3 Minute - Article No. 956

3 Minute

تین منٹ - تحریر نمبر 956

وہ محلے کا سب سے پرانا مکان تھا۔ ٹوٹی پھوٹی دیواریں، جگہ جگہ سے چٹخی اینٹیں ، اُدھرتا پلستر، اکھڑتی چھتیں ، جیسے ابھی گرجائیں گی۔ اندر ہروقت اندھیر اچھایا رہتا۔ پرانے طرز کے اس مکان میں ایک کنواں بھی تھا۔

جمعرات 8 ستمبر 2016

جاوید اقبال :
وہ محلے کا سب سے پرانا مکان تھا۔ ٹوٹی پھوٹی دیواریں، جگہ جگہ سے چٹخی اینٹیں ، اُدھرتا پلستر، اکھڑتی چھتیں ، جیسے ابھی گرجائیں گی۔ اندر ہروقت اندھیر اچھایا رہتا۔ پرانے طرز کے اس مکان میں ایک کنواں بھی تھا۔ ٹوٹے ہوئے دروازے سے اندر داخل ہوں تو ایک جھولا لٹکا نظر آتا۔ محلے کے بچے جھولے کے لالچ میں وہاں پہنچ جاتے۔
اگر کوئی بچہ جھولا زور سے جھلاتا توجھولا کنویں کے اوپر پہنچ جاتا اور جھولے پہ بیٹھ بچہ خوف سے چلانے لگتا۔
میں ایک دن جھولے پر بیٹھا تھا کہ کسی نے پیچھے سے جھولے کو زور سے دھکادے دیا۔ میرے منھ سے چیخ نکلی ۔ جھولے کی رسی ہاتھوں سے چھوٹ گئی اور اس میں قلابازیاں کھاتا ہوا کنویں میں جاگرا۔ جیسے ہی میرے پاؤں کنویں کی تہ میں لگے، مجھے وہاں ایک دروازہ نظرآیا۔

(جاری ہے)

کسی نے مجھے اس دروازے سے اندر کھینچ لیا اور پھر وہ دروازہ غائب ہوگیا۔
میں نے خود کوایک نئی اور انوکھی دنیا میں کھڑے پایا، جہاں ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔ رنگ رنگ کے پھول کھلے تھے۔ فضاؤں میں بادل تیررہے تھے، جو مجھے چھوتے ہوئے گزررہے تھے اور اپنی نمی سے مجھے شرابور کررہے تھے۔ دورسرمئی پہاڑوں کے دامن میں مجھے ایک سفید محل نظرآیا۔
میں اس طرف چل پڑا۔ پہاڑوں کے دامن میں سبزے میں گھرامحل سفید چمکتے موتی کی طرح نظرآرہاتھا۔ میں جیسے ہی محل کے قریب پہنچا محل کا دروازہ خود بخود کھلتا چلا گیا۔ میں ڈرتے ڈرتے اندرداخل ہوگیا۔ محل اندر سے بھی انتہائی خوبصورت تھا۔ ہرطرف پھول کھلے ہوئے تھے۔ پھولوں سے لدے درخت، ٹھنڈے پانی کی پھواریں اُڑاتے فوارے، سرسبز باغیچے میں چوکڑیاں بھرتے ہرن تھے تو کہیں مورنا چتے نظرآرہے تھے۔
میں حیرت کے سمندر میں ڈوبا یہ سب دیکھ رہاتھا کہ اچانک میری نظر اوپر بالکونی پر پڑی۔ بالکونی میں بہت سے بچے کھڑے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ پھر وہ بھاگتے ہوئے نیچے آگئے۔
تم کون ہو، یہاں کیسے آئے؟ انھوں نے پوچھا۔
میں نے انھیں یہاں تک پہنچنے کی رودادسنادی تو وہ بولے : اب تم بھی ہماری طرح جادو گربونے کے قیدی ہو۔
جادو گربونا․․․․․․ وہ کون ہے؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔

جا دوگر بونا بہت بڑا جادو گر ہے۔ انھوں نے بتایا۔
مگر جادو گربونا بچوں کو کیوں قید کرتا ہے؟ میں نے پوچھا۔
بہت دن پہلے جادوگر بونے کا اکلوتا بیٹا ہماری دنیا کی سیر کرنے آیاتوشکاری نے اسے مارڈالا۔ اپنے اکلوتے بیٹے کی موت سے جادوگر بونا انسانوں کا دشمن بن گیا۔ اس نے یہ جادونگری بسائی اور پانے جادوئی عمل سے بچوں کو یہاں قید کرنے لگا جو بچہ ایک بار یہاں قید ہوجائے تو پھر جادوگربونے کے جادوئی حصار سے نکل نہیں سکتا۔

یہ سن کر کہ میں ایک خطرناک جادوگر کی قید میں ہوں، گھبرا گیا۔ ابھی میں پریشان کے عالم میں کھڑا تھا کہ زور کی آندھی چلنے لگی۔
جادوگر بونا آگیا “ کہتے ہوئے بچے اوپر بھاگے۔ بلاسوچے سمجھے میں بھی ان کے ساتھ بھاگ کھڑا ہوا۔ اوپر ایک بہت بڑا کمرے میں کہانیوں کی کتابیں، کھلونے رنگوں کے ڈبے بکھرے پڑے تھے۔ بچے ان چیزوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہوگئے میں وہاں ایک بڑی الماری میں چھپ گیا۔
کچھ ہی دیر بعد وہان ایک بونا آگیا۔ اس نے چست لباس پہنا ہوا تھا، چہرے پر لمبی داڑھی تھی، جوسینے تک لٹک رہی تھی پاؤں میں نوک دار جوتے تھے، جوگھٹنوں کو چھورہے تھے۔ سرپر پھندے والی ٹوپی تھی ۔ الماری کی درز سے مجھے بونا نظرآرہا تھا۔ اس نے کھیل میں مصروف بچوں پر ایک نگاہ ڈالی اور بولا: سب ٹھیک ہے بچو !
ہاں جی۔ سب بچوں نے ہم آواز ہوکرکہا۔

یہاں کوئی نیا بچہ تو نہیں آیا ؟ جادو گر بونے نے پوچھا۔
جی نہیں۔ بچوں نے پھر ایک ساتھ کہا۔
اچھا تم کہتے ہو تو مان لیتا ہوں۔ جادوگر بونے نے المارکی طرف دیکھتے ہوئے معنی خیزانداز میں کہا۔
جادوگر بونے کو الماری کی طرف توکہ دیتے دیکھ کر میں ڈر گیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے جادو گر بونے کو معلوم ہے کہ میں یہاں چھپا ہوا ہوں، لیکن جادو گر بونے بچوں کو خدا حافظ کہااور جس طرح آندھی طوفان کی طرح آیا تھا، ویسے ہی واپس چلا گیا۔
جادوگر بونے کے جانے بعد میں الماری سے نکل آیا اور بچوں میں گھل مل گیا۔
ایک ہفتے میں ایک بڑا ساکمرا تھا، جس کے دروازے پر ہر وقت تالا لگارہتا تھا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس کمرے میں کیاہے۔ ایک دن میں بچوں کے ساتھ کھیل رہاتھا اورایک تاریک گوشے میں چھپا ہوا تھا۔ اچانک میرا ہاتھ کسی چیز سے ٹکڑایا۔ چھن کی آواز آئی ۔ ٹٹول کے دیکھا تو چابیوں کا گچھا ہاتھ میں آگیا: چابیاں مل گئیں۔
چابیاں مل گئیں۔ میں نے شور مچادیا۔ سب بچے میرے پاس آگئے اور حیرت سے چابیوں کو دیکھنے لگے۔
ایک بچے نے کہا: آؤدیکھتے ہیں اس کمرے میں کیا ہے۔
میں تالے میں چابی گھماکے تالا کھولنے لگا۔ تیسری چابی گھمانے سے تالا کھل گیا۔ ہم اندر داخل ہوئے تو بری طرح ڈرگئے۔ کمرے میں انسانی کھوپڑیاں ، جانوروں کی ہڈیاں، پرندوں کے پر چمگادڑوں کی لاشیں اور نہ جانے کیا کیا پڑا تھا۔
ایک کونے میں ایک الماری میں بہت سی انگوٹھیاں ، ہار ایک قالین اور شیشے کا ایک گول ساپیالہ پڑا تھا۔ طلسم ہوشرباکی کہانیاں پڑھنے کی وجہ سے ہم فوراََ پہچان گئے کہایہ انگوٹھیاں اور ہار جادو توڑنے والی ہیں۔ قالین، اڑنے والا جادوئی قالین ہے اور دنیا بھر کے حالات جاننے والا جادوئی پیالہ ہے۔
ایک بچے نے کہا: جلدی سے اس اڑن قالین پر بیٹھو اورا س جادونگری سے نکل چلو۔
جادوگر بونا آگیا تو غصے میں ناجانے کیا کر بیٹھے ۔
ہم نے جادو کا اثر ختم کرنے والی انگوٹھیاں پہن لیں اور اڑن قالین کھلی جگہ لے آئے پھر سب قالین پر بیٹھ گئے اور اسے حکم دیا کہ ہمیں ہماری دنیا میں لے چلو۔
جب قالین ہوا میں اڑا ، اس وقت میری انگلی سے جادو توڑانگوٹھی گرگئی۔
اوہ میری انگوٹھی گرگئی۔ میں نے کہا اور قالین سے چھلانگ لگادی۔
اسی وقت زورکی آندھی آگئی۔ میں نے جادو گربونے کو آندھی کے بگولوں میں ادھر آتے دیکھا۔ میں اپنی جان بچانے کے لیے بھاگا۔ جادو گر بوناآندھی طوفان کی طرح میرا پیچھا کررہا تھا۔ بھاگتے بھاگتے مجھے وہی دروازہ نظرآگیا، جس سے میں اس جادونگری میں آیاتھا۔ میں دروازے کے اندر داخل ہوگیا اور پھر پانی میں غوطے کھانے لگا۔
جب مجھے ہوش آیا تو میں ہسپتال میں بستر پر پڑا تھا۔
میرے گھرو الے میرے سرہانے کھڑے تھے ۔ مجھے ہوش میں آتے دیکھ کر ان کے چہرے کھل اٹھے۔
شکر ہے خدا کا تمھیں ہوش آگیا۔ تم پورے تین منٹ پانی میں رہے ہو۔ امی جان نے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
تین منٹ، لیکن میں تو․․․․․ میں نے کہنا چاہا کہ میں توکئی دن جادونگری میں رہاہوں، مگرڈاکٹر صاحب نے مجھے چپ کرادیا۔ بولے: تم چپ رہو ، ابھی آرام کرو۔
تین منٹ “ میں نے زیرلب دہرایا۔ تو کیا وہ جادونگری ، جادوگر بونا ، بچے وہ سب نیم بے ہوشی میں دیکھا ہوا کوئی خواب تھا۔

Browse More Moral Stories