Open Menu

Hazrat Fatima Bint Khitab RA - Article No. 3316

Hazrat Fatima Bint Khitab RA

حضرت فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا - تحریر نمبر 3316

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تاثیر سے بھر پور قرأة نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دنیائے قلب ونظر میں ایک انقلاب برپا کر دیا ان کی آنکھوں سے غیظ وغضب کے شعلوں کی جگہ فرط مذامت سے آنسو بہ نکلے۔

منگل 18 فروری 2020

عنایت عارف
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا فاروق اعظم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حقیقی بہن تھیں۔ باپ کانام خطاب تھا کنیت ام جمیل مشہور تھی۔ سعید بن زید سے نکاح ہوا اور ان کے ساتھ ہی مشرف بہ اسلام ہوئیں۔ حضرت فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا کی تاریخ اسلام میں یہ شرف حاصل ہے کہ ان کے صبرواستقلال اور ان کی تبلیغ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایسے جلیل القدر صحابی اور اسلام کے بطل جلیل کو دائرہ اسلام میں آنے کی ترغیب دی اور ان کی پر سوز قرأة نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسے سخت مزاج اور بارعب انسان کا دل موم کردیا۔
ہماری ملی تاریخ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ جب تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمان نہیں ہوئے تھے مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت چاروں طرف سے کفارمکہ کے نرغے میں گھری ہوئی تھی اور ستم رسیدہ حق پرست چھپ کر نماز ادا کیا کرتے تھے ایک روز مشرکین مکہ نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کو اس درجہ کا مشتعل کر دیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک قلم کرنے کی غرض سے انتہائی غصے کی حالت میں ننگی تلوارلے کرچل کھڑے ہوئے راستے میں ایک صحابی حضرت نعیم بن عبداللہ نے ان کے یہ خطرناک تیوردیکھے تو پوچھااے عمر ! کہاں کا قصد ہے؟ کہاں کے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے جارہاہوں۔

(جاری ہے)


انہوں نے بلاتکلف جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بعد میں قتل کرنا پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ تمہاری بہن فاطمہ رضی اللہ عنہا اور بہنوئی سعید رضی اللہ عنہ دونوں مسلمان ہوچکے ہیں۔ یہ طعنہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خون کھول اٹھا الٹے پاؤں بہن کے گھر پہنچے ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اس وقت قرآن مجید میں مصروف تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قدموں کی چاپ سن کر خاموش ہوگئیں اور قرآن کے اوراق چھپالیے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جاتے ہی غیظ وغضب کے عالم میں ڈانٹ کر پوچھا کہ کیا پڑھ رہی تھیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے خاموشی اختیار کی۔ یہ حال دیکھ کر انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بے تحاشہ پیٹنا شروع کردیا اور انہیں اس قدر مارا کہ وہ لہوں لہان ہوگئیں۔ اس زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام کے بدترین مخالفین میں سے تھے ان کی دو کنیزیں حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا اورحضرت لبینہ رضی اللہ عنہا بھی مسلمان ہوچکی تھیں۔

انہیں اس قدر زدو قوب کرتے تھے کہ جب مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے کہ میں نے رحم کھا کر نہیں چھوڑا بلکہ اس لئے چھوڑ دیا ہے کہ تھک گیا ہوں۔ حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا اور حضرت لبینہ رضی اللہ عنہا کے بعد ان کی حقیقی ہمشیرہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کے عتاب کا شکار ہوئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ غصے کی حالت میں انہیں پیٹتے جارہے تھے اور وہ کہتی جارہی تھی عمر ! اب جو کچھ بھی جی میں آئے کر کے دیکھ لو۔
میں تو اسلام لاچکی اور اب دنیا کی کوئی طاقت مجھے جادئہ حق سے نہیں ہٹا سکتی۔ انہوں نے جب بہن کایہ عزم واستقلال دیکھا اور دوسری طرف ان کے لہو سے تربتر چہرے پر نگاہ پڑی تو دل پسیج گیا۔ کہا: اچھا جو کچھ پڑھ رہی تھیں مجھے بھی سناؤ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اسی وقت بڑے پُر سوز انداز میں قرآن مجید کی تلاوت شروع کردی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ جوں جوں قرآن سنتے جارہے تھے ان کی حالت بدلتی جارہی تھی۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تاثیر سے بھر پور قرأة نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دنیائے قلب ونظر میں ایک انقلاب برپا کر دیا ان کی آنکھوں سے غیظ وغضب کے شعلوں کی جگہ فرط مذامت سے آنسو بہ نکلے۔ آبدیدہ ہو کر فرمایا: فاطمہ رضی اللہ عنہا تو سچ کہتی ہے۔ خدا ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سچے نبی ہیں۔ اسی حالت میں درباررسالت میں حاضر ہوئے اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا ظلم وتشدد کے حصار میں گھرے ہوئے بے بس ومجبور مسلمانوں کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام سے اتنی خوشی ہوئی کہ انہوں نے بے اختیار بلند آواز میں نعرہ تکبیر بلند کیا جس سے مکہ کی فضا گونج اٹھی۔
اس کے بعد مسلمانوں نے پہلی مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اصرار پر باہر نکل کر نماز باجماعت ادا کی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام کی جوبے مثال خدمات انجام دیں اور مسلمانوں کو ان کی وجہ سے جو طاقت اور قوت نصیب ہوئی وہ کسی کے بیان کی محتاج نہیں لیکن اس حقیقت کا اعتراف بھی لازمی ہے کہ مسلمانوں کو یہ انمول دولت دینے میں حضرت فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا کا بہت بڑا حصہ ہے جسے کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو ابن خطاب سے امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے لقب تک پہنچے جن کی قوت ایمانی اور ذہانت وقابلیت نے قیصرو کسریٰ کی عظمت وسطوت کو خاک میں ملا کر دنیا بھر کی تقدیر کو دگرگوں کردیا جن کے متعلق آج بھی غیر مسلم مورخین یہ کہتے ہیں کہ اگر اسلام کو ایک عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور مل جاتا تو دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مسلمان ہی نظر آتے ۔
اس بطل عظیم کی دنیائے فکرو نظر کو ایک عورت کی استقامت اور صداقت پرستی نے حیرت انگیرانقلاب سے آشنا کردیا۔وہ عمر رضی اللہ عنہ جس کی ہیبت اور جرأت وشجاعت سے بڑے بڑے بہادروں کے دل کانپ جاتے تھے ایک عورت کے جذبہ صادق کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگیا۔
ہماری بہنوں اور بیٹیوں کے لئے مقام فکر ہے۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ آخر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس وہ کون سی طاقت تھی جس نے وقت ایک سخت مزاج اور پتھر دل انسان کو عفووحلم اور تسلیم ورضاء کے سانچے میں ڈھل جانے پر مجبور کردیا آخراس نیک سیرت خاتون کے الفاظ میں کیا جادواثر تھا کہ ایک ایسا شخص جو سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے نکلا اور اس عزم کے ساتھ سب کے سامنے روانہ ہوا کہ وہ پیغمبر اسلام کا سرقلم کر کے لائے گا جب واپس آیا تو اس کا دل نورالٰہی سے منور ہوچکا تھا۔
اور وہ مسلمانوں کا سب سے بڑا حمایتی تھا۔ اسی کی تلوار ، بے بس ومجبور مسلمانوں کے لئے ڈھال بن چکی تھی۔ اس حیرت انگیز اور عجیب وغریب انقلاب کے پس پردہ ایک بلند کردار عورت کا ہاتھ کار فرماتھا۔ ایک ایسی خاتون جس کے رگ وپے میں اسلام کی محبت سرائیت کرچکی تھی جس کی زندگی اور موت صرف اللہ کے لئے تھی حضرت فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا کے پاس ایمان کی دولت تھی یہی وہ طاقت تھی جس نے غیظ وغضب کے پہاڑ کو ذرات ریگ میں تبدیل کردیا۔
یہی وہ جادو تھا جس نے خون آشام آنکھوں سے مذامت کے آنسوؤں کا چشمہ جاری کردیا اور یہی وہ قوت تھی جس نے ظلم وقساوت اور سنگ دلی کے پیکر کو سراپا محبت اور رحمت بنا کر دنیا کی تاریخ کارخ بدل دیا آج دردمند مسلمانوں کی نگاہیں کروڑوں مسلمان خواتین کی بھیڑ میں ایک فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا کو ڈھونڈ رہی ہیں جو اسلام کو ایسے مایہ ناز بھائی دے سکیں۔ جو ایک بار پھر تاریخ کو مجبور کردیں کہ وہ اپنے کو اسی انداز میں دہرائے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu