Open Menu

Ameer Ul Momnin Harzrat Ali Almurtaza RA - Article No. 3162

Ameer Ul Momnin Harzrat Ali Almurtaza RA

امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ - تحریر نمبر 3162

حضرت حمزہ کی بہادری،شجاعت اور قوت آپ کیلئے قابل فخر مثال رہی

پیر 27 مئی 2019

علامہ منیر احمد یوسفی
امیر المومنین حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ جناب ابوطالب کی اولاد میں سب سے چھوٹے برخودار تھے۔سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے بچپن میں پوری ہا شمی شان وشوکت سے زندگی گزاری اور تمام معصوم مشاغل میں حصہ لیا۔اسی اثناء میں اُنہوں نے عین بچپنے کے عالم میں جب اسلام قبول کر لیا تو پھر باقاعدہ کا شانہ نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سر پرستی میں داخل ہو گئے ۔
پھر جب وہ بچپن سے جوانی میں داخل ہوئے تو اُس وقت اُنہوں نے کشتی‘گھوڑا سواری‘نیزہ بازی اور اسی وضع کے فنون میں بھی باقاعدہ دلچسپی لی۔
کیونکہ ابتدائی عہد میں اسلام کو مشکلات کا سامنا تھا‘اور مسلمانوں کو جس طرح چھپ چھپ کر اور محتاط انداز میں عبادات کرنا پڑی تھی اس حوالے سے بھی اُن میں رفتہ رفتہ محتاط انداز نظر اور زندگی کے بارے میں جہد پسند انہ رویہ پیدا ہونے لگا۔

(جاری ہے)

اہل مکہ اور کفار نے جب بنی ہاشم کے لوگوں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شعب ابی طالب میں محصور اور مقید رہنے پر مجبور کر رکھا تھا اُس وقت تمام مسلمانوں میں امیر المومنین حضرت سیّد نا علی رضی اللہ عنہ ہی سب سے نوجوان تھے۔جسم وجان میں قوت اور توانائی وافر تھی۔ہر طرح کاکام کرنے میں وہ ہمیشہ پہل کرتے تھے ۔ویسے بھی وہ مشکل کام جو بڑی عمر کے لوگوں اور بزر گوں کے لئے قدرے مشکل ہوتے تھے امیر المومنین حضرت سیّدناعلی رضی اللہ عنہ ایسے کاموں کو با آسانی سر انجام دیتے تھے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سے امیر المومنین حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنی سر پرستی میں لیاتھا‘اس کے بعد ان کی ہر طرح کی تعلیم وتربیت حضور نبی کریم روٴف ورحیم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کیا کرتے تھے ۔پھراس کے علاوہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ‘حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ہمہ وقت امیر المومنین حضرت سیّدناعلی رضی اللہ عنہ کی موانست ‘ساتھ اور معیت کے لیے تیار رہتے تھے ۔
بالخصوص حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بہاردی اور شجاعت‘بجا طور پر امیر المومنین حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے اچھی مثال اور مقام تفاخر تھی ۔
اس لیے حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھ اپنے اندر بہادری ‘شجاعت ‘قوت اور دلیری کے ایسے ہی معیار پیدا کرنے کی لگن زندہ رکھی تھی۔جناب ابوطالب خود بہت بڑے خطیب اور شاعر تھے۔بڑے معاملہ فہم اور نقطہ رس تھے ایک تاجر کے اُن میں تمام اوصاف موجود تھے ۔
سیّڈنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بہادری اور شجاعت کے ساتھ ساتھ متعدد کئی اوصاف موروثی طور پر والد محترم سے ملے۔جب امیر المومنین حضرت سیّد نا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کے علم میں لائے بغیر دین اسلام کو قبول کر لیا توا س پر بھی جناب ابوطالب نے کسی قسم کی ترشی اور خفگی کا اظہار نہ کیا۔
امیر المومنین حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ”طبعاً“اور مزاجاً محنتی‘ایماندار‘ہمدردذمے دار‘راست باز‘بہادر اوربے خوف انسان تھے۔
وہ مشکلات میں ہر گز نہیں گھبراتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ شب ہجرت جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے 12ربیع الاوّل622ء کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو پورے اعتماد ‘ذے داری اور وثوق کے ساتھ امیر المومنین حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر سلا گئے۔اس موقع پر یہ امر محل نظر رہے کہ ہجرت کے وقت امیر المومنین حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی بائیس یا تئیس سال عمر تھی۔

آپ کسی حملہ یا نر غے میں آجانے کے باعث اپنا دفاع کرنے کی بھی پوری ہمت اور استطاعت رکھتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ کفار قریش گھات میں لگے ہوئے وہ تلواریں لیے دروازے پر کھڑے ہیں اور امیر المومنین حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اُس نازک وقت میں بھی حضور نبی کریم روٴف ورحیم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سبز چادر اوڑھے بے خوف وخطر سوتے رہے اور پھر جب صبح کفار سے سامنا ہوا تو بھی انہوں نے کسی قسم کی کمزوری ظاہر نہ فرمائی بلکہ اُنہوں نے کفار کو برانگیختہ کردینے والا جواب دیا کہ مجھے کچھ نہیں معلوم۔

آپ دشمنوں کے درمیان تین دن مزید مکہ ہی میں رہے ۔اس دوران اُنہوں نے مکہ مکرمہ کے لوگوں کی اَمانتیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رکھی ہوئی تھی اہل امانت کے سپرد کیں۔اس کے بعد اُنہوں نے بھی مدینہ منورہ کی جانب کا قصد کیا۔بتایا جاتا ہے کے ہجرت کے وقت امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ کمسن بچے‘اُم ایمن اُن کے لڑکے ایمن اور ضعیف دبے سہارا مومنوں کی ایک جماعت تھی۔
اس چھوٹے سے قافلے کے ساتھ امیرالمومنین حضرت سیّدناعلی رضی اللہ عنہ راتوں رات سفرکرتے اور دن کو کہیں ڈیرہ لگا لیتے۔
حتیٰ کہ مسلسل سفر کرتے کرتے آپ کے پیر پھٹ گئے جب امیر المومنین حضرت سیّد نا علی رضی اللہ عنہ کئی دنوں کی مسافت کے بعد مدینہ منورہ میں قبا کے مقام پر پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑھ کر گلے سے لگالیا۔بتایا جاتا ہے کہ اُس وقت امیر المومنین حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے پیر متورم تھے‘یہ حالت دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آبدیدہ ہو گئے ۔
پھر اپنا لعاب مبارک ہاتھوں پر مل کر امیر المومنین حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے پیروں میں لگایا جس کے بعد آپ کے پیر بالکل اچھے ہوگئے ۔
گویا امیر المومنین حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا اس چھوٹے سے قافلے کو تن تنہا پیدل لے کر مدینہ منورہ پہنچ جانا ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔6ہجری میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پندرہ سو ساتھیوں کے ساتھ عمرہ اور حج بیت اللہ کے لیے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے۔
اس قافلہ کے پاس صرف سفری حفاظتی ہتھیارہی تھے۔اس قافلے کی روانگی کی جب اہل قریش کو خبر ہوئی تو اُنہوں نے اس قافلے کو روکنے کی قسمیں کھائیں ۔
اُس وقت نبی کریم روٴف ورحیم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی قصوہ پر سوار تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ‘حضرت عمر رضی اللہ عنہ‘حضرت عثمان رضی اللہ عنہ‘حضرت علی رضی اللہ عنہ‘حضرت بلال رضی اللہ عنہ ‘اور بدر اُحد اور جنگ خندق کے ساتھی مجاہدین رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے ۔
عین ممکن تھا کہ جب مسلمان مکہ مکرمہ میں پہنچے تو اُس وقت اہل قریش مشتعل ہو کر فساد پیدا کرتے اس لیے دونوں فریقین کی خواہش کے مطابق ایک معاہدہ اَمن طے پایا گیا۔جو نہی اس معاہدہ کی شرائط طے پائی گئیں ۔
اُسے تحریری صورت میں لانے کا وقت آیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو معاہدہ تحریر کرنے کے لیے کہا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن عمرو کی موجودگی میں معاہدہ لکھوانا شروع کیا۔گویا معاہدہ عربوں کے عام رواج اور فریقین کے معروف ناموں کے ساتھ ہی تحریر کیا گیا۔اس معاہدے کے تحت دس سال کے لیے جنگ نہ کرنا تسلیم کر لیا گیا تھا۔
مسلمانوں کی جانب سے اس معاہدے پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد گواہوں کے طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ‘حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دستخط کیے اس معاہدے کے آخر میں یہ بھی لکھا گیا کہ یہ معاہدہ امیر المومنین حضرت سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے تحریر کیا ہے۔

رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں سینتالیس سرایا اور ستائیس غزوات میں حصہ لیا ۔بتایا جاتا ہے کہ امیر المومنین حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے بیشتر غزوات میں بھر پور حصہ لیا اور نہایت فعال اور مثالی کردار ادا کیا۔بلکہ بعض بڑے غزوات میں امیر المومنین حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا کردار ردعمل سب سے زیادہ نمایاں اور اہم دکھائی دیتا ہے ۔
سرایا چونکہ ایسی فوج کشی اور مہم کو کہتے ہیں کہ جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود شرکت نہیں کی بلکہ دیگر صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کو روانہ کیا۔
اٹھارہ غزوات کہ جن میں تلوار کا استعمال نہیں ہوا تھا اور نو غزوات جن میں تلوار استعمال ہوئی ‘اُن میں قریباً تمام غزوات میں امیر المومنین حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے بڑا فعال اور پُرجوش کردار ادا کیا۔
یہی نہیں بلکہ اکثر غزوات میں امیر المومنین حضرت سیّد نا علی رضی اللہ عنہ کو لوائے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی علم برداری کا بھی شرف حاصل ہوا۔کئی غزوات میں امیر المومنین حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے سپرد مہاجرین کا چھوٹا جھنڈا بھی کیا گیا۔اور جنگ میں علم برداری کا منصب کوئی چھوٹا منصب نہیں ہوتا۔کسی جنگ میں علم عموماً سب سے بہادر‘قوی‘شجاع ‘اور تجربہ کار جنگجوہی کے سپرد کیا جاتا ہے ۔سیّدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس علم کی ناصرف حفاظت فرمائی بلکہ اسے تفاخر اور وقار بخشا۔

Browse More Islamic Articles In Urdu