Aatish Baazi - Article No. 2086

Aatish Baazi

آتش بازی (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2086

بڑوں کی عقل بھی بچوں کی سی ہے کیونکہ کسی مفید کام کے بجائے یہ لوگ پٹاخے اور ہوائیاں تیار کرتے ہیں اور بچے انہیں آگ لگاتے ہیں اور دھواں بنا کر ہوا میں اُڑا دیتے ہیں

منگل 12 اکتوبر 2021

زمانہ قدیم میں بندروں کا ایک گروہ ہمدان شہر کے قریب پہاڑوں میں رہتا تھا۔ان کی تعداد بہت تھی اور ان کا سردار ایک بوڑھا اور تجربہ کار بندر تھا اور نام اس کا ”روزبہ“ تھا۔
روزبہ ہمیشہ بندروں کے ساتھ انصاف کا برتاؤ کرتا تھا اور جب بھی انہیں کوئی مشکل پیش آتی تھی،اسے عقل مندی اور تدبیر سے حل کرتا تھا۔ بندر اس کا ازحد احترام کرتے تھے۔

ایک دن غروب شام کے وقت بندروں کا یہ سردار ایک بلند پہاڑ پر چل پھر رہا تھا اور وہاں سے شہر کا منظر دیکھ رہا تھا۔اچانک کیا دیکھتا ہے کہ شہر کے گلی کوچوں سے آگ کی لطیف اور باریک سی شاخیں فضا میں بلند ہوتی ہیں اور ان سے تڑاق پڑاق آوازیں سنائی دیتی ہیں۔روزبہ حیران ہوا اور کہنے لگا:”آخر شہر میں کیا ہو رہا ہے؟پھر اس نے اپنے ایک ملازم کو جس کا نام ”کارآگاہ“ تھا،آواز دی اور کہا:جلدی سے شہر جاؤ اور دیکھو کہ آگ کے یہ تیر سے کیا ہیں اور یہ شور کہاں سے آرہا ہے۔

(جاری ہے)

شہر کی صورتحال کیا ہے۔ہاں ذرا غور سے سن لو،ہر چیز کی خوب تحقیق کرکے آنا،اسے اچھی طرح سمجھ لینا تاکہ میں جو کچھ بھی پوچھوں،اس کا جواب تم لے کر آؤ۔اب جلدی سے جاؤ اور جلد لوٹو۔میں تمہارے انتظار میں ہوں۔
کارآگاہ فوراً شہر کی جانب روانہ ہوا۔وہ تاریکی کی اوٹ لے کر قریب سے لوگوں کو دیکھتا رہا۔ہر چیز کی تحقیق کرکے اور اس سے آگاہ ہو کر واپس آیا اور روزبہ کو بتایا:شہر کی کوئی خاص خبر نہیں۔
کوئی جنگ نہیں ہو رہی۔ایک اچھی خبر ہے اور وہ یہ کہ کل عید کا دن ہے اور آج رات عید کی رات ہے۔لوگ جشن منا رہے ہیں،خوش ہو رہے ہیں اور بچے آتش بازی کر رہے ہیں۔جو آوازیں آپ نے سنیں وہ آتش بازی کے بارودی سامان کی ہیں۔آگ کے باریک سے تیر دراصل ایک قسم کی ہوائی ہے۔ہوائی ایک طرح کا پٹاخہ ہے جو ایک خوب آزمائے ہوئے بارود کو لپیٹ کر باریک نرسل کے سرے پر باندھ دیتے ہیں اور اس کے فتیلے کو آگ دکھاتے ہیں وہ فضا میں بلند ہو جاتا ہے۔

روزبہ نے پوچھا:کیا یہ بارودی سامان اور پٹاخے بچے تیار کرتے ہیں؟کارآگاہ نے جواب دیا:نہیں،اسے بڑے تیار کرتے ہیں۔روزبہ نے پوچھا:کیا اس بارود سے کوئی اور کام بھی لیا جاتا ہے؟
کارآگاہ نے کہا:کیوں نہیں،یہ صنعتوں اور جنگ میں کام آتا ہے۔روزبہ نے پوچھا:کیا یہ آتش بازی بچوں کو مفت میں ملتی ہے؟کارآگاہ نے کہا:نہیں،بچے پیسے دے کر اسے بڑوں سے خریدتے ہیں۔
روزبہ نے کہا:اچھا،اس شہر کی ایسی نشانیوں سے تو معلوم ہوا کہ وہاں کے بڑوں کی عقل بھی بچوں کی سی ہے کیونکہ کسی مفید کام کے بجائے یہ لوگ پٹاخے اور ہوائیاں تیار کرتے ہیں اور بچے انہیں آگ لگاتے ہیں اور دھواں بنا کر ہوا میں اُڑا دیتے ہیں۔کارآگاہ بولا:ظاہر تو ایسا ہی ہے۔
روزبہ نے پوچھا:اچھا یہ بتاؤ کہ اگر یہ آگ کسی کے گھر میں جا گرے اور وہاں آگ لگ جائے یا کسی کی آنکھ میں پڑ جائے اور اسے اندھا کر ڈالے یا کسی کے لباس پر گر کر اسے جلا ڈالے تو ایسی صورت میں یہ لوگ کیا کرتے ہیں اور اس نقصان کی ذمہ داری کس پر ڈالتے ہیں؟ کارآگاہ نے جواب دیا:کسی پر نہیں۔
اس کا گناہ بچوں پر ڈالتے ہیں اور کوئی بھی اس نقصان کی تلافی نہیں کرتا۔
روزبہ بولا:یہ کیسے نادان لوگ ہیں کہ ایک ایسی شے کو جسے صنعتوں میں استعمال میں لایا جاتا ہے،ایک بیہودہ کھیل میں صرف کر ڈالتے ہیں اور بچوں کے جیب خرچ لے اُڑتے ہیں اور بعد کو اگر اس آتش بازی سے کوئی خطرہ لاحق ہو جائے تو اسے بچوں کے سر منڈھ دیتے ہیں اور اگر کوئی نقصان ہو جائے تو کوئی تلافی کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
بچوں کے بارے میں تو کہہ سکتے ہیں کہ بچے ہیں،ناتجربہ کار ہیں مگر بڑے ایسا کیوں کرتے ہیں۔کیا کھیل کم پڑ گئے ہیں۔
شاید تفریح اور خوشی کی راہیں بند ہو گئی ہیں۔کیا ورزشی کھیل نہیں رہے،شاید گھڑ سواری کا مشغلہ باقی نہیں بچا،شاید کتاب نہیں رہی،شاید ناٹک اور تھیٹر نہیں رہے۔شاید کوئی پاکیزہ اور مفید تفریح نہیں رہی کہ یہ لوگ خوشی کے وقت آگ سے کھیلتے ہیں اور اپنے روپے پیسے دھوئیں میں اُڑا دیتے ہیں۔

کارآگاہ بولا:واللہ میں کیا عرض کروں۔یقینا ان کی عقل یہ باتیں سمجھنے سے قاصر ہے،واقعی یہ نا سمجھ ہیں۔
روزبہ بولا:ہاں ایسا ہی ہے لیکن کیا ان کے شہر کا کوئی حاکم نہیں جو انہیں اس احمقانہ کام سے روکے؟
کارآگاہ بولا:کیوں نہیں،یقینا ہے لیکن اسے ان کاموں سے کیا بلکہ خود حاکم شہر کی طرف سے شہر کے میدان میں آتش بازی کا اہتمام کیا جاتا ہے اور وہاں بھی کئی چیزوں کو دھواں کر ڈالتے ہیں،آگ لگاتے ہیں اور اس کو جشن اور خوشی کا نام دیتے ہیں۔

روزبہ بولا،اللہ اکبر!کہا یہ جاتا ہے کہ انسان بندروں سے زیادہ عقل رکھتے ہیں حالانکہ ہم بندر کبھی فضول کام نہیں کرتے اور درندے بھی جب تک وہ بھوکے نہ ہوں،شکار نہیں کرتے۔کتا بھی،جب تک اسے تکلیف نہ پہنچائی جائے،کسی کی ٹانگ میں دانت نہیں گاڑتا۔سچی بات تو یہ ہے کہ بعض انسان اس قدر احمق ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی کام بھی عقل اور منطق کی رو سے درست نہیں ہوتا۔
(جاری ہے)

Browse More Moral Stories