Open Menu

Fatah Makkah - Article No. 3434

Fatah Makkah

فتح مکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فتح مبین - تحریر نمبر 3434

غزوہ فتح مکہ سے کچھ عرصہ قبل مسلمانوں اور قریش کے مابین صلح حدیبیہ کے نام سے ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ جس نے خاص طور پر امن و امان کی ایک نئی روح پھونک دی تھی۔

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ جمعرات 14 مئی 2020

فتح مکہ سرکار دوﷺکی مدنی زندگی کا ایک اہم ترین غزوہ ہے ۔عہد نبوی کے تمام غزوات کی ایک الگ اہمیت ہے۔ لیکن مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ فتح مکہ میں اسلامی شوکت کا ایسا اظہار ہوا کہ عالم عرب پر اسلام کی دھاک بیٹھ گئی ۔مسلمانوں کو بیت اللہ میں داخل ہوکر طواف کا موقع ملا۔ کعبة اللہ کو بتوں اور تصویروں سے پاک کردیا گیا۔ اور ایک طویل عرصہ کے بعد اللہ کی وحدانیت کا علم کعبہ کی چھت پر لہرایا گیا
پس منظر
غزوہ فتح مکہ سے کچھ عرصہ قبل مسلمانوں اور قریش کے مابین صلح حدیبیہ کے نام سے ایک معاہدہ طے پایا تھا۔
جس نے خاص طور پر امن و امان کی ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ اس معاہدہ میں تمام قبائل کو اختیار دیا گیا تھا جس کے ساتھ ان کی مرضی ہے انکے ساتھ اپنا الحاق کر سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

قبائل مکہ کے دو بڑے قبیلے جنکے نام بنو بکر اور بنو خزاعہ تھے۔ ان کی جنگ و جدل اورباہمی دشمنی کی اپنی ایک الگ تاریخ تھی لیکن صلح حدیبیہ کے سبب ایک بار تمام دشمنیاں دب گئیں تھیں۔


چونکہ معاہدہ میں یہ شق شامل تھی کہ جوقبیلہ جس فریق کے ساتھ شامل ہوگا وہ اسی کا حصہ تصور کیا جائے گا۔ اس پر حملہ اس فریق پر حملہ تصور ہوگا اس معاہدہ کے تحت بنو خزاعہ آقائے دو عالم ﷺ کے گروہ میں شامل ہوگئے۔ جبکہ بنوبکر قریش مکہ کے ساتھ شامل ہوگئے۔ کچھ عرصہ فریقین پرامن رہے ۔اس صلح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام کی ترقی میں تیزی آگئی ۔
تاہم شعبان آٹھ ہجری630ء میں بنو بکر نے بنو خزاعہ پر حملہ کردیا۔ اس وقت بنوں خزاعہ ایک چشمہ پر موجود تھے ۔اس موقع پر قریش مکہ نے معاہدہ کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف ان کو ہتھیار فراہم کیے بلکہ قریش مکہ کے کئی لوگ نقاب اوڑھ کر ان کے ساتھ حملہ میں شامل ہوگئے ۔یہاں تک کہ بنو خزاعہ حرم تک پہنچ گئے ۔اور ان سے امن کی درخواست کی لیکن حرم کا بھی لحاظ نہ رکھا۔

اس واقعہ کے بعد عمرو بن سالم خزاعی نے مدینہ منورہ کارخ کیااور دربار رسالت میں اشعار کی صورت میں اپنی عرضداشت پیش کی رسول اللہﷺ نے اشعار سماعت کیے ۔اور ارشاد فرمایا کہا عمرو بن سالم تمہاری مدد کی گئی( یعنی تمہاری مدد کی جائے گی) اس کے بعد بدیل بن ورقاء کی سربراہی میں ایک وفد بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔ تفصیلات عرض کی اورساتھ یہ بھی عرض کیا مکہ کے کون سے لوگ اس میں ملوث پائے گئے تھے ۔
یوں صلح حدیبیہ ٹوٹ گئی اور مسلمانوں نے کفار سے بدلہ لینے کی منصوبہ بندی شروع کردی۔ ایک اور روایت میں موجود ہے ۔کہ اس واقعہ سے تین دن قبل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو تیاری کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی حکم دیا کہ اس تیاری کی بابت کسی کو معلوم نہ ہو یہاں تک سیدناابوبکرصدیق تشریف لائے اورتیاری دیکھ کر پوچھا تو سیدہ عائشہ نے ان کو بتانے سے معذرت فرمائی۔

معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کی کوشش
قریش مکہ کو اس بدعہدی کا جلد احساس ہوگیا ۔ان کو اس بات کا بھی ادراک ہوگیا کہ اب مسلمان کمزور نہیں رہے ۔چنانچہ ابوسفیان اس صلح کو بحال کرانے کے لیے مدینہ منورہ آیا۔ مختلف صحابہ کرام کے دروازے پر گیا سب نے اس کو ملنے سے انکار کیا۔ یہاں تک کہ اپنی صاحبزادی ام حبیبہ کے گھر گیا جو سرکار کی زوجیت میں تھیں۔
انہوں نے اپنے باپ کو سرکار ﷺ کے بستر پر بھی بیٹھنے نہ دیا۔ سب سے مایوس ہو کر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر گیا۔ آپ نے بھی اس کو صاف انکار کیا۔ یہاں سے ہو کر وہ مسجد میں گیا اور بلند آواز سے امن کا اعلان کیا اور اس صلح کی یکطرفہ تجدید کا اعلان کرکے واپس مکہ مکرمہ بھاگ گیا۔
مکہ پر حملہ کا نبوی فیصلہ
حضور اکرم ﷺنے اس بد عہدی کا بدلہ لینے کامصمم فیصلہ کرلیا۔
او راپنے غلاموں کو بھرپور تیاری کا حکم ارشاد فرمایا اور ساتھ ہی یہ بھی حکم جاری فرمایا کہ اس تیاری کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پائے ۔اللہ کے نبی نے خصوصی دعا بھی فرمائی کہ اے اللہ جاسوسوں اور خبریوں کو قریش تک پہنچنے سے روک تاکہ ہم اچانک ان پر جا پہنچیں۔ آپﷺ نے جنگی حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماہ رمضان کے شروع میں حضرت قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں آٹھ افراد کا لشکربطن اضم کی طرف روانہ فرمایا تاکہ دیکھنے والے یہ سمجھیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا لشکراس راستہ سے مکہ کی طرف روانہ ہونے والا ہے۔
تاہم آقائے دو عالم ﷺنے دوسرا راستہ اختیار فرمایا۔
خاطب بن ابی بلتعہ کا کا واقعہ
اس مہم کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے نبی کریمﷺ کے علم غیب پر مہر تصدیق ثبت فرمادی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کے رشتہ دار مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر تھے۔ انہوں  نے اپنے رشتہ داروں کی خیریت کے لالچ میں کفار مکہ کو ایک خفیہ خط کے ذریعے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیاری کی بابت آگاہ کیا۔
حضور اکرم صلی وسلم نے حضرت علی حضرت مقداد، حضرت زبیر اور حضرت ابو مرثر غنوی کو بھیجا ابھی کے ابھی روضہ خاخ جاؤ۔وہاں ایک عورت کے پاس خط ہوگا وہ اس سے لے کر آؤ۔ چناچہ صحابہ کرام کی جماعت سرعت رفتاری کے ساتھ وہاں پہنچی۔ فرمان رسالتﷺ کے مطابق وہاں عورت موجود تھی۔اسکی اونٹنی کی تلاش لی گئی۔ لیکن کچھ برآمد نہ ہو۔ا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اللہ کے نبی کا فرمان غلط نہیں ہوسکتا ۔
خود خط نکال کے دے دو۔ ورنہ ہم سخت اقدام کریں گے چنانچہ اس نے وہ خط اپنے بالوں کے جوڑے سے نکال کر ان کے حوالے کردیا تاہم حضورﷺ نے حضرت خاطب کی اس خطا کو معاف فرما دیا۔
لشکر اسلام کی روانگی
10 رمضان المبارک آٹھ ہجری کو دس ہزار صحابہ کرام کا لشکر لے کر حضو اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کارخ فرمایا۔ ابواھم غفاری کو مدینہ میں اپنا قائم مقام مقرر فرمایا۔
مدینہ سے باہر نکل کر دو ہزار افراد اور اسلامی لشکر کے ساتھ مل گئے۔ یوں 12000کا صحابہ کا لشکر جرار مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ لیکن اللہ کی قدرت اور سرکاردوعالم ﷺ کی دعا کی بدولت کہ اتنی بڑی سرگرمی سے بے خبر رہے۔
اسلامی لشکر کا پڑاؤ
حضور اکرم ﷺپیش قدمی کرتے ہوئے مکہ مکرمہ سے محض ایک منزل کے فاصلے پر ایک مقام پر قیام فرمایا۔
آپ نے سارے اسلامی لشکر کو پورے میدان میں پھیلا دیا۔ ہر صحابی کو کہا کہ اپنا الگ الگ چولا روشن کریں۔ رات کے وقت ابوسفیان خبر گیری کے لیے مکہ سے باہر نکلا تو آگ کا اتنا بڑا الاؤ دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ اس کو ایک خیال یہ تھا کہ شاید یہ بنوں خزاعہ کا لشکر ہو۔ لیکن ابوسفیان نے اس خیال کی تردید کی کہ انکا لشکر اتنا عظیم نہیں ہوسکتا۔ اس اثناء میں ابوسفیان کی ملاقات حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوئی۔
آپ نے ابو سفیان کو آگاہ کیا کہ یہ کہ بہتر یہی ہے کہ حضور اکرم ﷺ سے امان طلب کر لو۔ ورنہ اس عظیم لشکر کے سامنے تمہاری کوئی اوقات نہیں ہے۔ حضرت عباس نے ابو سفیان کو اپنے خچر پر ساتھ بٹھایا اور سرکار دو عالم ﷺکی بارگاہ میں پیش کر دیا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ اس کے قتل کے درپے ہوئے لیکن سرکار دو عالم ﷺ نے منع فرما دیا۔ ایک ایسا شخص جس نے مسلمانوں کے خلاف جنگیں لڑیں۔
جس نے اسلام کو نقصان پہچانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔جس نے نبی کریمﷺکو شہید کرنے کی کوشش کی۔ جس کی بیوی ہندہ نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کلیجہ چبایا۔ ایسے متعصب اور کٹر دشمن کو سامنے پا کر معاف کرنا اللہ کے نبی کی صفت ہوسکتی ہے عام آدمی اس کو معاف کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
حضور اکرم ﷺ کی شان کریمی کا اظہار
حضور کے سفر مکہ کے دوران جحفہ کے مقام پر آپﷺ کے چچا زاد بھائی ابو سفیان بن حارث اور پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن امیہ ملے۔
آپ نے ان کو دیکھ کر منہ پھیر لیا کیونکہ ان دونوں نے حضور اکرم صلی وسلم کو ہر طرح سے ایذا پہنچائی تھی۔ لیکن حضرت علی نے ابوسفیان بن حارث کو حضور سے معافی مانگنے کا طریقہ سکھایا تو آپﷺنے معاف فرمایا ۔اس طرح حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور اکرم ﷺسے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو سفیان ایک جاہ پسند اور اعزاز پسند شخص ہے۔
آپ اس کو کچھ اعزاز عطا فرمائیں تاکہ یہ مطمئن ہوجائے حضور اکرمﷺ نے شان کریمی کا بے مثال مظاہرہ فرماتے ہوئے اعلان فرمایا کہ جو شخص ابوسفیان کے گھر دا خل ہو گا۔ اس کو بھی امان ہوگی۔ جس پر ابوسفیان از حد مسرور ہوا۔
لشکر اسلام کی روانگی
حضور اکرم ﷺ نے لشکر اسلام کو مکہ کی طرف کوچ کا حکم ارشاد فرمایا۔ آپﷺ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ ابوسفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا کرو۔
تاکہ سارا لشکر اس کے سامنے سے گزرے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ہر قبیلہ اپنے اپنے پرچم کے ساتھ گزرتا ابوسفیان حضرت عباس سے دریافت کرتا یہ کونسا قبیلہ ہے حضرت عباس قبیلے کا نام بتاتے یہاں تک کہ آپ ﷺ کا دستہ مبارک گزرا۔آپﷺکے آگے چلتے ہوئے صحابہ ترانے پڑھ رہے تھے حضرت سعد کے ہاتھ میں سرکار دو عالم ﷺکے لشکر کا پرچم تھا ۔ابو سفیان نے حضرت عباس سے کہا تمہارے بھتیجے کے ساتھ بھلا کسی کی طاقت ہے کہ جنگ لڑیں اس نے تو بڑی سلطنت جمع کرلی ہے حضرت عباس نے فرمایا یہ بادشاہت نہیں بلکہ نبوت ہے۔

ابو سفیان کی قریش مکہ کو اطلاع
یہ حالات دیکھ کرابو سفیان تیزرفتاری سے مکہ کی طرف دوڑا اور بلند آواز میں قریش مکہ کو کہا اے اہل قریش محمد ﷺاتنا عظیم لشکر لے کر آئے ہیں۔ تم میں مقابلے کی تاب نہیں۔ لہذاجو ابھی ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کو امان ہے۔ یہ سن کر جگر خور حمزہ ہندہ بنت عتبہ ان کی مونچھ پکڑ کر بولی مار ڈالواس چرب زبان کو۔
ابوسفیان نے اپنی بیوی کو ڈانٹا اور حضور ﷺ کا اعلان لوگوں تک پہنچا دیا ۔کیونکہ ابو سفیان کا گھر اتنا بڑا تو نہیں تھا کہ سب لوگ اس میں داخل ہوسکتے چنا چہ یہ اعلان کیا گیا جو اپنے گھر میں داخل ہوگیا اس کو بھی امان ہے ۔ یہ سن کر اہل مکہ حرم کی طرف دوڑے اور کچھ اپنے اپنے گھروں کی طرف بھاگے۔
مکہ میں داخل ہونے کے لیے لشکر کی ترتیب
حضور اکرم ﷺ نے مکہ میں داخل ہونے سے قبل زی الطوی کے مقام پر لشکر کی تقسیم کی ۔
اور مکہ مکرمہ میں مختلف راستوں سے داخل ہونے کی حکمت عملی اختیار فرمائی۔ حضرت خالد بن ولید کو حکم دیا کہ وہ مکہ مکرمہ کے زیریں حصے کی طرف سے داخل ہوں۔ انکو راستہ میں کچھ مزاحمت ہوئی جس کو حضرت خالد بن ولید نے کچل دیا۔ حضرت زبیر بن عوام کو حکم دیا کہ وہ مکہ کے بالائی حصہ کی طرف سے داخل ہوں۔ اورمقام حجون میں سرکارﷺکا انتظار کریں۔
حضرت ابوعبیدہ کو حکم دیا کہ وہ وسطی راستے سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوں۔ یہ تمام لشکر اپنے اپنے مقررہ راستوں سے ہو کر مقررہ مقام پر پہنچ گئے ۔اور آقائے دو عالم ﷺ کی تشریف آوری کا انتظار کرنے لگے
سرکار دوعالم ﷺکی مکہ مکرمہ میں فاتحانہ تشریف آوری
اللہ کے آخری نبی آج آپنے اس آبائی شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہو رہے تھے ۔
جہاں سے آپﷺ کو رات کی تاریکی میں نکلنا پڑا تھا جہاں پر آپﷺپر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے تھے۔ جہاں پر مکہ کی وسعتیں آپﷺ پر تنگ کر دی گئی تھیں۔ جہاں آپﷺ کو طواف کرنے سے روک دیا جاتا تھا ۔جہاں آپ ﷺپر اوجھڑی ڈال دی جاتی تھی ۔جہاں آپﷺ پر پتھر برسائے جاتے تھے۔ جہاں آپﷺ کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ آج اس شہر میں بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ اتنا انافتحنالک فتحامبینا کی بشارت لے کر یہ عظیم کامل اور آخری نبی مکہ میں داخل ہو رہے تھے۔
اسی دن اپ نے سیاہ عمامہ باندھ کر رکھا تھا ایک اونٹنی پر سوار تھے۔ جو ہی آپﷺ کی نظر بیت اللہ شریف پر پڑی آپ ﷺکا سر اقدس اللہ کریم کی بارگاہ میں جھک گیا۔ آپﷺ نے اپنا سر اس قدر جھکایا کہ آپ نے عمامہ شریف کی سلوٹیں ڈھلیں پڑ گئی۔ اونٹنی پر ہی آپﷺ نے طوف فرمایا۔
خطبہ رسالت
مختلف کتب سیرت میں حضور اکرم ﷺ کا خطبہ درج ہے اس کا مفہوم عرض کر رہا ہوں آپﷺ نے فرمایا اے قریشیو اللہ نے تم سے جاہلیت کے غرور کو ختم کردیا۔
سب آدم کی اولاد ہیں اورآدم مٹی سے بنے تھے۔آپﷺ نے فرمایا تم میں سے بہتر وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔
آپ ﷺنے پوچھا اے قریش بتاؤ میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں سب نے کہاآپ شریف بھائی ہیں۔ شریف بھائی کے بیٹے ہیں آپ ﷺجو کریں گے اچھا کریں گے آپﷺ نے فرمایا جاؤ تمہیں آزاد کیا سب کو معاف کیا ۔یہ جرات انگیز حوصلہ صرف اپ کاہی ہوسکتا ہے ورنہ اس موقع پر انسان کہاں قابو میں رہتا ہے۔
آپﷺ کی اس کیفیت کو حضرت اقبال نے یوں بیان فرمایا۔
آنکہ بر اعدا در رحمت کشاد
مکہ راہ پیغام لا تثریف داد
وقت ھیجا تیغ او آھن گداز
دیدہ او اشک بار اندر نماز
ترجمہ جس نے دشمنوں پر رحمت کا دروازہ کھولا۔ جس نے مکہ کے لوگوں کے لئے لا تثریب کا پیغام دیا۔ میدان جنگ میں آپکی تلوار لوہے کو پگھلا دیتی ہے۔ لیکن آنکھوں سے اشک جاری ہورہے ہوں گے۔

بتوں سے تطبیر
فتح مکہ کا سب سے اہم مرحلہ بیت اللہ شریف کو بتوں سے پاک کرنا تھا۔ اس وقت کعبہ میں تین سو ساٹھ سے زائد بت موجود تھے۔ آپﷺ نے اپنی کمان کے ساتھ بتوں کو گراتے او ریہ آیت پڑھتے جاء الحق وزہق الباطل اور آپ کی ٹھوکر سے بت اوندھے منہ گرتے ۔عثمان بن طلحہ چابی لے کر کعبہ کے اندر داخل ہوئے۔ اس کو تصاویر سے پاک کیا۔حضرت بلال نے کعبہ کی چھت پر کھڑے ہوکر اذان دی اور انہوں نے کعبہ میں طویل عرصہ کے بعد اللہ کی واحدانیت کا اعلان کیا۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سیرت رسولﷺ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu