Anokha Insaf - Article No. 1084

انوکھا انصاف - تحریر نمبر 1084
قاضی صاحب نے کہا یہی مرغی دے دو۔“دکان دار نے کہا ،میں مرغی کے مالک کو کیا جواب دوں گا؟ قاضی صاحب نے کہا گاہک سے کہہ دینا مرغی اُڑ گئی بات بڑھے گی تو معاملہ میرے پاس ہی آئے گا،دکان دار نے مرغی قاضی کو دے دی کچھ ہی دیر میں وہ گاہک آن پہنچا
جمعرات 22 فروری 2018
ذوالقرنین زیدی
یہ گئے وقتوں کی بات ہے کسی شہر کا قاضی مرغی لینے بازار گیا دکان دار دکان بند کرچکا تھا وہ ایک گاہک کے لیے مرغی ذبح کرکے اس کا انتظار کررہا تھا قاضی صاحب نے کہا یہی مرغی دے دو۔“دکان دار نے کہا ،میں مرغی کے مالک کو کیا جواب دوں گا؟ قاضی صاحب نے کہا گاہک سے کہہ دینا مرغی اُڑ گئی بات بڑھے گی تو معاملہ میرے پاس ہی آئے گا،دکان دار نے مرغی قاضی کو دے دی کچھ ہی دیر میں وہ گاہک آن پہنچا جس کی مرغی تھی مرغی طلب کرنے پر دکان دار نے بتایا کہ مرغی اُرگئی ہے وہ نہ مانا اور دکان دار کو پکڑ کر قاضی کے پاس چل دیا راستے میں دو افراد جھگڑرہے تھے دکان دار بیچ بچاﺅ کرانے لگا تو اس کی انگلی لڑنے والوں میں سے ایک شخص کی آنکھ میں لگ گئی جس سے اس کی آنکھ ضائع ہوگئی وہ یہودی تھا سو وہ بھی اپنا معاملہ لے کر قاضی کی طرف ساتھ ہی چل پڑا دکان دار بہت پریشان تھا کہ مرغی کے معاملے میں تو قاضی بچا لئے گا مگر اس کے معاملے میں کیا ہوگا،دکان دار سوچ سوچ کر اتنا پریشان ہوا کہ اچانک ہاتھ چھڑا کر بھاگا اور مسجد کے مینار پر چڑھ کر نیچے کود گیا نیچے ایک بوڑھا شخص کھڑا تھا دکان دار سیدھا اس پر گرا اور وہ بوڑھا شخص وہیں مرگیا مرنے والے بوڑھے شخص کے بیٹے نے دکان دار کو پکڑلیا جب اسے پتا چلا کہ اس دکان دار کو قاضی کے پاس پیشی کے لیے لے جایا جارہا رتھا تو وہ بھی ساتھ ہولیا معاملہ قاضی کی عدالت میں پہنچا تو سب سے پہلے مرغی والے گاہک نے اپنا مقدمہ درج کروایا میں مرغی ذبح کروا کر گیا تھا اب دکان دار کیسے کہہ رہا ہے کہ مرغی اُڑ گئی بھلا مری مرغی کیسے اُٹھ سکتی ہے؟قاضی نے مدعی کو غصے سے دیکھا اور کہا کیا مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر تمہارا ایمان نہیں ہے؟یہ سن کر وہ ڈر گیا کہ کہیں کفر کا فتویٰ نہ لگ جائے اس نے کہا بالکل میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے پر یقین رکھتا ہوں،قاضی نے جواب دیا تو مرغی کے زندہ ہونے پر کیوں یقین نہیں رکھتے،بے چارہ کیا کرتا قاضی کے سامنے فیصلہ تسلیم کرنے کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا اب قاضی کے پاس دوسرا مقدمہ تھا کہ دکان دار نے ایک یہودی کی آنکھ پھوڑ دی تھی اور یہودی قصاص کا طلب گار تھا چوں کہ یہودی کے لیے قصاص آدھا مقرر تھا اس لیے قاضی صاحب نے فیصلہ سنایا دکان دار نے یہودی کی ایک آنکھ پھوڑی ہے اس لیے نصف قصاص دشوار ہوگا بہتر ہے کہ دکان دار یہودی کی دوسری آنکھ بھی پھوڑدے اور یہودی بدلے میں نصف قصاص یعنی دکان دار کی ایک آنکھ پھوڑے گا فیصلہ سنتے ہی یہودی کی سٹی گُم ہوگئی کہ اگر دوسری آنکھ بھی چلی گئی تو کہیں کانہیں رہوں گا سو اس نے اپنی جان بچانے کے لئے دکان دار کو معاف کردیا اب تیسرے مقدمے میں بوڑھے کا بیٹا قاضی کے روبرو پیش تھا قاضی جی نے معاملہ توجہ سے سنا اور فیصلہ سنایا دکان دار کو مسجد کے اسی مینار کے آگے کھڑا کردیا جائے اور مرنے والے بوڑھے کا بیٹا مینار کی اسی کھڑکی سے دکان دار پر چھلانگ لگا کر اس کی جان لے لے اور اپنا قصاص وصول کرلے۔
(جاری ہے)
Browse More Funny Stories

کہانی اور حقیقت
Kahani Aur Haqeeqat

سب کے سب
Sab Ke Sab

شرارتی بچے
Shararti Bache

الہٰ دین کے جن کا زوال
Aladdin Ke Jin Ka Zawal

منشی منقی نے شیر مارا
Munshi Munaqqa Ne Sher Mara

مزاج بخیر
Mizaaj Bakhair
Urdu Jokes
ایک بچے کے دادا
Aik bache ke dada
یہودی ایک فرانسیسی
yahoodi aik francesi
سیاستدان
siyasatdan
استاد اور شاگرد
ustad aur shagird
چائے کی عادت
chaaye ki aadat
ایک بادشاہ
Aik badshah
Urdu Paheliyan
پانی نیچے سے لے کر آتا ہے
paani neeche sy ly kar ata hy
اک گھر کا اک پہرے دار
ek ghar ka ek pehredaar
آتا نہ دیکھا جاتا نہ دیکھا
ata na dekha jata na dekha
شیشے میں ہے لال پری
sheeshe me hai lal pari
جب دیکھو پانی میں پڑا ہے
jab dekho pani me para hai
ایک ہے ایسا قصہ خوان
aik hi aisa qissa khan