Hazrat Umer RA - Article No. 1912

Hazrat Umer RA

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ - تحریر نمبر 1912

ان کے اسلام لانے سے دین کو خوب تقویت و مضبوطی ملی

جمعہ 5 مارچ 2021

انعم توصیف،کراچی
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو حفص تھی۔نبوت کے چھٹے سال 27 برس کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔اسلام قبول کرنے سے قبل ہی وہ ایک معزز،پڑھے لکھے،بہادر،دلیر،معاملہ فہم ہونے کے ناطے عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔انھیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سسر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
حق و باطل میں بہترین انداز میں تمیز کرنے والے تھے۔اس بنا پر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں”فاروق“کے لقب سے نوازا۔ان کے اسلام لانے سے دین کو خوب تقویت و مضبوطی ملی۔مسلمان جو پہلے چھپ کر نماز پڑھتے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبول اسلام کے بعد مسجد الحرام میں اعلانیہ نماز کرانے لگے۔

(جاری ہے)


حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میرے علم کے مطابق ہر ایک نے چھپ کر ہجرت کی ،صرف عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے ہیں جنھوں نے علی الاعلان ہجرت کی۔

انھوں نے باقاعدہ کفار کو للکارا کہ کوئی انھیں ہجرت سے روک سکتا ہے تو روک لے،لیکن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لڑنا اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے برابر تھا۔
کفار ان سے خوف کھاتے تھے اور انھیں اللہ پاک کا خوف رہتا۔کثرت سے رونے کی وجہ سے چہرے پہ دو سیاہ لکیریں سی بن گئی تھیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد آپ رضی اللہ عنہ ہی مسلمانوں کے خلیفہ بنے۔
حضرت ابو امامہ سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک زمانے تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال سے کچھ نہ لیا۔ان پر تنگی اور فقر و فاقہ کی نوبت آگئی تو انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام کو بلا کر ان سے مشورہ لیا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ نے کہا:”آپ رضی اللہ عنہ دوپہر اور رات کا دو وقت کا کھانا لے لیا کریں۔
“چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے پر عمل کیا۔زمانہ خلافت میں ایسا اونی جبہ پہنتے تھے جس میں چمرے کے پیوند لگے ہوتے تھے۔گرمیوں میں ایک جوڑا پہنتے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ زمانہ خلافت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا۔انھوں نے اپنے دونوں کندھوں کے درمیان اوپر نیچے تین پیوند لگا رکھے تھے۔
آپ رضی اللہ عنہ چاہتے تو بیت المال میں سے خوب لے کر اپنی ذات پر خرچ کرتے،لیکن یہ ان کی انکساری و خاکساری تھی جو امیر المومنین ہونے کے باوجود سادہ زندگی گزاری۔
یہ وہ خلیفہ تھے جن کی 22 لاکھ مربع میل (تقریباً آدھی دنیا) پر حکومت تھی۔آپ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں جن ملکوں اور علاقوں کو فتح کرکے ان پر اسلام کا پرچم لہرایا گیا،ان میں عراق،شام،دمشق،حمس،یرموک،بیت المقدس،کساریہ،تکریت،خوزستان،آذربائیجان، تبرستان،آرمینیہ،فارس،کرمان،سیستان،مکران،خراسان،مصر،سکندریہ سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔
اتنے عظیم خلیفہ کا نہ کوئی پروٹوکول ،نہ حاکموں جیسے ناز نخرے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر میری خلافت میں ایک کتا بھی پیاسا مر جائے تو اس کے بارے میں مجھ سے پوچھ گچھ ہو گی۔
اپنی رعایا کا خیال رکھنے کا اس حد تک اہتمام فرماتے کے راتوں کو بھیس بدل کر گشت کرتے،تاکہ لوگوں کی پریشانیوں کا علم ہو سکے۔
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔“(مسند احمد)
ذوالحج کے آخری دنوں میں ایک فارسی غلام ابو لولو نے آپ رضی اللہ عنہ پر دوران نماز حملہ کیا۔چند دن زخمی رہ کر انھوں نے جس ہجری کلینڈر کا آغاز کیا،اس کی یکم تاریخ کو ہی شہید ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لحد مبارک کے برابر میں دفن ہوئے۔

Browse More 100 Great Personalities