5 Lakh - Article No. 1598

5 Lakh

پانچ لاکھ - تحریر نمبر 1598

پورے محلے میں ایک ہی بات ہورہی تھی کہ اللہ چاہے تو آدمی کو اسی طرح فقیر سے بادشاہ بنا دیتا ہے جیسے سڑکوں پر پتھر کوٹنے والا کرموبادشاہ بن گیا تھا۔اس کا ایک،دو نہیں پورے پانچ لاکھ کا انعامی بانڈ نکلا تھا۔

بدھ 11 دسمبر 2019

محمد محمود احمد
پورے محلے میں ایک ہی بات ہورہی تھی کہ اللہ چاہے تو آدمی کو اسی طرح فقیر سے بادشاہ بنا دیتا ہے جیسے سڑکوں پر پتھر کوٹنے والا کرموبادشاہ بن گیا تھا۔اس کا ایک،دو نہیں پورے پانچ لاکھ کا انعامی بانڈ نکلا تھا۔قصہ کچھ یوں تھا کہ شہر سے کافی دور سڑک بن رہی تھی۔کرمو کوٹھیکے دار سے ہفتے کی مزدوری لینی تھی۔اتفاق سے ٹھیکے دار کے پاس نقد پیسے نہیں تھے۔

اس نے کرمو کو مجبوراً بانڈ دے دیا کہ اسے بڑی دوکان پردے کر سودا سلف خرید لینا۔کر موکی بیوی زہرہ بڑی کفایت شعار عورت تھی۔وہ کرمو سے کہنے لگی:”تمہارے بڑے بھائی کے پاس صندوق میں بے شمار بانڈ پڑے ہیں۔رفیق کی بیوی کے اٹیچی کیس میں آٹھ دس بانڈ تو میں نے بھی دیکھے ہیں۔تمہارے بھائی نہ تمھیں اُدھار دیتے ہیں،نہ تمہاری مدد کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

خود دفتروں میں بابو ہیں اور تم سڑکوں پر مٹی پھانکتے ہو۔

ہم اس بانڈ کو اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ہو سکتاہے رب ہم سے راضی ہو جائے اور ہمارے دن پھر جائیں۔“
زہرہ نے ٹھیک ہی کہا تھا۔اللہ نے واقعی ان کی دعا سن لی تھی۔ٹھیکے دار کو جب انعام نکلنے کا علم ہوا تو اس نے کر مو سے کہا:”تمہارے لیے تو یہ بانڈ صرف پانچ لاکھ روپے کا ہے،لیکن ہم جیسے کاروباری لوگوں کے لیے اس کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ہمارا کافی ٹیکس معاف ہو جاتاہے۔
تم سیدھے سادے آدمی ہو۔بینکوں میں دھکے کھانے کے بجائے تم یہ بانڈ مجھے پانچ لاکھ میں دے دو۔“
کرمو بولا:”بسم اللہ جی!پہلا حق آپ کا ہے ،آپ خریدلیں۔“کرموٹھیکے دار کی کوٹھی سے پانچ لاکھ روپے کا تھیلا بھرلایا ۔دوسری صبح کیا دیکھتا ہے کہ اس کے دونوں بڑے بھائی اپنے بیوی بچوں سمیت کرمو کے گھر آئے ہوئے ہیں۔ان سب کو دیکھتے ہی کرمو کی بیوی زہرہ بولی:”بھائی جان!آپ اور ہمارے گھر!ہم خواب تو نہیں دیکھ رہے؟آپ کو عیدکے دن بھی ہمارے گھر نہیں آتے!“
زہرہ کی بات سن کر اس کی دیورانی کلثوم بولی:”رہنے دو بہن!تمہی تو ہم سے ناراض رہتی ہو!لاکھ لاکھ مبارک ہو۔
اللہ نے تینوں بھائیوں کی قسمت کھول دی ہے۔اب ہم سب ٹھاٹھ سے زندگی گزاریں گے۔“
زہرہ سے رہانہ گیا،بولی:”کیا؟کیا ؟ہم سب؟مگر آپ نے تو پچھلے پندرہ برسوں سے ہماری پانچ روپے کی مدد بھی نہیں کی تھی۔ہمارے کسی بچے کے ہاتھ پر پانچ پیسے بھی نہیں رکھے۔آج ہمارے پانچ لاکھ تینوں کے کیسے ہو گئے؟“
کرمو کا بڑا بھائی صدیق بولا:”چھوڑو،چھوڑو،کیا پرانی باتیں لے بیٹھی ہو۔
بھائی کرم دین!ذرا پانچ لاکھ کی جھلکی تو دکھانا۔دفتر کو دیر ہورہی ہے۔“
زہرہ پھر بول اُٹھی:”لو آج کرمو،کرم دین بھی ہو گئے۔واہ رے پیسہ!“
”خاموش ،خاموش،خاموش!“کر موتین دفعہ چیخا اور سب کو سانپ سونگھ گیا۔کرموبولا:”دیکھو میں غریب تھا،بھوکا تھا،قرض دار تھا۔کسی بھائی نے میری مدد نہ کی۔وجہ کیا تھی،صرف پیسہ۔پیسہ ہی لوگوں کو خود غرض اور کمینہ بنا دیتاہے اور میں اپنے بھائیوں کی طرح نہیں ہونا چاہتا۔

کرمو کی آنکھیں غصے سے لال دکھائی دے رہی تھیں۔اس نے ہاتھ میں کلہاڑی اُٹھاتے ہوئے کہا:”میں اسی گھر کے صحن میں تم سب کے سامنے پانچ لاکھ روپے چلا رہا ہوں۔اگرکسی نے مجھے روکا یا نوٹوں کے ڈھیر سے کوئی نوٹ اُٹھایا تو کلہاڑی سے اس کا قیمہ کردوں گا۔“
کرمو بھاگ کر کمرے سے نوٹوں کے بنڈل لے آیا۔وہ اتنے غصے میں تھا کہ کوئی اسے پکڑنے کی جرات نہیں کر رہا تھا۔
پھر کرمونے ان نوٹوں پر مٹی کا تیل چھڑک کر انھیں آگ لگادی اور ساتھ ہی کلہاڑی تان کر کھڑا ہو گیا۔شورسن کر پڑوسنیں دیواروں سے اور بچے باہر سے جلتے ہوئے نوٹوں کا منظر دیکھ رہے تھے۔ہر چہرہ پیلا ہو رہا تھا۔اِدھر نوٹ جل گئے اور اُدھر کر موکی بیوی دھڑام سے زمین پر گر گئی۔کرموکے بھائی اور دوسرے بڑا بڑاتے ہوئے اپنے گھروں کو چل دیے۔کسی نے اس کی بیوی کی پروا تک نہ کی ۔
کر مو کافی دیر کے بعد اپنی بیوی کو ہوش میں لا سکا۔زہرہ نے ہوش میں آتے ہی کرموسے منھ پھیر لیا۔کرمونے نہایت آہستگی سے اس کے کان میں کہا:“اری خوش بخت!مجھے باؤلے کتے نے کاٹا ہے کہ میں پانچ لاکھ روپے جلادوں ،وہ تو بچوں کی لاٹری والے نقلی نوٹ تھے جنھیں میں پچاس روپے میں خرید کر لایا تھا۔اب بتا،اگر وہ پچاس روپے ضائع نہ کرتا تو میرے لاکھ کیسے بچتے؟وہ دیکھ پورا بیگ نوٹوں سے بھرا ہوا ہے۔
اچھا،اب جلدی سے خود بھی تیار ہو جاؤ،بچوں کو بھی تیار کرو۔ہمیں یہاں سے نکلناہے۔“
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سب سے اچھی پیسٹریاں اور سال گرہ والے کیک کرم دین بیکرز سے ملتے ہیں اور کرم دین بیکرز کا مالک وہی کرمو ہے ،جس کا پانچ لاکھ روپے کا انعام نکلا تھا۔وہ اپنے سادہ،لیکن خوب صورت مکان میں بہت سکون سے زندگی گزار رہا ہے۔اس کے خود غرض اور لالچی بھائیوں کو اس جگہ کی ہوا تک نہیں لگی۔

Browse More Moral Stories