Open Menu

Shab E Qadar Ki Fazeelat - Article No. 3440

Shab E Qadar Ki Fazeelat

شب قدر کی فضیلت - تحریر نمبر 3440

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو تمام فیصلے فرما لیتا ہے اور چونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سال کی تقدیر و فیصلے کا قلمدان فرشتوں کو سونپا جاتا ہے

رابعہ فاطمہ جمعہ 15 مئی 2020

شب قدر کی فضیلت قرآن کی روشنی میں
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلاَئِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ سَلاَمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْر ﴿سورة القدر﴾
ترجمہ: ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا، تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ایک ہزار راتوں سے بہتر ہے، اس دن فرشتے اور روح امین﴿جبرئیل علیہ السلام﴾اپنے رب کی اجازت سے ہر حکیمانہ حکم لے کر نازل ہوتے ہیں، یہ سلامتی والی ﴿رات﴾ فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔


إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ۔

(جاری ہے)

فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيم﴿سورہ الدخان: ۳،۴﴾
بلاشبہ ہم نے اس (کتاب حکیم) کو ایک بڑی ہی بابرکت رات ﴿شب قدر﴾ میں ہی اتارا ہے کہ ہمیں بہرحال خبردار کرنا ہے،جس میں فیصلہ کیا جاتا ہے ہر حکمت والے کام کا.
قدر کے نام سے تعبیر کرنے کی وجہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو تمام فیصلے فرما لیتا ہے اور چونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سال کی تقدیر و فیصلے کا قلمدان فرشتوں کو سونپا جاتا ہے ‘اس وجہ سے یہ ’’لیلۃ القدر‘‘ کہلاتی ہے۔


امام زہری فرماتے ہیں کہ قدر کے معنی مرتبہ کے ہیں ‘چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے‘ اس لئے اسے ’’لیلۃ القدر‘‘ کہا جاتا ہے۔
اس رات کو قدر کے نام سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے:اس رات میں اللہ تعالی نے اپنی قابل قدر کتاب‘ قابل قدر امت کے لئے صاحبِ قدر رسول کی معرفت نازل فرمائی‘ یہی وجہ ہے کہ اس سورۃ میں لفظ قدر تین دفعہ آیا ہے۔

قدر کے معنی تنگی کے بھی ہیں۔ اس معنی کے لحاظ سے اس رات آسمان سے فرش زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے۔ (تفسیر الخازن،تفسیر کبیر ، تفسیر القرطبی)
شب قدر عطا ہونے کی وجہ:
موطا امام مالک میں ہے کہ:جب رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سابقہ امتوں میں لوگوں کی طویل عمروں کے بارے آگاہ فرمایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی عمر کو کم دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گے؟(پس) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بارگاہ اقدس میں اپنی امت کیلئے آرزو کرتے ہوئے جب یہ دعا فرمائی کہ اے میرے رب میری امت کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم رہ جائیں گے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے شب قدر عنایت فرمائی۔
(تفسیر الخازن)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد پاک ہے:یہ مقدس رات اللہ تعالی نے فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے سابقہ امتوں میں سے یہ شرف کسی کو بھی نہیں ملا۔(الدر المنثور)
شب قدر کی فضیلت احادیث کریمہ کی روشنی میں:
عن أبی هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من قام رمضان إيمانًا واحتسابًا غفر له ما تقدم من ذنبه» (رواه البخاري ومسلم).
یعنی جو شخص ایمان اور طلب ثواب کے ارادہ سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔

سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کی آمد پر ایک مرتبہ رسول پاکؐنے فرمایا:یہ جو ماہ تم پر آیا ہے‘ اس میں ایک ایسی رات ہے‘ جو ہزار ماہ سے افضل ہے‘ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا‘ گویا وہ خیر سے محروم رہا اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتا محروم ِخیر وبرکت ہو۔(سنن ابن ماجہ)
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:شب قدر کو جبرائیل امین فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اتر آتے ہیں اور ہر شخص کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے‘ بیٹھے کسی بھی حال میں اللہ کو یاد کر رہا ہو۔
(شعب الایمان)
تَحرُّوا ليلةَ القَدْر في العَشْر الأواخِر:
عن عائشةَ رضِيَ اللهُ عنها قالتْ: كان رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّمَ يُجاوِر في العَشْر الأواخِر من رمضانَ، ويقول: ((تَحرُّوا ليلةَ القَدْر في العَشْر الأواخِر من رمضانَ)) رواه البخاريُّ (2020)، ومسلم (1169)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے مروی ہے کہ رسالت مآبﷺنے فرمایا:لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قال، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” مَنْ كَانَ مُتَحَرِّيهَا فَلْيَتَحَرَّهَا فِي السَّبْعِ الأَوَاخِر“ (صحیح بخاری)
ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کو ﴿شب قدر ﴾ کی تلاش کرنی ہو آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔
عن عائشةَ رضِيَ اللهُ عنها أنَّ رسولَ الله صلَّى الله عليه وسلَّمَ قال: ((تَحرُّوا لَيلةَ القَدْرِ في الوَتْر من العَشرِ الأواخِرِ من رمضانَ)) رواه البخاريُّ (2017)
عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو۔

عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إِنِّي أُرِيتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ ثُمَّ أُنْسِيتُهَا أَوْ نُسِّيتُهَا فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ فِي الْوَتْر )صحیح بخاری، كتاب صلاة التراويح،باب إلتماس ليلة القدر في السبع الاواخر
ترجمہ: ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے وہ رات دکھائی گئی تھی مگرپھر بھلا دیا گیا، لہذا اب تم اسے رمضان کی آخری طاق راتوں میں تلاش کرو۔

شب قدر کی دعا:
عن عائشة أنها قالت يا رسول الله أرأيت إن وافقت ليلة القدر ما أدعو ؟ : قال ( تقولين اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني (رواه الترمذي (3513)، وابن ماجه (3119)، وأحمد (6/171) (25423) قال الترمذي: حسن صحيح، وصحَّح إسنادَه النوويُّ في ((الأذكار)) (247)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسالتمآبﷺ سے عرض کیا کہ شب قدر کا کیا وظیفہ ہونا چاہئے تو آپﷺنے ان الفاظ کی تلقین فرمائی:اے اللہ تو معاف کر دینے والا اور معافی کو پسند فرمانے والا ہے پس مجھے بھی معاف کر دے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu