Open Menu

Sahih Bukhari Hadith 4418 - Read Hadith in Arabic with English/Urdu Translation

Read the complete Sahih Bukhari Hadith 4418 at UrduPoint with English and Urdu Translation. Hadith 4418 of Sahih Bukhari is narrated by Imam Bukhari in the Chapter Al- Maghazi. You can read the original Sahih Bukhari 4418 Hadith in Arabic on this page and its translation in Urdu and English to understand its meaning.

  • Hadith No 4418
  • Book Name Sahih Bukhari
  • Chapter Name Al- Maghazi
  • Writer Imam Bukhari
  • Writer Death 256 ھ
Urdu Hadith English Hadith Arabic Hadith

Sahih Bukhari Hadith 4418 in Urdu

Read Hadith 4418 of Sahih Bukhari in Urdu Translation narrated by Imam Bukhari in Chapter Al- Maghazi of Sahih Bukhari at UrduPoint. The following is the complete Sahih Bukhari Hadith 4418 Urdu Translation.

´ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے، ان سے عبداللہ بن کعب بن مالک نے،` (جب کعب رضی اللہ عنہ نابینا ہو گئے تو ان کے لڑکوں میں وہ ہی کعب رضی اللہ عنہ کو راستے میں پکڑ کر چلا کرتے تھے) انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب رضی اللہ عنہ سے ان کے غزوہ تبوک میں شریک نہ ہو سکنے کا واقعہ سنا۔ انہوں نے بتایا کہ غزوہ تبوک کے سوا اور کسی غزوہ میں ایسا نہیں ہوا تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک نہ ہوا ہوں۔ البتہ غزوہ بدر میں بھی شریک نہیں ہوا تھا لیکن جو لوگ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے، ان کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کی خفگی کا اظہار نہیں فرمایا تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر صرف قریش کے قافلے کی تلاش میں نکلے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے کسی پہلی تیاری کے بغیر، آپ کی دشمنوں سے ٹکر ہو گئی اور میں لیلہ عقبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ یہ وہی رات ہے جس میں ہم نے (مکہ میں) اسلام کے لیے عہد کیا تھا اور مجھے تو یہ غزوہ بدر سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ اگرچہ بدر کا لوگوں کی زبانوں پر چرچہ زیادہ ہے۔ میرا واقعہ یہ ہے کہ میں اپنی زندگی میں کبھی اتنا قوی اور اتنا صاحب مال نہیں ہوا تھا جتنا اس موقع پر تھا۔ جبکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تبوک کے غزوے میں شریک نہیں ہو سکا تھا۔ اللہ کی قسم! اس سے پہلے کبھی میرے پاس دو اونٹ جمع نہیں ہوئے تھے لیکن اس موقع پر میرے پاس دو اونٹ موجود تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی کسی غزوے کے لیے تشریف لے جاتے تو آپ اس کے لیے ذومعنی الفاظ استعمال کیا کرتے تھے لیکن اس غزوہ کا جب موقع آیا تو گرمی بڑی سخت تھی، سفر بھی بہت لمبا تھا، بیابانی راستہ اور دشمن کی فوج کی کثرت تعداد! تمام مشکلات سامنے تھیں۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے اس غزوہ کے متعلق بہت تفصیل کے ساتھ بتا دیا تھا تاکہ اس کے مطابق پوری طرح سے تیاری کر لیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سمت کی بھی نشاندہی کر دی جدھر سے آپ کا جانے کا ارادہ تھا۔ مسلمان بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت تھے۔ اتنے کہ کسی رجسٹر میں سب کے ناموں کا لکھنا بھی مشکل تھا۔ کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ کوئی بھی شخص اگر اس غزوے میں شریک نہ ہونا چاہتا تو وہ یہ خیال کر سکتا تھا کہ اس کی غیر حاضری کا کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔ سوا اس کے کہ اس کے متعلق وحی نازل ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس غزوہ کے لیے تشریف لے جا رہے تھے تو پھل پکنے کا زمانہ تھا اور سایہ میں بیٹھ کر لوگ آرام کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تیاریوں میں مصروف تھے اور آپ کے ساتھ مسلمان بھی۔ لیکن میں روزانہ سوچا کرتا تھا کہ کل سے میں بھی تیاری کروں گا اور اس طرح ہر روز اسے ٹالتا رہا۔ مجھے اس کا یقین تھا کہ میں تیاری کر لوں گا۔ مجھے آسانیاں میسر ہیں، یوں ہی وقت گزرتا رہا اور آخر لوگوں نے اپنی تیاریاں مکمل بھی کر لیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو ساتھ لے کر روانہ بھی ہو گئے۔ اس وقت تک میں نے تیاری نہیں کی تھی۔ اس موقع پر بھی میں نے اپنے دل کو یہی کہہ کر سمجھا لیا کہ کل یا پرسوں تک تیاری کر لوں گا اور پھر لشکر سے جا ملوں گا۔ کوچ کے بعد دوسرے دن میں نے تیاری کے لیے سوچا لیکن اس دن بھی کوئی تیاری نہیں کی۔ پھر تیسرے دن کے لیے سوچا اور اس دن بھی کوئی تیاری نہیں کی۔ یوں ہی وقت گزر گیا اور اسلامی لشکر بہت آگے بڑھ گیا۔ غزوہ میں شرکت میرے لیے بہت دور کی بات ہو گئی اور میں یہی ارادہ کرتا رہا کہ یہاں سے چل کر انہیں پا لوں گا۔ کاش! میں نے ایسا کر لیا ہوتا لیکن یہ میرے نصیب میں نہیں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد جب میں باہر نکلتا تو مجھے بڑا رنج ہوتا کیونکہ یا تو وہ لوگ نظر آتے جن کے چہروں سے نفاق ٹپکتا تھا یا پھر وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے معذور اور ضعیف قرار دے دیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بارے میں کسی سے کچھ نہیں پوچھا تھا لیکن جب آپ تبوک پہنچ گئے تو وہیں ایک مجلس میں آپ نے دریافت فرمایا کہ کعب نے کیا کیا؟ بنو سلمہ کے ایک صاحب نے کہا کہ یا رسول اللہ! اس کے غرور نے اسے آنے نہیں دیا۔ (وہ حسن و جمال یا لباس پر اترا کر رہ گیا) اس پر معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بولے تم نے بری بات کہی۔ یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! ہمیں ان کے متعلق خیر کے سوا اور کچھ معلوم نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہیں فرمایا۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لا رہے ہیں تو اب مجھ پر فکر سوار ہوا اور میرا ذہن کوئی ایسا جھوٹا بہانہ تلاش کرنے لگا جس سے میں کل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی سے بچ سکوں۔ اپنے گھر کے ہر عقلمند آدمی سے اس کے متعلق میں نے مشورہ لیا لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے بالکل قریب آ چکے ہیں تو غلط خیالات میرے ذہن سے نکل گئے اور مجھے یقین ہو گیا کہ اس معاملہ میں جھوٹ بول کر میں اپنے کو کسی طرح محفوظ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ میں نے سچی بات کہنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ صبح کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ جب آپ کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تو یہ آپ کی عادت تھی کہ پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں کے ساتھ مجلس میں بیٹھتے۔ جب آپ اس عمل سے فارغ ہو چکے تو آپ کی خدمت میں لوگ آنے لگے جو غزوہ میں شریک نہیں ہو سکے تھے اور قسم کھا کھا کر اپنے عذر بیان کرنے لگے۔ ایسے لوگوں کی تعداد اسی کے قریب تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظاہر کو قبول فرما لیا، ان سے عہد لیا۔ ان کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی اور ان کے باطن کو اللہ کے سپرد کیا۔ اس کے بعد میں حاضر ہوا۔ میں نے سلام کیا تو آپ مسکرائے۔ آپ کی مسکراہٹ میں خفگی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آؤ، میں چند قدم چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ تم غزوہ میں کیوں شریک نہیں ہوئے۔ کیا تم نے کوئی سواری نہیں خریدی تھی؟ میں نے عرض کیا، میرے پاس سواری موجود تھی۔ اللہ کی قسم! اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی دنیادار شخص کے سامنے آج بیٹھا ہوتا تو کوئی نہ کوئی عذر گھڑ کر اس کی خفگی سے بچ سکتا تھا، مجھے خوبصورتی کے ساتھ گفتگو کا سلیقہ معلوم ہے۔ لیکن اللہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ اگر آج میں آپ کے سامنے کوئی جھوٹا عذر بیان کر کے آپ کو راضی کر لوں تو بہت جلد اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے گا۔ اس کے بجائے اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی بات بیان کر دوں تو یقیناً آپ کو میری طرف سے خفگی ہو گی لیکن اللہ سے مجھے معافی کی پوری امید ہے۔ نہیں، اللہ کی قسم! مجھے کوئی عذر نہیں تھا، اللہ کی قسم اس وقت سے پہلے کبھی میں اتنا فارغ البال نہیں تھا اور پھر بھی میں آپ کے ساتھ شریک نہیں ہو سکا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے سچی بات بتا دی۔ اچھا اب جاؤ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں خود کوئی فیصلہ کر دے۔ میں اٹھ گیا اور میرے پیچھے بنو سلمہ کے کچھ لوگ بھی دوڑے ہوئے آئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! ہمیں تمہارے متعلق یہ معلوم نہیں تھا کہ اس سے پہلے تم نے کوئی گناہ کیا ہے اور تم نے بڑی کوتاہی کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ویسا ہی کوئی عذر نہیں بیان کیا جیسا دوسرے نہ شریک ہونے والوں نے بیان کر دیا تھا۔ تمہارے گناہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار ہی کافی ہو جاتا۔ اللہ کی قسم! ان لوگوں نے مجھے اس پر اتنی ملامت کی کہ مجھے خیال آیا کہ واپس جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی جھوٹا عذر کر آؤں۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کیا میرے علاوہ کسی اور نے بھی مجھ جیسا عذر بیان کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں دو حضرات نے اسی طرح معذرت کی جس طرح تم نے کی ہے اور انہیں جواب بھی وہی ملا ہے جو تمہیں ملا۔ میں نے پوچھا کہ ان کے نام کیا ہیں؟ انہوں نے بتا کیا کہ مرارہ بن ربیع عمری اور ہلال بن امیہ واقفی رضی اللہ عنہما۔ ان دو ایسے صحابہ کا نام انہوں نے لے دیا تھا جو صالح تھے اور بدر کی جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ ان کا طرز عمل میرے لیے نمونہ بن گیا۔ چنانچہ انہوں نے جب ان بزرگوں کا نام لیا تو میں اپنے گھر چلا آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت کر دی، بہت سے لوگ جو غزوے میں شریک نہیں ہوئے تھے، ان میں سے صرف ہم تین تھے! لوگ ہم سے الگ رہنے لگے اور سب لوگ بدل گئے۔ ایسا نظر آتا تھا کہ ہم سے ساری دنیا بدل گئی ہے۔ ہمارا اس سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔ پچاس دن تک ہم اسی طرح رہے، میرے دو ساتھیوں نے تو اپنے گھروں سے نکلنا ہی چھوڑ دیا، بس روتے رہتے تھے لیکن میرے اندر ہمت تھی کہ میں باہر نکلتا تھا، مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوتا تھا اور بازاروں میں گھوما کرتا تھا لیکن مجھ سے بولتا کوئی نہ تھا۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی حاضر ہوتا تھا، آپ کو سلام کرتا، جب آپ نماز کے بعد مجلس میں بیٹھتے، میں اس کی جستجو میں لگا رہتا تھا کہ دیکھوں سلام کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہونٹ ہلے یا نہیں، پھر آپ کے قریب ہی نماز پڑھنے لگ جاتا اور آپ کو کنکھیوں سے دیکھتا رہتا جب میں اپنی نماز میں مشغول ہو جاتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھتے لیکن جونہی میں آپ کی طرف دیکھتا آپ رخ مبارک پھیر لیتے۔ آخر جب اس طرح لوگوں کی بےرخی بڑھتی ہی گئی تو میں (ایک دن) ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوار پر چڑھ گیا، وہ میرے چچا زاد بھائی تھے اور مجھے ان سے بہت گہرا تعلق تھا، میں نے انہیں سلام کیا، لیکن اللہ کی قسم! انہوں نے بھی میرے سلام کا جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا، ابوقتادہ! تمہیں اللہ کی قسم! کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ اور اس کے رسول سے مجھے کتنی محبت ہے۔ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے دوبارہ ان سے یہی سوال کیا اللہ کی قسم دے کر لیکن اب بھی وہ خاموش تھے، پھر میں نے اللہ کا واسطہ دے کر ان سے یہی سوال کیا۔ اس مرتبہ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ اس پر میرے آنسو پھوٹ پڑے۔ میں واپس چلا آیا اور دیوار پر چڑھ کر (نیچے، باہر اتر آیا) انہوں نے بیان کیا کہ ایک دن میں مدینہ کے بازار میں جا رہا تھا کہ شام کا ایک کاشتکار جو غلہ بیچنے مدینہ آیا تھا، پوچھ رہا تھا کہ کعب بن مالک کہاں رہتے ہیں؟ لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا تو وہ میرے پاس آیا اور ملک غسان کا ایک خط مجھے دیا، اس خط میں یہ تحریر تھا۔ امابعد! مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہار ے صاحب (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے ساتھ زیادتی کرنے لگے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کوئی ذلیل نہیں پیدا کیا ہے کہ تمہارا حق ضائع کیا جائے، تم ہمارے پاس آ جاؤ، ہم تمہارے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کریں گے۔ جب میں نے یہ خط پڑھا تو میں نے کہا کہ یہ ایک اور امتحان آ گیا۔ میں نے اس خط کو تنور میں جلا دیا۔ ان پچاس دنوں میں سے جب چالیس دن گزر چکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی میرے پاس آئے اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں حکم دیا ہے کہ اپنی بیوی کے بھی قریب نہ جاؤ۔ میں نے پوچھا میں اسے طلاق دے دوں یا پھر مجھے کیا کرنا چاہئیے؟ انہوں نے بتایا کہ نہیں صرف ان سے جدا ہو، ان کے قریب نہ جاؤ میرے دونوں ساتھیوں کو (جنہوں نے میری طرح معذرت کی تھی) بھی یہی حکم آپ نے بھیجا تھا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اب اپنے میکے چلی جاؤ اور اس وقت تک وہیں رہو جب تک اللہ تعالیٰ اس معاملہ کا کوئی فیصلہ نہ کر دے۔ کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہلال بن امیہ (جن کا مقاطعہ ہوا تھا) کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: یا رسول اللہ! ہلال بن امیہ بہت ہی بوڑھے اور کمزور ہیں، ان کے پاس کوئی خادم بھی نہیں ہے، کیا اگر میں ان کی خدمت کر دیا کروں تو آپ ناپسند فرمائیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صرف وہ تم سے صحبت نہ کریں۔ انہوں نے عرض کی۔ اللہ کی قسم! وہ تو کسی چیز کے لیے حرکت بھی نہیں کر سکتے۔ جب سے یہ خفگی ان پر ہوئی ہے وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ان کے آنسو تھمنے میں نہیں آتے۔ میرے گھر کے بعض لوگوں نے کہا کہ جس طرح ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کو ان کی خدمت کرتے رہنے کی اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دی ہے، آپ بھی اسی طرح کی اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے لیجئے۔ میں نے کہا نہیں، اللہ کی قسم! میں اس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہیں لوں گا، میں جوان ہوں، معلوم نہیں جب سے اجازت لینے جاؤں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرمائیں۔ اس طرح دس دن اور گزر گئے اور جب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت فرمائی تھی اس کے پچاس دن پورے ہو گئے۔ پچاسویں رات کی صبح کو جب میں فجر کی نماز پڑھ چکا اور اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا، اس طرح جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے، میرا دم گھٹا جا رہا تھا اور زمین اپنی تمام وسعتوں کے باوجود میرے لیے تنگ ہوتی جا رہی تھی کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی، جبل سلع پر چڑھ کر کوئی بلند آواز سے کہہ رہا تھا، اے کعب بن مالک! تمہیں بشارت ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی میں سجدے میں گر پڑا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اب فراخی ہو جائے گی۔ فجر کی نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی بارگاہ میں ہماری توبہ کی قبولیت کا اعلان کر دیا تھا۔ لوگ میرے یہاں بشارت دینے کے لیے آنے لگے اور میرے دو ساتھیوں کو بھی جا کر بشارت دی۔ ایک صاحب (زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ) اپنا گھوڑا دوڑائے آ رہے تھے، ادھر قبیلہ اسلم کے ایک صحابی نے پہاڑی پر چڑھ کر (آواز دی) اور آواز گھوڑے سے زیادہ تیز تھی۔ جن صحابی نے (سلع پہاڑی پر سے) آواز دی تھی، جب وہ میرے پاس بشارت دینے آئے تو اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس بشارت کی خوشی میں، میں نے انہیں دے دئیے۔ اللہ کی قسم کہ اس وقت ان دو کپڑوں کے سوا (دینے کے لائق) اور میرے پاس کوئی چیز نہیں تھی۔ پھر میں نے (ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے) دو کپڑے مانگ کر پہنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جوق در جوق لوگ مجھ سے ملاقات کرتے جاتے تھے اور مجھے توبہ کی قبولیت پر بشارت دیتے جاتے تھے، کہتے تھے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کی قبولیت مبارک ہو۔ کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، آخر میں مسجد میں داخل ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے۔ چاروں طرف صحابہ کا مجمع تھا۔ طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ دوڑ کر میری طرف بڑھے اور مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارکباد دی۔ اللہ کی قسم! (وہاں موجود) مہاجرین میں سے کوئی بھی ان کے سوا، میرے آنے پر کھڑا نہیں ہوا۔ طلحہ رضی اللہ عنہ کا یہ احسان میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے فرمایا: (چہرہ مبارک خوشی اور مسرت دمک اٹھا تھا) اس مبارک دن کے لیے تمہیں بشارت ہو جو تمہاری عمر کا سب سے مبارک دن ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ بشارت آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے؟ فرمایا نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بات پر خوش ہوتے تو چہرہ مبارک روشن ہو جاتا تھا، ایسا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو۔ آپ کی مسرت ہم تو چہرہ مبارک سے سمجھ جاتے تھے۔ پھر جب میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا تو عرض کیا: یا رسول اللہ! اپنی توبہ کی قبولیت کی خوشی میں، میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن کچھ مال اپنے پاس بھی رکھ لو، یہ زیادہ بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا پھر میں خیبر کا حصہ اپنے پاس رکھ لوں گا۔ پھر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے مجھے سچ بولنے کی وجہ سے نجات دی۔ اب میں اپنی توبہ کی قبولیت کی خوشی میں یہ عہد کرتا ہوں کہ جب تک زندہ رہوں گا سچ کے سوا اور کوئی بات زبان پر نہ لاؤں گا۔ پس اللہ کی قسم! جب سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ عہد کیا، میں کسی ایسے مسلمان کو نہیں جانتا جسے اللہ نے سچ بولنے کی وجہ سے اتنا نوازا ہو، جتنی نوازشات اس کی مجھ پر سچ بولنے کی وجہ سے ہیں۔ جب سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ عہد کیا، پھر آج تک کبھی جھوٹ کا ارادہ بھی نہیں کیا اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھے اس سے محفوظ رکھے گا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر آیت (ہمارے بارے میں) نازل کی تھی۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے نبی، مہاجرین اور انصار کی توبہ قبول کی اس کے ارشاد «وكونوا مع الصادقين‏» تک اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کے لیے ہدایت کے بعد، میری نظر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس سچ بولنے سے بڑھ کر اللہ کا مجھ پر اور کوئی انعام نہیں ہوا کہ میں نے جھوٹ نہیں بولا اور اس طرح اپنے کو ہلاک نہیں کیا۔ جیسا کہ جھوٹ بولنے والے ہلاک ہو گئے تھے۔ نزول وحی کے زمانہ میں جھوٹ بولنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے اتنی شدید وعید فرمائی جتنی شدید کسی دوسرے کے لیے نہیں فرمائی ہو گی۔ فرمایا ہے «سيحلفون بالله لكم إذا انقلبتم‏» ارشاد «فإن الله لا يرضى عن القوم الفاسقين‏» تک۔ کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ چنانچہ ہم تین، ان لوگوں کے معاملے سے جدا رہے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قسم کھا لی تھی اور آپ نے ان کی بات مان بھی لی تھی، ان سے بیعت بھی لی تھی اور ان کے لیے طلب مغفرت بھی فرمائی تھی۔ ہمارا معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑ دیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے خود اس کا فیصلہ فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «وعلى الثلاثة الذين خلفوا‏» سے یہی مراد ہے کہ ہمار ا مقدمہ ملتوی رکھا گیا اور ہم ڈھیل میں ڈال دئیے گئے۔ یہ نہیں مراد ہے کہ جہاد سے پیچھے رہ گئے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے پیچھے رہے جنہوں نے قسمیں کھا کر اپنے عذر بیان کئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذر قبول کر لیے۔

Sahih Bukhari Hadith 4418 in English

Read Hadith 4418 of Sahih Bukhari in English Translation narrated by Imam Bukhari in Chapter Al- Maghazi of Sahih Bukhari at UrduPoint. The following is the complete Sahih Bukhari Hadith 4418 English Translation.

Narrated `Abdullah bin Ka`b bin Malik: Who, from among Ka`b's sons, was the guide of Ka`b when he became blind: I heard Ka`b bin Malik narrating the story of (the Ghazwa of) Tabuk in which he failed to take part. Ka`b said, "I did not remain behind Allah's Apostle in any Ghazwa that he fought except the Ghazwa of Tabuk, and I failed to take part in the Ghazwa of Badr, but Allah did not admonish anyone who had not participated in it, for in fact, Allah's Apostle had gone out in search of the caravan of Quraish till Allah made them (i.e. the Muslims) and their enemy meet without any appointment. I witnessed the night of Al-`Aqaba (pledge) with Allah's Apostle when we pledged for Islam, and I would not exchange it for the Badr battle although the Badr battle is more popular amongst the people than it (i.e. Al-`Aqaba pledge). As for my news (in this battle of Tabuk), I had never been stronger or wealthier than I was when I remained behind the Prophet in that Ghazwa. By Allah, never had I two she-camels before, but I had then at the time of this Ghazwa. Whenever Allah's Apostle wanted to make a Ghazwa, he used to hide his intention by apparently referring to different Ghazwa till it was the time of that Ghazwa (of Tabuk) which Allah's Apostle fought in severe heat, facing, a long journey, desert, and the great number of enemy. So the Prophet announced to the Muslims clearly (their destination) so that they might get prepared for their Ghazwa. So he informed them clearly of the destination he was going to. Allah's Apostle was accompanied by a large number of Muslims who could not be listed in a book namely, a register." Ka`b added, "Any man who intended to be absent would think that the matter would remain hidden unless Allah revealed it through Divine Revelation. So Allah's Apostle fought that Ghazwa at the time when the fruits had ripened and the shade looked pleasant. Allah's Apostle and his companions prepared for the battle and I started to go out in order to get myself ready along with them, but I returned without doing anything. I would say to myself, 'I can do that.' So I kept on delaying it every now and then till the people got ready and Allah's Apostle and the Muslims along with him departed, and I had not prepared anything for my departure, and I said, I will prepare myself (for departure) one or two days after him, and then join them.' In the morning following their departure, I went out to get myself ready but returned having done nothing. Then again in the next morning, I went out to get ready but returned without doing anything. Such was the case with me till they hurried away and the battle was missed (by me). Even then I intended to depart to take them over. I wish I had done so! But it was not in my luck. So, after the departure of Allah's Apostle, whenever I went out and walked amongst the people (i.e, the remaining persons), it grieved me that I could see none around me, but one accused of hypocrisy or one of those weak men whom Allah had excused. Allah's Apostle did not remember me till he reached Tabuk. So while he was sitting amongst the people in Tabuk, he said, 'What did Ka`b do?' A man from Banu Salama said, 'O Allah's Apostle! He has been stopped by his two Burdas (i.e. garments) and his looking at his own flanks with pride.' Then Mu`adh bin Jabal said, 'What a bad thing you have said! By Allah! O Allahs Apostle! We know nothing about him but good.' Allah's Apostle kept silent." Ka`b bin Malik added, "When I heard that he (i.e. the Prophet ) was on his way back to Medina. I got dipped in my concern, and began to think of false excuses, saying to myself, 'How can I avoid his anger tomorrow?' And I took the advice of wise member of my family in this matter. When it was said that Allah's Apostle, had come near all the evil false excuses abandoned from my mind and I knew well that I could never come out of this problem by forging a false statement. Then I decided firmly to speak the truth. So Allah's Apostle arrived in the morning, and whenever he returned from a journey., he used to visit the Mosque first of all and offer a two-rak`at prayer therein and then sit for the people. So when he had done all that (this time), those who had failed to join the battle (of Tabuk) came and started offering (false) excuses and taking oaths before him. They were something over eighty men; Allah's Apostle accepted the excuses they had expressed, took their pledge of allegiance asked for Allah's Forgiveness for them, and left the secrets of their hearts for Allah to judge. Then I came to him, and when I greeted him, he smiled a smile of an angry person and then said, 'Come on.' So I came walking till I sat before him. He said to me, 'What stopped you from joining us. Had you not purchased an animal For carrying you?' I answered, "Yes, O Allah's Apostle! But by Allah, if I were sitting before any person from among the people of the world other than you, I would have avoided his anger with an excuse. By Allah, I have been bestowed with the power of speaking fluently and eloquently, but by Allah, I knew well that if today I tell you a lie to seek your favor, Allah would surely make you angry with me in the near future, but if I tell you the truth, though you will get angry because of it, I hope for Allah's Forgiveness. Really, by Allah, there was no excuse for me. By Allah, I had never been stronger or wealthier than I was when I remained behind you.' Then Allah's Apostle said, 'As regards this man, he has surely told the truth. So get up till Allah decides your case.' I got up, and many men of Banu Salama followed me and said to me. 'By Allah, we never witnessed you doing any sin before this. Surely, you failed to offer excuse to Allah's Apostle as the others who did not join him, have offered. The prayer of Allah's Apostle to Allah to forgive you would have been sufficient for you.' By Allah, they continued blaming me so much that I intended to return (to the Prophet) and accuse myself of having told a lie, but I said to them, 'Is there anybody else who has met the same fate as I have?' They replied, 'Yes, there are two men who have said the same thing as you have, and to both of them was given the same order as given to you.' I said, 'Who are they?' They replied, Murara bin Ar-Rabi Al- Amri and Hilal bin Umaiya Al-Waqifi.' By that they mentioned to me two pious men who had attended the Ghazwa (Battle) of Badr, and in whom there was an example for me. So I did not change my mind when they mentioned them to me. Allah's Apostle forbade all the Muslims to talk to us, the three aforesaid persons out of all those who had remained behind in that Ghazwa. So we kept away from the people and they changed their attitude towards us till the very land (where I lived) appeared strange to me as if I did not know it. We remained in that condition for fifty nights. As regards my two fellows, they remained in their houses and kept on weeping, but I was the youngest of them and the firmest of them, so I used to go out and witness the prayers along with the Muslims and roam about in the markets, but none would talk to me, and I would come to Allah's Apostle and greet him while he was sitting In his gathering after the prayer, and I would wonder whether the Prophet did move his lips in return to my greetings or not. Then I would offer my prayer near to him and look at him stealthily. When I was busy with my prayer, he would turn his face towards me, but when I turned my face to him, he would turn his face away from me. When this harsh attitude of the people lasted long, I walked till I scaled the wall of the garden of Abu Qatada who was my cousin and dearest person to me, and I offered my greetings to him. By Allah, he did not return my greetings. I said, 'O Abu Qatada! I beseech you by Allah! Do you know that I love Allah and His Apostle?' He kept quiet. I asked him again, beseeching him by Allah, but he remained silent. Then I asked him again in the Name of Allah. He said, "Allah and His Apostle know it better.' Thereupon my eyes flowed with tears and I returned and jumped over the wall." Ka`b added, "While I was walking in the market of Medina, suddenly I saw a Nabati (i.e. a Christian farmer) from the Nabatis of Sham who came to sell his grains in Medina, saying, 'Who will lead me to Ka`b bin Malik?' The people began to point (me) out for him till he came to me and handed me a letter from the king of Ghassan in which the following was written: "To proceed, I have been informed that your friend (i.e. the Prophet ) has treated you harshly. Anyhow, Allah does not let you live at a place where you feel inferior and your right is lost. So join us, and we will console you." When I read it, I said to myself, 'This is also a sort of a test.' Then I took the letter to the oven and made a fire therein by burning it. When forty out of the fifty nights elapsed, behold ! There came to me the messenger of Allah's Apostle and said, 'Allah's Apostle orders you to keep away from your wife,' I said, 'Should I divorce her; or else! what should I do?' He said, 'No, only keep aloof from her and do not cohabit her.' The Prophet sent the same message to my two fellows. Then I said to my wife. 'Go to your parents and remain with them till Allah gives His Verdict in this matter." Ka`b added, "The wife of Hilal bin Umaiya came to Apostle and said, 'O Allah's Apostle! Hilal bin Umaiya is a helpless old man who has no servant to attend on him. Do you dislike that I should serve him? ' He said, 'No (you can serve him) but he should not come near you.' She said, 'By Allah, he has no desire for anything. By, Allah, he has never ceased weeping till his case began till this day of his.' (continued...) (continuing... 1): -5.702:... ... On that, some of my family members said to me, 'Will you also ask Allah's Apostle to permit your wife (to serve you) as he has permitted the wife of Hilal bin Umaiya to serve him?' I said, 'By Allah, I will not ask the permission of Allah's Apostle regarding her, for I do not know What Allah's Apostle would say if I asked him to permit her (to serve me) while I am a young man.' Then I remained in that state for ten more nights after that till the period of fifty nights was completed starting from the time when Allah's Apostle prohibited the people from talking to us. When I had offered the Fajr prayer on the 50th morning on the roof of one of our houses and while I was sitting in the condition which Allah described (in the Qur'an) i.e. my very soul seemed straitened to me and even the earth seemed narrow to me for all its spaciousness, there I heard the voice of one who had ascended the mountain of Sala' calling with his loudest voice, 'O Ka`b bin Malik! Be happy (by receiving good tidings).' I fell down in prostration before Allah, realizing that relief has come. Allah's Apostle had announced the acceptance of our repentance by Allah when he had offered the Fajr prayer. The people then went out to congratulate us. Some bringers of good tidings went out to my two fellows, and a horseman came to me in haste, and a man of Banu Aslam came running and ascended the mountain and his voice was swifter than the horse. When he (i.e. the man) whose voice I had heard, came to me conveying the good tidings, I took off my garments and dressed him with them; and by Allah, I owned no other garments than them on that day. Then I borrowed two garments and wore them and went to Allah's Apostle. The people started receiving me in batches, congratulating me on Allah's Acceptance of my repentance, saying, 'We congratulate you on Allah's Acceptance of your repentance." Ka`b further said, "When I entered the Mosque. I saw Allah's Apostle sitting with the people around him. Talha bin Ubaidullah swiftly came to me, shook hands with me and congratulated me. By Allah, none of the Muhajirin (i.e. Emigrants) got up for me except him (i.e. Talha), and I will never forget this for Talha." Ka`b added, "When I greeted Allah's Apostle he, his face being bright with joy, said "Be happy with the best day that you have got ever since your mother delivered you." Ka`b added, "I said to the Prophet 'Is this forgiveness from you or from Allah?' He said, 'No, it is from Allah.' Whenever Allah's Apostle became happy, his face would shine as if it were a piece of moon, and we all knew that characteristic of him. When I sat before him, I said, 'O Allah's Apostle! Because of the acceptance of my repentance I will give up all my wealth as alms for the Sake of Allah and His Apostle. Allah's Apostle said, 'Keep some of your wealth, as it will be better for you.' I said, 'So I will keep my share from Khaibar with me,' and added, 'O Allah's Apostle! Allah has saved me for telling the truth; so it is a part of my repentance not to tell but the truth as long as I am alive. By Allah, I do not know anyone of the Muslims whom Allah has helped fortelling the truth more than me. Since I have mentioned that truth to Allah's Apostle till today, I have never intended to tell a lie. I hope that Allah will also save me (from telling lies) the rest of my life. So Allah revealed to His Apostle the Verse:-- "Verily, Allah has forgiven the Prophet, the Muhajirin (i.e. Emigrants (up to His Saying) And be with those who are true (in word and deed)." (9.117-119) By Allah, Allah has never bestowed upon me, apart from His guiding me to Islam, a Greater blessing than the fact that I did not tell a lie to Allah's Apostle which would have caused me to perish as those who have told a lie perished, for Allah described those who told lies with the worst description He ever attributed to anybody else. Allah said:-- "They (i.e. the hypocrites) will swear by Allah to you when you return to them (up to His Saying) Certainly Allah is not pleased with the rebellious people-- " (9.95-96) Ka`b added, "We, the three persons, differed altogether from those whose excuses Allah's Apostle accepted when they swore to him. He took their pledge of allegiance and asked Allah to forgive them, but Allah's Apostle left our case pending till Allah gave His Judgment about it. As for that Allah said):-- And to the three (He did for give also) who remained behind." (9.118) What Allah said (in this Verse) does not indicate our failure to take part in the Ghazwa, but it refers to the deferment of making a decision by the Prophet about our case in contrast to the case of those who had taken an oath before him and he excused them by accepting their excuses.

Sahih Bukhari Hadith 4418 in Arabic

Read Hadith 4418 of Sahih Bukhari narrated by Imam Bukhari in Chapter Al- Maghazi of Sahih Bukhari at UrduPoint. The following is the complete Sahih Bukhari Hadith 4418.

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ ، قَالَ : سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ قِصَّةِ تَبُوكَ ، قَالَ كَعْبٌ : " لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا إِلَّا فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ ، غَيْرَ أَنِّي كُنْتُ تَخَلَّفْتُ فِي غَزْوَةِ بَدْرٍ ، وَلَمْ يُعَاتِبْ أَحَدًا تَخَلَّفَ عَنْهَا ، إِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ عِيرَ قُرَيْشٍ حَتَّى جَمَعَ اللَّهُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ عَدُوِّهِمْ عَلَى غَيْرِ مِيعَادٍ ، وَلَقَدْ شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ حِينَ تَوَاثَقْنَا عَلَى الْإِسْلَامِ ، وَمَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهَا مَشْهَدَ بَدْرٍ ، وَإِنْ كَانَتْ بَدْرٌ أَذْكَرَ فِي النَّاسِ مِنْهَا كَانَ مِنْ خَبَرِي أَنِّي لَمْ أَكُنْ قَطُّ أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْهُ فِي تِلْكَ الْغَزَاةِ ، وَاللَّهِ مَا اجْتَمَعَتْ عِنْدِي قَبْلَهُ رَاحِلَتَانِ قَطُّ حَتَّى جَمَعْتُهُمَا فِي تِلْكَ الْغَزْوَةِ ، وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ غَزْوَةً إِلَّا وَرَّى بِغَيْرِهَا حَتَّى كَانَتْ تِلْكَ الْغَزْوَةُ غَزَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرٍّ شَدِيدٍ ، وَاسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِيدًا ، وَمَفَازًا وَعَدُوًّا كَثِيرًا ، فَجَلَّى لِلْمُسْلِمِينَ أَمْرَهُمْ لِيَتَأَهَّبُوا أُهْبَةَ غَزْوِهِمْ ، فَأَخْبَرَهُمْ بِوَجْهِهِ الَّذِي يُرِيدُ وَالْمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيرٌ ، وَلَا يَجْمَعُهُمْ كِتَابٌ حَافِظٌ يُرِيدُ الدِّيوَانَ ، قَالَ كَعْبٌ : فَمَا رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَتَغَيَّبَ إِلَّا ظَنَّ أَنْ سَيَخْفَى لَهُ مَا لَمْ يَنْزِلْ فِيهِ وَحْيُ اللَّهِ ، وَغَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ الْغَزْوَةَ حِينَ طَابَتِ الثِّمَارُ وَالظِّلَالُ ، وَتَجَهَّزَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ مَعَهُ ، فَطَفِقْتُ أَغْدُو لِكَيْ أَتَجَهَّزَ مَعَهُمْ ، فَأَرْجِعُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا ، فَأَقُولُ فِي نَفْسِي : أَنَا قَادِرٌ عَلَيْهِ ، فَلَمْ يَزَلْ يَتَمَادَى بِي حَتَّى اشْتَدَّ بِالنَّاسِ الْجِدُّ ، فَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ مَعَهُ وَلَمْ أَقْضِ مِنْ جَهَازِي شَيْئًا ، فَقُلْتُ : أَتَجَهَّزُ بَعْدَهُ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ ثُمَّ أَلْحَقُهُمْ ، فَغَدَوْتُ بَعْدَ أَنْ فَصَلُوا لِأَتَجَهَّزَ ، فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا ، ثُمَّ غَدَوْتُ ، ثُمَّ رَجَعْتُ ، وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا ، فَلَمْ يَزَلْ بِي حَتَّى أَسْرَعُوا وَتَفَارَطَ الْغَزْوُ وَهَمَمْتُ أَنْ أَرْتَحِلَ فَأُدْرِكَهُمْ وَلَيْتَنِي فَعَلْتُ ، فَلَمْ يُقَدَّرْ لِي ذَلِكَ ، فَكُنْتُ إِذَا خَرَجْتُ فِي النَّاسِ بَعْدَ خُرُوجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطُفْتُ فِيهِمْ أَحْزَنَنِي أَنِّي لَا أَرَى إِلَّا رَجُلًا مَغْمُوصًا عَلَيْهِ النِّفَاقُ ، أَوْ رَجُلًا مِمَّنْ عَذَرَ اللَّهُ مِنَ الضُّعَفَاءِ ، وَلَمْ يَذْكُرْنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَلَغَ تَبُوكَ ، فَقَالَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي الْقَوْمِ بِتَبُوكَ : " مَا فَعَلَ كَعْبٌ ؟ " فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، حَبَسَهُ بُرْدَاهُ وَنَظَرُهُ فِي عِطْفِهِ ، فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ : بِئْسَ مَا قُلْتَ ، وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا ، فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ : فَلَمَّا بَلَغَنِي أَنَّهُ تَوَجَّهَ قَافِلًا حَضَرَنِي هَمِّي وَطَفِقْتُ أَتَذَكَّرُ الْكَذِبَ وَأَقُولُ بِمَاذَا أَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ غَدًا ؟ وَاسْتَعَنْتُ عَلَى ذَلِكَ بِكُلِّ ذِي رَأْيٍ مِنْ أَهْلِي ، فَلَمَّا قِيلَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَظَلَّ قَادِمًا ، زَاحَ عَنِّي الْبَاطِلُ ، وَعَرَفْتُ أَنِّي لَنْ أَخْرُجَ مِنْهُ أَبَدًا بِشَيْءٍ فِيهِ كَذِبٌ ، فَأَجْمَعْتُ صِدْقَهُ ، وَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَادِمًا ، وَكَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ ، فَيَرْكَعُ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ، ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ ، فَلَمَّا فَعَلَ ذَلِكَ جَاءَهُ الْمُخَلَّفُونَ ، فَطَفِقُوا يَعْتَذِرُونَ إِلَيْهِ وَيَحْلِفُونَ لَهُ وَكَانُوا بِضْعَةً وَثَمَانِينَ رَجُلًا ، فَقَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَانِيَتَهُمْ ، وَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ وَوَكَلَ سَرَائِرَهُمْ إِلَى اللَّهِ ، فَجِئْتُهُ فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ ، ثُمَّ قَالَ : " تَعَالَ " ، فَجِئْتُ أَمْشِي حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ ، فَقَالَ لِي : " مَا خَلَّفَكَ ؟ أَلَمْ تَكُنْ قَدِ ابْتَعْتَ ظَهْرَكَ ؟ " ، فَقُلْتُ : بَلَى ، إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَيْرِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا لَرَأَيْتُ أَنْ سَأَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ بِعُذْرٍ ، وَلَقَدْ أُعْطِيتُ جَدَلًا ، وَلَكِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَئِنْ حَدَّثْتُكَ الْيَوْمَ حَدِيثَ كَذِبٍ تَرْضَى بِهِ عَنِّي لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يُسْخِطَكَ عَلَيَّ ، وَلَئِنْ حَدَّثْتُكَ حَدِيثَ صِدْقٍ تَجِدُ عَلَيَّ فِيهِ إِنِّي لَأَرْجُو فِيهِ عَفْوَ اللَّهِ ، لَا وَاللَّهِ مَا كَانَ لِي مِنْ عُذْرٍ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ قَطُّ أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ مِنِّي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْكَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَمَّا هَذَا فَقَدْ صَدَقَ ، فَقُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِيكَ " ، فَقُمْتُ وَثَارَ رِجَالٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ فَاتَّبَعُونِي ، فَقَالُوا لِي : وَاللَّهِ مَا عَلِمْنَاكَ كُنْتَ أَذْنَبْتَ ذَنْبًا قَبْلَ هَذَا ، وَلَقَدْ عَجَزْتَ أَنْ لَا تَكُونَ اعْتَذَرْتَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا اعْتَذَرَ إِلَيْهِ الْمُتَخَلِّفُونَ ، قَدْ كَانَ كَافِيَكَ ذَنْبَكَ اسْتِغْفَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَكَ ، فَوَاللَّهِ مَا زَالُوا يُؤَنِّبُونِي حَتَّى أَرَدْتُ أَنْ أَرْجِعَ فَأُكَذِّبَ نَفْسِي ، ثُمَّ قُلْتُ لَهُمْ : هَلْ لَقِيَ هَذَا مَعِي أَحَدٌ ؟ قَالُوا : نَعَمْ رَجُلَانِ ، قَالَا مِثْلَ مَا قُلْتَ ، فَقِيلَ لَهُمَا : مِثْلُ مَا قِيلَ لَكَ ، فَقُلْتُ : مَنْ هُمَا ، قَالُوا : مُرَارَةُ بْنُ الرَّبِيعِ الْعَمْرِيُّ ، وَهِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ الْوَاقِفِيُّ ، فَذَكَرُوا لِي رَجُلَيْنِ صَالِحَيْنِ قَدْ شَهِدَا بَدْرًا فِيهِمَا أُسْوَةٌ ، فَمَضَيْتُ حِينَ ذَكَرُوهُمَا لِي ، وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمِينَ عَنْ كَلَامِنَا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ مِنْ بَيْنِ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهُ ، فَاجْتَنَبَنَا النَّاسُ وَتَغَيَّرُوا لَنَا حَتَّى تَنَكَّرَتْ فِي نَفْسِي الْأَرْضُ ، فَمَا هِيَ الَّتِي أَعْرِفُ ، فَلَبِثْنَا عَلَى ذَلِكَ خَمْسِينَ لَيْلَةً ، فَأَمَّا صَاحِبَايَ فَاسْتَكَانَا وَقَعَدَا فِي بُيُوتِهِمَا يَبْكِيَانِ ، وَأَمَّا أَنَا فَكُنْتُ أَشَبَّ الْقَوْمِ وَأَجْلَدَهُمْ ، فَكُنْتُ أَخْرُجُ فَأَشْهَدُ الصَّلَاةَ مَعَ الْمُسْلِمِينَ وَأَطُوفُ فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يُكَلِّمُنِي أَحَدٌ ، وَآتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُسَلِّمُ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي مَجْلِسِهِ بَعْدَ الصَّلَاةِ ، فَأَقُولُ فِي نَفْسِي : هَلْ حَرَّكَ شَفَتَيْهِ بِرَدِّ السَّلَامِ عَلَيَّ أَمْ لَا ؟ ثُمَّ أُصَلِّي قَرِيبًا مِنْهُ ، فَأُسَارِقُهُ النَّظَرَ ، فَإِذَا أَقْبَلْتُ عَلَى صَلَاتِي أَقْبَلَ إِلَيَّ ، وَإِذَا الْتَفَتُّ نَحْوَهُ أَعْرَضَ عَنِّي حَتَّى إِذَا طَالَ عَلَيَّ ذَلِكَ مِنْ جَفْوَةِ النَّاسِ مَشَيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِي قَتَادَةَ وَهُوَ ابْنُ عَمِّي وَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَوَاللَّهِ مَا رَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ ، فَقُلْتُ : يَا أَبَا قَتَادَةَ ، أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُنِي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ؟ فَسَكَتَ ، فَعُدْتُ لَهُ فَنَشَدْتُهُ ، فَسَكَتَ ، فَعُدْتُ لَهُ فَنَشَدْتُهُ ، فَقَالَ : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ، فَفَاضَتْ عَيْنَايَ وَتَوَلَّيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ الْجِدَارَ ، قَالَ : فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي بِسُوقِ الْمَدِينَةِ إِذَا نَبَطِيٌّ مِنْ أَنْبَاطِ أَهْلِ الشَّأْمِ مِمَّنْ قَدِمَ بِالطَّعَامِ يَبِيعُهُ بِالْمَدِينَةِ ، يَقُولُ : مَنْ يَدُلُّ عَلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ؟ فَطَفِقَ النَّاسُ يُشِيرُونَ لَهُ حَتَّى إِذَا جَاءَنِي دَفَعَ إِلَيَّ كِتَابًا مِنْ مَلِكِ غَسَّانَ فَإِذَا فِيهِ : أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِي أَنَّ صَاحِبَكَ قَدْ جَفَاكَ وَلَمْ يَجْعَلْكَ اللَّهُ بِدَارِ هَوَانٍ وَلَا مَضْيَعَةٍ ، فَالْحَقْ بِنَا نُوَاسِكَ ، فَقُلْتُ : لَمَّا قَرَأْتُهَا وَهَذَا أَيْضًا مِنَ الْبَلَاءِ ، فَتَيَمَّمْتُ بِهَا التَّنُّورَ فَسَجَرْتُهُ بِهَا حَتَّى إِذَا مَضَتْ أَرْبَعُونَ لَيْلَةً مِنَ الْخَمْسِينَ إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ ، فَقُلْتُ : أُطَلِّقُهَا أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ ؟ قَالَ : لَا ، بَلِ اعْتَزِلْهَا وَلَا تَقْرَبْهَا ، وَأَرْسَلَ إِلَى صَاحِبَيَّ مِثْلَ ذَلِكَ ، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي : الْحَقِي بِأَهْلِكِ ، فَتَكُونِي عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِي هَذَا الْأَمْرِ ، قَالَ كَعْبٌ : فَجَاءَتِ امْرَأَةُ هِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ شَيْخٌ ضَائِعٌ لَيْسَ لَهُ خَادِمٌ ، فَهَلْ تَكْرَهُ أَنْ أَخْدُمَهُ ؟ قَالَ : " لَا ، وَلَكِنْ لَا يَقْرَبْكِ " ، قَالَتْ : إِنَّهُ وَاللَّهِ مَا بِهِ حَرَكَةٌ إِلَى شَيْءٍ ، وَاللَّهِ مَا زَالَ يَبْكِي مُنْذُ كَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ إِلَى يَوْمِهِ هَذَا ، فَقَالَ لِي بَعْضُ أَهْلِي : لَوِ اسْتَأْذَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي امْرَأَتِكَ كَمَا أَذِنَ لِامْرَأَةِ هِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ أَنْ تَخْدُمَهُ ، فَقُلْتُ : وَاللَّهِ لَا أَسْتَأْذِنُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَمَا يُدْرِينِي مَا يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَأْذَنْتُهُ فِيهَا وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌّ ، فَلَبِثْتُ بَعْدَ ذَلِكَ عَشْرَ لَيَالٍ حَتَّى كَمَلَتْ لَنَا خَمْسُونَ لَيْلَةً مِنْ حِينَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَلَامِنَا ، فَلَمَّا صَلَّيْتُ صَلَاةَ الْفَجْرِ صُبْحَ خَمْسِينَ لَيْلَةً وَأَنَا عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِنَا ، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عَلَى الْحَالِ الَّتِي ذَكَرَ اللَّهُ قَدْ ضَاقَتْ عَلَيَّ نَفْسِي وَضَاقَتْ عَلَيَّ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ سَمِعْتُ صَوْتَ صَارِخٍ أَوْفَى عَلَى جَبَلِ سَلْعٍ بِأَعْلَى صَوْتِهِ : يَا كَعْبُ بْنَ مَالِكٍ ، أَبْشِرْ ، قَالَ : فَخَرَرْتُ سَاجِدًا وَعَرَفْتُ أَنْ قَدْ جَاءَ فَرَجٌ وَآذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَوْبَةِ اللَّهِ عَلَيْنَا حِينَ صَلَّى صَلَاةَ الْفَجْرِ ، فَذَهَبَ النَّاسُ يُبَشِّرُونَنَا وَذَهَبَ قِبَلَ صَاحِبَيَّ مُبَشِّرُونَ ، وَرَكَضَ إِلَيَّ رَجُلٌ فَرَسًا وَسَعَى سَاعٍ مِنْ أَسْلَمَ فَأَوْفَى عَلَى الْجَبَلِ وَكَانَ الصَّوْتُ أَسْرَعَ مِنَ الْفَرَسِ ، فَلَمَّا جَاءَنِي الَّذِي سَمِعْتُ صَوْتَهُ يُبَشِّرُنِي نَزَعْتُ لَهُ ثَوْبَيَّ فَكَسَوْتُهُ إِيَّاهُمَا بِبُشْرَاهُ ، وَاللَّهِ مَا أَمْلِكُ غَيْرَهُمَا يَوْمَئِذٍ وَاسْتَعَرْتُ ثَوْبَيْنِ فَلَبِسْتُهُمَا ، وَانْطَلَقْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَتَلَقَّانِي النَّاسُ فَوْجًا فَوْجًا يُهَنُّونِي بِالتَّوْبَةِ ، يَقُولُونَ : لِتَهْنِكَ تَوْبَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ ، قَالَ كَعْبٌ : حَتَّى دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ حَوْلَهُ النَّاسُ ، فَقَامَ إِلَيَّ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ يُهَرْوِلُ حَتَّى صَافَحَنِي وَهَنَّانِي ، وَاللَّهِ مَا قَامَ إِلَيَّ رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ غَيْرَهُ وَلَا أَنْسَاهَا لِطَلْحَةَ ، قَالَ كَعْبٌ : فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَبْرُقُ وَجْهُهُ مِنَ السُّرُورِ : " أَبْشِرْ بِخَيْرِ يَوْمٍ مَرَّ عَلَيْكَ مُنْذُ وَلَدَتْكَ أُمُّكَ " ، قَالَ : قُلْتُ : أَمِنْ عِنْدِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَمْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ؟ قَالَ : " لَا ، بَلْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ " ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ حَتَّى كَأَنَّهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ ، وَكُنَّا نَعْرِفُ ذَلِكَ مِنْهُ ، فَلَمَّا جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ ، قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِ اللَّهِ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ " ، قُلْتُ : فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِي الَّذِي بِخَيْبَرَ ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ اللَّهَ إِنَّمَا نَجَّانِي بِالصِّدْقِ ، وَإِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ لَا أُحَدِّثَ إِلَّا صِدْقًا مَا بَقِيتُ ، فَوَاللَّهِ مَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَبْلَاهُ اللَّهُ فِي صِدْقِ الْحَدِيثِ مُنْذُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ مِمَّا أَبْلَانِي مَا تَعَمَّدْتُ مُنْذُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى يَوْمِي هَذَا كَذِبًا ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَحْفَظَنِي اللَّهُ فِيمَا بَقِيتُ ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ إِلَى قَوْلِهِ : وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ سورة التوبة آية 117 - 119 ، فَوَاللَّهِ مَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ نِعْمَةٍ قَطُّ بَعْدَ أَنْ هَدَانِي لِلْإِسْلَامِ أَعْظَمَ فِي نَفْسِي مِنْ صِدْقِي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا أَكُونَ كَذَبْتُهُ فَأَهْلِكَ كَمَا هَلَكَ الَّذِينَ كَذَبُوا ، فَإِنَّ اللَّهَ قَالَ لِلَّذِينَ كَذَبُوا حِينَ أَنْزَلَ الْوَحْيَ شَرَّ مَا قَالَ لِأَحَدٍ ، فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى : سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَى قَوْلِهِ : فَإِنَّ اللَّهَ لا يَرْضَى عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ سورة التوبة آية 95 - 96 ، قَالَ كَعْبٌ : وَكُنَّا تَخَلَّفْنَا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ عَنْ أَمْرِ أُولَئِكَ الَّذِينَ قَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ حَلَفُوا لَهُ فَبَايَعَهُمْ ، وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ ، وَأَرْجَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْرَنَا حَتَّى قَضَى اللَّهُ فِيهِ ، فَبِذَلِكَ قَالَ اللَّهُ : وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا سورة التوبة آية 118 وَلَيْسَ الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ مِمَّا خُلِّفْنَا عَنِ الْغَزْوِ إِنَّمَا هُوَ تَخْلِيفُهُ إِيَّانَا وَإِرْجَاؤُهُ أَمْرَنَا عَمَّنْ حَلَفَ لَهُ وَاعْتَذَرَ إِلَيْهِ فَقَبِلَ مِنْهُ " .

Who narrated Sahih Bukhari Hadith 4418?

Imam Bukhari narrated Hadith 4418 of Sahih Bukhari.

What is the topic of Sahih Bukhari Hadith 4418?

Hadith 4418 of Sahih Bukhari discusses about the Al- Maghazi.

Where can we read the complete Hadith 4418 of Sahih Bukhari?

You can read the complete Hadith 4418 of Sahih Bukhari in Arabic with Urdu and English translation at UrduPoint.

More Hadiths From : Sahih Bukhari - The Book Of Al- Maghazi

حدیث نمبر 4473

´مجھ سے احمد بن حسن نے بیان کیا، کہا ہم سے احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے کہمس نے، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے اور ان سے ان کے والد (بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ` وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ غزووں میں شریک تھے۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3992

´مجھ سے اسحاق بن ابرہیم نے بیان کیا، ہم کو جریر نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید انصاری نے، انہیں معاذ بن رفاعہ بن رافع زرقی نے اپنے والد (رفاعہ بن رافع) سے، جو بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والوں میں سے تھے، انہوں نے بیان کیا کہ` جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ سے انہوں نے پوچھا کہ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4215

´مجھ سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبیداللہ نے ‘ ان سے نافع اور سالم نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` غزوہ خیبر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لہسن اور پالتو گدھوں کے کھانے سے منع فرمایا تھا۔ لہسن کھانے کی ممانعت کا ذکر صرف نافع ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4119

´ہم سے محمد بن عبداللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` غزوہ احزاب کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام مسلمان عصر کی نماز بنو قریظہ تک پہنچنے کے بعد ہی ادا کریں۔ بعض حضرات کی عصر کی نماز کا وقت راستے ہی میں ہو ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4008

´ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبدالرحمٰن بن یزید نخعی نے، ان سے علقمہ بن یسعی نے اور ان سے ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورۃ البقرہ کی دو آیتیں ( «امن الرسول» سے آخر تک) ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4350

´مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن سوید بن منجوف نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے اور ان سے ان کے والد (بریدہ بن حصیب) نے بیان کیا کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جگہ علی رضی اللہ عنہ کو (یمن) بھیجا تاکہ غنیمت کے ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4377

´اور میں نے ابورجاء سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ` جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو میں ابھی کم عمر تھا اور اپنے گھر کے اونٹ چرایا کرتا تھا پھر جب ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح (مکہ کی خبر سنی) تو ہم آپ کو چھوڑ کر دوزخ میں چلے گئے، یعنی مسیلمہ کذاب کے تابعدار بن گئے۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4465

´ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (بعثت کے بعد) مکہ میں دس سال تک قیام کیا۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3987

´مجھ سے محمد بن علاء نے بیان کیا ‘ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے برید نے ‘ ان سے ان کے دادا نے ‘ اس سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے` میں گمان کرتا ہوں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خیر و بھلائی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4079

´ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک نے اور انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے شہداء کو ایک ہی کپڑے میں دو دو کو کفن دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے کہ ان میں قرآن کا عالم سب ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4374

´ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے متعلق پوچھا کہ میرا خیال تو یہ ہے کہ تو وہی ہے جو مجھے خواب میں دکھایا گیا تھا۔ تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں سویا ہوا تھا، میں ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4328

´ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی تھا جب آپ جعرانہ سے، جو مکہ اور مدینہ کے درمیان میں ایک مقام ہے اتر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4234

´ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا ‘ ان سے امام مالک بن انس نے بیان کیا ‘ ان سے ثور نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن مطیع کے مولیٰ سالم نے بیان کیا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ` جب خیبر فتح ہوا تو مال غنیمت میں سونا اور ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4233

´مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم نے حفص بن غیاث سے سنا ‘ ان سے برید بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` خیبر کی فتح کے بعد ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مال غنیمت میں) ہمارا ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4266

´مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا ‘ ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا ‘ ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ` غزوہ موتہ میں میرے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹی تھیں ‘ صرف ایک یمنی تیغہ میرے ہاتھ میں باقی رہ گیا تھا۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4018

´مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` انصار کے چند لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی اور عرض کیا کہ آپ ہمیں اجازت عطا فرمائیں تو ہم اپنے بھانجے عباس رضی اللہ عنہ کا فدیہ معاف ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4286

´ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے مالک نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` فتح مکہ کے موقع پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو سر مبارک پر خود تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتارا ہی تھا کہ ایک صحابی نے آ کر عرض کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردہ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4438

´ہم سے محمد بن یحییٰ ذہلی نے بیان کیا۔ کہا ہم سے عفان بن مسلم نے بیان کیا، ان سے صخر بن جویریہ نے، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے، ان سے ان کے والد (قاسم بن محمد) نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ` (ان کے بھائی) عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4042

´ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم کو زکریا بن عدی نے خبر دی، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں حیوہ نے، انہیں یزید بن ابی حبیب نے، انہیں ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ سال بعد یعنی آٹھویں برس میں غزوہ احد کے شہداء پر نماز جنازہ ادا کی۔ جیسے آپ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3975

´ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا ‘ ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا ‘ انہیں ہشام بن عروہ نے خبر دی ‘ انہیں ان کے والد نے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے زبیر رضی اللہ عنہ سے یرموک کی جنگ میں کہا آپ حملہ کرتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ حملہ کرتے انہوں نے کہا کہ اگر میں نے ان پر زور کا حملہ کر دیا تو پھر تم لوگ پیچھے رہ جاؤ گے سب ..مکمل حدیث پڑھیئے