Open Menu

Nawasa Rasool SAW Jigar Gosha E Batool RA Hazrat Imam Hassan RA - Article No. 3260

Nawasa Rasool SAW Jigar Gosha E Batool RA Hazrat Imam Hassan RA

نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جگر گوشہ بتول رضی اللہ عنہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ - تحریر نمبر 3260

انہوں نے ہمیشہ پیدل حج فرمایا ،کبھی کبھی پابرہنہ بھی حج کے لیے جاتے تھے

پیر 28 اکتوبر 2019

آغا سید حامد علی شاہ موسوی
28صفر المظفر50ھ تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ المسلمین حضرت امام حسن محبتی رضی اللہ عنہ درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رقم طراز ہیں کہ اما م حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت کی سبب آپ کی بیوی جعدہ ابنت الشعث کی جانب سے دیا جانے والا زہر تھا۔جسے لالچ دیا گیا تھا کہ اس کا نکاح یزیدبن معاویہ سے کرادیا جائے گا۔

یہ زہر اس قدر سخت تھا کہ جگر اور انتڑیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نکلتے تھے۔امام حسن فرماتے کہ مجھے کئی بار زہر دیا گیا ہے لیکن اس قدر سخت زہر کبھی نہیں دیا گیا۔(سر الشہادتین)یہ زہر روم سے منگوایا گیا تھا جسے زہر ہلا ہل کہا جاتاہے۔
امام حسن رضی اللہ عنہ15رمضان3ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں سورہ کوثر کی پہلی تفسیربن کر صحن علی المرتضی رضی اللہ عنہ وخاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ میں تشریف لائے۔

(جاری ہے)

رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کیلئے امام حسن رضی اللہ عنہ کی آمد بہت بڑی خوشی تھی کیونکہ جب مکہ مکرمہ میں رسول کے بیٹے یکے بعد دیگرے رحلت فرماتے رہے تو مشرکین طعنے دیتے اور آپ کو بڑا صدمہ پہنچتا۔مشرکین کو جواب کے لیے قرآن مجید میں سورة الکوثر نازل ہوئی جس میں آپ کو خوش خبری دی گئی ہے کہ خدا نے آپ کو کثرت اولاد عطا فرمائی ہے اور مقطوع النسل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہوں گے بلکہ آپ کا دشمن ہو گا۔
دنیا میں ہر انسان کی نسل اس کے بیٹے سے ہے لیکن کائنات کی اشرف ترین ہستی سرورکونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل کا ذریعہ ان کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا یعنی امام حسن رضی اللہ عنہ کوحسین رضی اللہ عنہ کوقرار دیا گیا۔
بحارالانور میں ہے کہ جب امام حسن رضی اللہ عنہ سرور کائنات کی خدمت میں لائے گئے تو آنحضرت نے نوزائیدہ بچے کو آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی ،امام حسن رضی اللہ عنہ اسے چوسنے لگے اس کے بعد آپ نے دعا کی خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا۔

امام حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت کے ساتویں دن سر کار کائنات نے خود اپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی تصدق کی(اسدالغلبة)۔علامہ کمال الدین کا بیان ہے کہ عقیقہ کے سلسلے میں دنبہ ذبح کیا گیا تھاامام شافعی رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسن رضی اللہ عنہ کا عقیقہ کرکے اس کے سنت ہونے کی دائمی بنیاد ڈال دی۔

آذان واقامت کہنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا۔”آپ نے اس بچہ کاکوئی نام بھی رکھا؟“امیر المومنین صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کی۔”آپ پر سبقت میں کیسے کر سکتا تھا۔“پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”میں بھی خدا پر کیسے سبقت کر سکتا ہوں “چند ہی لمحوں کے بعد جبرائیل علیہ السلام پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وحی لیکر آگئے اور کہا”خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ اس بچہ کا نام حسن رضی اللہ عنہ رکھئے۔
تاریخ خمیس میں یہ مذکور ہے کہ جبرائیل امین وحی لے کر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نازل ہوئے اور فرمایا۔آپ کا پروردگار آپ کو سلام کہتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ آپ کیلئے ایسے ہی ہیں جیسے ہارون موسیٰ علیہ السلام کیلئے تھے لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔
آپ اپنے اس فرزند کا نام ہارون کے فرزند کے نام پر ’شبر ‘رکھئے۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری زبان تو عربی ہے۔جبرائیل نے کہا آپ حسن رضی اللہ عنہ نام رکھئے۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔(تاریخ خمیس)ماہرین علم الانساب بیان کرتے ہیں کہ خداوند عالم نے خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ کے دونوں شاہزادوں کا نام انظار عالم سے پوشیدہ رکھا تھا یعنی ان سے پہلے حسن وحسین نام سے کوئی موسوم نہیں ہواتھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ امام حسن رضی اللہ عنہ سے زیادہ مشابہت رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ رسول کریم سے چہرے سے سینے تک اور امام حسین رضی اللہ عنہ سینے سے قدم تک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہہ تھے۔
خدا کی وحی کے بغیر کوئی کام اور کلام نہ کرنے والے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسوں سے محبت اور اللہ کے نزدیک مقام کا اندازہ اس حدیث مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے ۔
عبدالرحمن بن محمد بن سلام،یزید بن ہارون ،جریربن حازم،محمد بن ابو یعقوب بصری،عبداللہ بن شداد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء ادا کرنے کیلئے باہر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو گود میں اٹھائے ہوئے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت آگے بڑھے(نماز کی امامت فرمانے کیلئے)اور ان کی بٹھلایا زمین پر پھر نماز کے واسطے تکبیر فرمائی اور نماز شروع فرمائی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے درمیان ایک سجدہ میں تاخیر فرمائی تو میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ صاحب زادے یعنی نواسہ رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر ہیں اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت سجدہ میں ہیں،پھر میں سجدہ میں چلا گیا جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے دوران ایک سجدہ ادا فرمانے میں تاخیر فرمائی ۔

یہاں تک کہ ہم لوگوں کو اس بات کا خیال ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی قسم کا کوئی حادثہ پیش آگیا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو گئی ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسی کوئی بات نہیں تھی میرے نواسے مجھ پر سوار تھے تو مجھ کو(برا)محسوس ہوا کہ میں جلدی اٹھ کھڑا ہوں اور اس کی مراد(کھیلنے کی خواہش)مکمل نہ ہو۔(سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1146)۔
آنحضرت ایک دن محو خطبہ تھے کہ حسنین رضی اللہ عنہ آگئے اور حسن کے پاؤں دامن عبامیں اس طرح الجھے کہ زمین پر گر پڑے،یہ دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ترک کر دیا اور منبر سے اتر کر انہیں آغوش میں اٹھالیا اور منبر پر تشریف لے جاکر خطبہ شروع فرمایا(ترمذی ،نسائی اور ابوداؤد ،مطالب السوٴل)امام حسن محبتی رضی اللہ عنہ نے سات سال اور کچھ مہینے تک اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوش محبت میں پرورش پائی۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے چند ماہ بعد جب حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی شہادت ہوئی،آپ اپنے والد ماجد کے زیر تربیت آ گئے تھے۔فرزند رسول امام حسن رضی اللہ عنہ اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد امامت کے درجے پر فائز ہوئے اور ساتھ ساتھ خلافت اسلامیہ پر بھی متمکن ہوئے ۔تقریباً چھ ماہ تک آپ مسلمانوں کے خلیفہ رہے اور امور مملکت کا نظم ونسق سنبھالے رہے ۔

آپ کا عہد بھی خلفائے راشدین میں شمار کیا جاتاہے۔ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امام حسن رضی اللہ عنہ زبردست عابد،بے مثل زاہد ،افضل ترین عالم تھے آپ نے جب بھی حج فرمایا پیدل فرمایا،کبھی کبھی پابرہنہ حج کے لیے جاتے تھے آپ اکثر یاد خداوندی میں گریہ کرتے تھے جب آپ وضو کرتے تھے تو آپ کے چہرہ کا رنگ زرد ہو جایا کرتا تھا اور جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو بیدکی مثل کا نپنے لگتے تھے )روضة الواعظین بحار الانوار)۔
امام شافعی رحمة اللہ عنہ لکھتے ہیں کہ امام حسن رضی اللہ عنہ نے اکثر اپنا سارا مال راہ خدا میں تقسیم کر دیا ہے اور بعض مرتبہ نصف مال تقسیم فرمایا ہے وہ عظیم و پر ہیز گار تھے۔امام شافعی رحمة اللہ عنہ کا بیان ہے کہ کسی نے امام حسن سے عرض کی کہ ابو ذر غفاری فرمایا کرتے تھے کہ مجھے تو نگری سے زیادہ ناداری اور صحت سے زیادہ بیماری پسند ہے۔

امام حسن کے والد بزر گوار امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے21رمضان کو شہادت پائی اس وقت امام حسن کی عمر 37سال چھ یوم کی تھی۔تدفین کے بعد عبداللہ ابن عباس کی تحریک سے قیس ابن سعد بن عبادہ انصاری نے امام حسن رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور ان کے بعد تمام حاضرین نے بیعت کرلی جن کی تعداد چالیس ہزار تھی یہ واقعہ جمعہ 21رمضان40ھ کا ہے(ابن اثیر)ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر تقریر کی اور لوگوں کو بیعت کی دعوت دی۔
سب نے انتہائی خوشی اور رضا مندی کے ساتھ بیعت کی آپ نے مستقبل کے حالات کا صحیح اندازہ کرتے ہوئے اسی وقت لوگوں سے صاف صاف یہ شرط کردی کہ”اگر میں صلح کروں تو تم کو صلح کرنا ہو گی اور اگرمیں جنگ کروں تو تمھیں میرے ساتھ مل کر جنگ کرنا ہوگی“سب نے اس شرط کو قبول کرلیا۔
آپ نے انتظام حکومت اپنے ہاتھ میں لیا۔اطراف میں عمال مقرر کئے،حکام متعین کئے اور مقدمات کے فیصلے کرنے لگے۔
لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اسلامی معاشرہ انتشار کا شکار ہے اور تو آپ تخت حکومت کو خیر باد کہہ دیا کیونکہ امام حسن رضی اللہ عنہ کا واحد مقصد حکم خدااور حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پابندی کا اجراء تھا۔تعلیمات محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر چشمہ امام حسن کا قائم رہنا دشمنان دین کو کب گوارا تھا اسی لئے جعدہ بنت اشعث کو انعام واکرام کا لالچ دے کر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم امام حسن کو زہر دے کرے شہید کر دیا گیا۔28صفر50ھ کو آپ نے جام شہادت نوش کیا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu