ada Naa Karne Ka Gunah
سورۂ اخلاص کا اجر وثواب
Sorah Ikhlas ka Ajar o Sawab
سردی سے متعلق بعض فقہی احکام
Sardi Se Mutaliq Baaz Faqhi Ehkaam
محرم الحرام اور عاشورہ کی فضیلت اور تاریخی پس منظر
Moharram Ul Haram Or Ashura Ki Fazeelat
اسلام،عورت اور پردہ
Islam Aurat or Parda
قربانی کی فضیلت اور نصاب
Qurbani Ki Fazeelat
دین کا فہم
Deen ka Fehem
حج
Hajj
اسلامی تصوف کا ہندوستان میں پرچار: اک جائزہ
Islami Tasawwuf Ka Hindustan Main Parchar
حضرت محمد ﷺ کی پاکیزہ زندگی اور آپ ﷺ آخری نبی
Hazrat Mohammad SAW Ki Pakeeza Zindagi
فلسفہ وحدانیت اور ہم
falsafah wahdaniyat aur hum
عبادت کا تصور اور دین اسلام
Ibadat Ka tasawur Or deen e islam