Aazm Our Hosla - Article No. 1124
عزم اور حوصلہ - تحریر نمبر 1124
فاسٹ فوڈ ز آج کل دنیا میں بے حد مقبول ہے کئی کمپنیاں یہ غذا تیار کرتی ہیں ان میں سے ایک کمپنی کے بانی ایک امریکی کرنل” ہار لینڈ سینڈرز“ تھے۔ مال دار ہونے کے باوجود ہار لینڈ نے اپنی زندگی کے کچھ اُصول بنا رکھے تھے۔ وہ صبح پانچ بجے بستر چھوڑ دیتے۔
جمعہ 25 مئی 2018
شکیل صدیقی:
فاسٹ فوڈ ز آج کل دنیا میں بے حد مقبول ہے کئی کمپنیاں یہ غذا تیار کرتی ہیں ان میں سے ایک کمپنی کے بانی ایک امریکی کرنل” ہار لینڈ سینڈرز“ تھے۔ مال دار ہونے کے باوجود ہار لینڈ نے اپنی زندگی کے کچھ اُصول بنا رکھے تھے۔ وہ صبح پانچ بجے بستر چھوڑ دیتے۔ پھر ایک ایک گھنٹے کے لیے اپنے گرین ہاو¿س میں جاتے۔
(جاری ہے)
جب بارہ برس کے ہوئے تو بسوں میں کنڈیکٹری شروع کر دی جب جوان ہوئے تو فوج میں بھری ہو گئے اور کیوبا کے محاذ پر لڑنے لگے واپس امریکہ آئے تو فون کی ملازمت چھوڑی اور کئی طرح کی نوکریاں کیں، جن میں ریلوے کا فائرمین، بیمہ ایجنٹ، گاڑیوں کے ٹائر فروخت کرنا اور سب سے آخر میں پیٹرول پیمپ پر آپریٹر کی حیثیت سے کام کرنا شامل ہے۔ اس وقت جب کہ اں کی عمر 40 برس ہو چکی تھی، وہ اپنی تنخواہ میں سے بچا بچا کر خاصی رقم جمع کر چکے تھے ایک روز انھوں سے سوچا، کیوں نہ پیٹرول پمپ پر آنے والے گاہکوں کو لنچ باکس (غذائی ڈبے) فروخت کریں۔ لمبے سفر کے دوران مسافروں کو بھوک لگنے لگتی ہے۔ وہ یقینا لنچ باکس خرید لیں گے۔ انھوں نے سوچا، ایسے ڈبے وہ گھر میں تیار کر سکتے ہیں اور پھر جب ان کے لنچ باکس زیادہ تعداد میں فروخت ہونے لگے تو انھوں نے پیٹرول پمپ کی ملازمت چھوڑ دی اور چھوٹا ساریسٹورنٹ کھول لیا۔ ان کے تلے ہوئے چکن کھانے کے لیے لوگ دور دور سے آنے لگے۔ریسٹورنٹ تو مشہور ہو گیا، لیکن ہارلینڈ کے لیے بہت سے مصائب پیدا ہو گئے۔ ریسٹورنٹ میں آنے والے گاہک آرڈر دینے کے بعد خاموش نہیں بیٹھتے تھے اور جلدی جلدی کا شور مچانا شروع کر دیتے ہارلینڈ کے لیے یہ صورتِ حال پریشان کن تھی ۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر اس کا یہ حل نکالا کہ بازار سے جا کر ایک پریشر ککر خرید لائے۔ یہ 1939ءکا زمانہ تھا اور پریشر ککر بازار میں چند ماہ پہلے ہی آیا تھا۔ وہ پریشر ککر کے استعمال سے چکن آٹھ منٹ میں تیار کرنے لگے۔
چند برس میں ریسٹورنٹ کافی بڑا ہو گیا اور وہاں ایک وقت میں تقریباََ ڈیڑھ سوگاہک بیٹھنے لگے۔ گاہکوں کے بیٹھنے کی گنجائش بڑھی تو ان کی آمدنی بھی بڑھ گئی، مگر ایک مصیبت اور اُٹھ کھڑی ہوئی کہ ہارلینڈ کا ریسٹورنٹ جس سڑک پر واقع تھا اسے توڑ کر نئی سڑک بنانے کی منظوری دے دی گئی۔ حکومت نے ان کے ریسٹورنٹ کو اونے داموں خرید کر رقم انھیں تھما دی۔ یہ رقم اتنی کم تھی کہ وہ کسی اور جگہ جا کر نیا ریسٹورنٹ نہ کھول سکے، بلکہ مقروض ہو گے اب ان کی عمر چھپا سٹھ برس تھی اور وہ ایک بار پھر خالی ہاتھ ہو گئے۔ہارلینڈ کے پاس ایک ہی مہارت تھی کہ وہ چکن کو انوکھے طریقے سے تیار کر سکتے تھے ۔ انہوں نے اپنا سامان اپنی پرانی کار میں لادا اور ایک ریسٹورنٹ پر جا کر اس کے مالک سے بات کی:” میں تمہارے اور تمہارے عملے لیے چکن فرائی کرنا چاہتا ہون ۔ا گر وہ تمہیں ذائقے دار لگے تو میں تمہیں اسے فرائی کرنے کا طریقہ بتا دوں گا۔ پھر جب تمہارے ریسٹورنٹ سے یہ چکن فروخت ہوں تو تم فی چکن4سینٹ مجھے معاوضہ ادا کر دینا بولو منظور ہے؟“
مالک نے یہ سودا منظور کر لیا تھوڑے عرصے میں ہارلینڈ کو خاصی آمدنی ہو گئی تو انھوں نے خود ایک ریسٹورنٹ کھل لیا۔1964ءتک ان کی آمدنی بہت بڑھ گئی اور انھوں نے بہت سی جگہوں پر ریسٹورنٹ کھول لیے، جن سے انھیں سالانہ 3کروڑ 70لاکھ ڈال آمدی ہونے لگی۔ان کے ریسٹورنٹ کا نام Kantiki Friad Chichen(KFC) تھا۔ ہارلینڈ کا انتقال 1980ءمیں 90برس کی عمر میں ہوا۔
Browse More Moral Stories
اردو ہماری زبان
Urdu Hamari Zuban
نئے سال کا استقبال
Naye Saal Ka Istaqbaal
دو رتن
Dou Ratan
ایک چیل کی کہانی
Aik Cheel Ki Kahani
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
Hai Zindagi Ka Maqsad Auron Ke Kaam Aana
سمندری پریاں آخری قسط
Samundari Pariyaan Akhri Qist
Urdu Jokes
ایک پولیس انسپکٹر
Aik police inspector
ڈاکٹر کے فرائض
dr ke faraiz
بلیڈ
Blade
سنگ تراش
Sang tarash
عصمت چغتائی
ismat chughtai
ایک بچہ دوسرے بچے سے
ek bacha Dusre bache se
Urdu Paheliyan
ذرا تھپک کر اسے اٹھایا
zara thapak ke usay uthaya
مار پٹی تو شور مچایا
maar piti tu shor machaya
لیٹی لیٹی گھر تک آئے
leti leti ghar tak aye
بیٹی جا پہنچے بازار
beti ja punche bazar
آندھی ہو یا تیز ہوا
aandhi ho ya taiz hawa
بند آنکھوں نے جو دکھلایا
band ankhon ne jo dikhlaya