Open Menu

Zaid Bin Arqam RA Ki Tasdeeq Nazil Hone Per - Article No. 3254

Zaid Bin Arqam RA Ki Tasdeeq Nazil Hone Per

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی تصدیق نازل ہونے پر - تحریر نمبر 3254

غزوئہ بنی مصطلق کے موقع پر ایک مہاجراور ایک انصاری میں جھگڑاہو گیا۔دونوں نے اپنی اپنی قوم کو مدد کے لیے پکارا۔قریب تھا کہ مہاجرین اور انصار میں لڑائی چھڑ جاتی مگر بعض صحابہ نے بڑھ کر صلح کرادی۔

پیر 14 اکتوبر 2019

پروفیسر مولانا محمد رفیق
غزوئہ بنی مصطلق کے موقع پر ایک مہاجراور ایک انصاری میں جھگڑاہو گیا۔

دونوں نے اپنی اپنی قوم کو مدد کے لیے پکارا۔

(جاری ہے)

قریب تھا کہ مہاجرین اور انصار میں لڑائی چھڑ جاتی مگر بعض صحابہ نے بڑھ کر صلح کرادی۔
رائیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کو اس جھگڑے کی خبر ہوئی تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ الفاظ کہے اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا:”یہ سب کچھ تمہارا کیا دھرا ہے۔تم لوگوں نے ان کو اپنے شہر میں ٹھکانا دیا۔

اپنا آدھا مال دیا۔تم ان کی مددنہ کروتو یہ لوگ اس شہر سے چلے جائیں۔اللہ کی قسم!ہم لوگ جب مدینے پہنچیں گے تو ہم عزت والے ان ذلیل لوگوں کو وہاں سے باہر نکال دیں گے۔“
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ جو ابھی نوعمر لڑکے تھے وہاں موجود تھے ،انہوں نے اس منافق سے کہا:”اللہ کی قسم!تو ذلیل ہے۔اپنی قوم میں بھی تمہاری عزت نہیں ،تیرا کوئی حمایتی نہیں۔
عزت والے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔اللہ نے ان کوعزت دی ہے۔اپنی قوم میں بھی اُن کی عزت ہے۔“
یہ سن کر عبداللہ بن اُبی بولا:“اچھاچپ رہو،میں تو یونہی مذاق کررہا تھا۔“
لیکن حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے جاکر یہ ساری باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادیں۔
اس موقع پر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مجھے اجازت دیں میں اس کافر کی گردن اڑادوں ۔
مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت نہ دی۔
جب عبداللہ بن اُبی کو پتہ چلا کہ اس کی تمام باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادی گئی ہیں تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر جھوٹی قسمیں کھانی شرع کردیں اور کہنے لگا کہ میں نے کچھ نہیں کہا تھا،زید نے میری طرف جھوٹی باتیں منسوب کردی ہیں۔
انصار کے بعض لوگ بھی سفارش کرنے لگے کہ:”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !عبداللہ اپنی قوم کا سردار ہے اور بڑا آدمی ہے۔
ایک بچے کی باتیں اس کے مقابلے میں قابل قبول نہیں ۔ہو سکتا ہے اسے سننے میں غلطی ہوئی ہو یا وہ بات کو سمجھا نہ ہو۔“
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا عذر قبول فرمایا۔جب حضرت زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ کو خبر ہوئی کہ منافق کی جھوٹی قسموں سے وہ سچا قرار دیا گیا ہے اور ان کو جھٹلایا گیا ہے تو انہوں نے شرم کے مارے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا۔
وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بھی حاضری نہ دے سکے۔
آخر کار سورئہ منافقون نازل ہوئی اس میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی سچائی اور منافق عبداللہ بن اُبی کی جھوٹی قسموں کی طرف اشارہ کیا گیا۔تو سب کی نگاہوں میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کی وقعت اور احترام بڑھ گیا۔
دوسری طرف جب مدینہ قریب آیا تو عبداللہ بن اُبی کے بیٹے عبداللہ جو کہ مخلص مسلمان تھے شہرکے باہر تلوار لے کر کھڑے ہوگئے اور باپ سے کہا کہ :
”میں آپ کو اس وقت تک مدینے میں داخل نہیں ہونے دوں گا جب تک تم یہ اقرار نہیں کروگے کہ تم ذلیل ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم عزت والے ہیں۔

یہ صورت حال دیکھ کر باپ کو بڑ ا تعجب ہوا کہ میرا بیٹا اس سے پہلے احترام اور حسن سلوک کرتا تھا مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں میرے ساتھ یہ سلوک کر رہا ہے تو اس نے اقرار کر لیا کہ وہی ذلیل ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم معزز ہیں ۔اس کے بعد ہی وہ مدینے میں داخل ہو سکا۔
ایک روایت میں ہے کہ جب سورئہ منافقوں اُتری تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو بلایا اور اُن کا کان ملا۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا:
تمہارا کان سچا تھا۔اللہ تعالیٰ نے تیری تصدیق نازل کردی ہے ۔

Browse More Islamic Articles In Urdu