Aadhi Maut - Article No. 2437

Aadhi Maut

آدھی موت - تحریر نمبر 2437

بے وقوف عورت نے مجھے جیتے جی ہی مار دیا

پیر 16 جنوری 2023

م۔ص۔ایمن
شکور بھائی رات دیر تک جاگتے رہے۔رات کے پچھلے پہر ان کی آنکھ لگ گئی۔حسب معمول ان کی بیوی صبح بیدار ہوئیں۔انھیں نماز کے لئے جگایا تو وہ نہ اُٹھے۔جگاتے جگاتے نماز کا وقت نکل گیا تو انھوں نے شوہر کے لئے ناشتہ بنایا اور ساتھ لے جانے کے لئے کھانا بھی تیار کر دیا۔اس دوران بھی آوازیں دیتی رہیں۔ان کے دفتر جانے کا وقت ہو گیا،لیکن وہ نہ اُٹھے۔
ان کی بیوی نے کہنی پکڑ کر ہلائی،وہ تب بھی نہ اُٹھے تو بیوی رونے لگ گئی کہ رات کو انھیں بخار تھا۔افسروں نے ان سے اتنا کام لیا کہ وہ مر گئے اور میں بیوہ ہو گئی۔آناً فاناً پورے محلے میں خبر پھیل گئی کہ شکور بھائی کا انتقال ہو گیا ہے۔
گھر کا کچا صحن تھا۔بھائی شکور کو غسل کے لئے نیچے لٹایا گیا۔

(جاری ہے)

وہ کپڑے پہنے ہوئے ہی تھے کہ کسی نے ان کے منہ پر صابن لگا دیا۔

اسی وقت وہ ہوش میں آ گئے۔پھر چیختے اور آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھ بیٹھے:”میری آنکھوں میں مرچیں کس نے ڈالی ہیں؟“
انھیں زندہ ہوتے دیکھ کر قریب کھڑے کمزور دل افراد ڈر گئے۔پورے گھر میں چیخ پکار مچ گئی تھی۔عورتوں نے اپنی چپلوں کی بھی پروا نہ کی اور چیختی چلاتی بھاگنے لگیں۔
اس افراتفری میں کسی کو نکلنے کا راستہ ہی نہیں سوجھ رہا تھا۔
کچھ عورتیں کمروں میں گھس گئیں اور کچھ باہر رہ گئیں اور دروازے بند کر لئے۔دوسری عورتوں نے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا کہ ہمیں بھی تو اندر آنے دو،لیکن اندر والی عورتوں نے ڈر کے مارے دروازہ ہی نہیں کھولا۔
شکور بھائی کے قریبی عزیز بھی سوچے سمجھے بغیر گھر سے نکل گئے تھے۔
گھر کے باہر بہت سے دوسرے لوگ بھی جمع تھے۔انھوں نے بدحواس لوگوں کو گھر سے فرار ہوتے دیکھا تو ایک ایک کو روک کر اس سے وجہ پوچھنے کی کوشش کی،لیکن جواب دینے کے لئے کوئی نہ رک سکا۔
ایک آدھ نے ہمت کرکے خوف زدہ لہجے میں ”بھوت بھوت“ کہا،لیکن اتنے سے جواب سے کسی کا گزارہ نہ ہو سکا۔چنانچہ جب گھر خالی ہو گیا تو گلی میں کھڑے لوگ جنہیں نہیں پتا تھا کہ کون مرا ہے،تجسس سے مجبور ہو کر گھر میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔انھوں نے دیکھا کہ گھر میں صرف شکور بھائی موجود ہیں۔کمروں کے دروازے بند تھے۔ایک دروازہ غلطی سے کسی نے باہر سے بند کر دیا تھا جس میں ان کی اہلیہ بند ہو گئی تھیں۔

شکور بھائی بے چارگی کا چہرہ لئے بیٹھے تھے،ان ہی سے لوگوں نے پوچھا،انتقال کس کا ہوا ہے؟
شکور بھائی چِڑ کر بولے:”انتقال میرا ہوا ہے۔“
باہر سے آنے والے چونکہ اس معاملے سے واقف نہ تھے،اس لئے وہ سمجھ ہی نہیں پا رہے تھے کہ جس کے انتقال پر آئے ہیں،وہی ان کے سامنے کھڑا ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے!
محلے کے چند معتبر افراد نے آنے والوں کو بتایا کہ یہی شکور بھائی ہیں،جن کا انتقال ہوا ہے۔
ایک بزرگ نے غور سے نہیں سنا تو پوچھ لیا:”وہ کہاں ہے؟جس کا انتقال ہوا ہے؟“
شکور بھائی کو یہ سن کر غصہ آ گیا،بولے:”میں زندہ بیٹھا ہوں اور لوگ میری قبر کا بندوبست کرنے بھی چلے گئے۔میرے مرنے کا انتظار تو کیا ہوتا؟“
شکور بھائی کے ایک دوست نے کہا:”بھئی!ہمیں تو یہی پتا چلا تھا کہ تم مر گئے ہو؟“
شکور بھائی غصے سے بولے:”کس نے کہا ہے کہ میں مر گیا ہوں؟میں گہری نیند سو رہا تھا۔
بیوی سمجھی کہ میں مر گیا ہوں۔بے چاری نے بیوہ ہونے کے صدمے سے واویلا مچا دیا اور لوگوں نے مجھے دفنانے کا بندوبست شروع کر دیا؟“
ایک محلے دار نے پوچھا:”لیکن تم مرے کیسے تھے؟“
شکور بھائی جھنجھلا کر بولے:”کل دفتر میں کام بہت تھا۔رات دیر تک کام کرتا رہا۔تھکن سے چُور گھر آیا تھا۔راستے میں دھول مٹی پھانک پھانک کر نزلہ کھانسی سے بخار سا ہو گیا۔
طبیعت ٹھیک نہیں تھی،اس لئے رات دیر تک جاگتا رہا۔صبح اذانوں کے وقت ہی کہیں نیند آ سکی۔انتہائی گہری نیند کی وجہ سے جب میں نہیں اُٹھا تو بیوی نے مجھے مردہ اور خود کو بیوہ سمجھ لیا۔بے وقوف عورت نے مجھے جیتے جی ہی مار دیا۔“
”اسی وقت باہر سے بند کمرہ کھولا گیا تو دیکھا کہ ان کی بیوی وہاں بے ہوش پڑی ہیں۔“

Browse More Moral Stories