Abbu Ji Mujhe Cycle Le Do - Article No. 2403

Abbu Ji Mujhe Cycle Le Do

ابو جی!مجھے سائیکل لے دو - تحریر نمبر 2403

آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب میں پانچویں جماعت میں اول پوزیشن لوں گا تو آپ مجھے نئی سائیکل خرید کر دیں گے

پیر 28 نومبر 2022

ریاض احمد جسٹس
علی کے گھر کے قریب ایک بہت بڑا بازار تھا۔بازار میں ہر قسم کا سامان فروخت ہوتا تھا۔اس بازار میں ایک بہت پرانی نئی سائیکلوں کی اسلم چاچا کی دکان تھی۔دکاندار کے پاس ہر عمر کے بچوں کی مختلف رنگوں کی سائیکلیں موجود تھیں۔علی اور اُس کے ساتھی دوست سکول سے آتے اور جاتے وقت اسلم چاچا کی دکان پر پڑی سائیکلوں کو حسرتوں بھری نظروں سے دیکھ کر جاتے۔
علی اپنے دوستوں سے کہتا درمیان والی اورنج رنگ کی سائیکل کو میں نے اپنے لئے پسند کیا ہے۔پھر دوسرا دوست علی کی بات سُن کر جواب دیتے ہوئے کہتا کہ بلیو رنگ کی سائیکل کو میں نے اپنے لئے پسند کیا ہے۔پھر تیسرا دوست بولتا ہے اگر کسی طرح ہم سائیکلوں کو پسند کرتے رہے تو سکول کا وقت گزر جائے گا۔

(جاری ہے)


جو سائیکل علی نے اپنے لئے پسند کی ہوئی تھی وہ ان سب سائیکلوں سے زیادہ قیمتی تھی۔

اُسے علی کے ماں باپ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔یوں کچھ دن گزرنے کے بعد علی کے ابا نے علی سے سوال کیا کیا بات ہے تم روزانہ سکول سے دیر سے گھر آتے ہو؟علی ابا کی بات سن کر خاموش ہو گیا کچھ دیر بعد علی نے کہا آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب میں پانچویں جماعت میں اول پوزیشن لوں گا تو آپ مجھے نئی سائیکل خرید کر دیں گے۔علی کے ابا اُس کی بات سُن کر خاموش ہو گئے۔
کیونکہ وہ اس قیمت کی سائیکل خرید کر نہیں دے سکتے تھے۔علی ابا کی طرف دیکھ کر بولا۔کیا ہوا آپ نے خود ہی کہا تھا کہ جب میں پانچویں جماعت میں اول آؤں گا تو آپ مجھے سائیکل لے دیں گے۔
ابا نے بیٹے کی بات سُن کر جواب دیتے ہوئے کہا․․․․ابھی تو تمہیں جماعت میں اول پوزیشن لیے ہوئے کچھ دن ہی گزرے ہیں․․․․کچھ دن مزید انتظار کرو،میں تمہیں تمہاری پسند کی سائیکل ضرور لے کر دوں گا مگر تم اسی طرح شوق سے کامیابی سے آگے بڑھتے جاؤ میں آج ہی تمہارے دادا جان کو خط لکھ دوں گا۔
بس دو چار دنوں میں خط کا جواب اور پیسے بھی آجائیں گے۔
علی ابا کی بات سُن کر کہنے لگا․․․․․یوں تو بہت دن لگ جائیں گے۔ابا نے علی کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔اس میں پریشان ہونے والی کون سی بات ہے۔تمہارے دادا جان نے کبھی تمہاری فرمائش سے انکار کیا ہے۔علی مسکراتے ہوئے اپنے کمرے میں جا کر بیگ سے کتابیں نکال کر پڑھنے لگا۔ابا جان نے بیٹے کو پڑھتے ہوئے دیکھ کر کہا․․․․بیٹا اسی طرح شوق سے پڑھتے جاؤ اور آگے بڑھتے جاؤ۔

یوں کچھ دن گزرنے کے بعد علی کی والدہ نے باتوں باتوں میں علی کے ابا سے سوال کر دیا کہ ․․․․علی روزانہ صبح سکول جانے سے پہلے سائیکل لے کر دینے کی ضد کرتا ہے میں اُسے کب تک یوں جھوٹی تسلیاں دیتی رہوں گی۔علی کی والدہ کی بات سن کر علی کے ابا نے جواب دیا․․․․․بیگم آپ کی ہر بات ٹھیک ہے مگر آپ تو اچھی طرح جانتی ہیں ملکی حالات سے بخوبی واقف ہیں اور گھر کا نظام چلنا کتنا مشکل ہے پہلے تو کسی فیکٹری یا کارخانے میں کام ملتا ہی نہیں ہے اگر کام مل بھی جائے تو وقت پر تنخواہ نہیں ملتی۔
تنخواہ لینے کا وقت آئے تو فیکٹری کے مالکان بجلی اور ٹیکس کی باتیں کرکے ملکی نظام میں خامیاں نکالنے لگتے ہیں۔غریب کرے تو کرے کیا مگر بیگم تم فکر مت کرو میں نے چند روز پہلے علی کے دادا کو علی کی فرمائش کا خط لکھا ہے بس ایک دو دن میں خط کا جواب آ جائے گا۔علی کے دادا نے آج تک علی کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی فرمائش پوری کی ہے۔
یوں باتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک ڈور بیل بجنے لگی ساتھ ہی کسی نے بلند آواز میں کہا ”پوسٹ مین“․․․․․پوسٹ مین کا نام سنتے ہی علی کے ابا اور والدہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور علی کے ابا بولے میں نے کہا تھا کہ علی کے دادا کا آج کل میں جواب آجائے گا۔

علی کی والدہ جب خط لے کر اندر آئی تو علی کے ابا کہنے لگے اب تم جلدی سے خط پڑھ کر سنا دو۔علی کی والدہ نے خط کھول کر پڑھنا شروع کیا تو دونوں کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔دعا سلام کے بعد دادا جان نے ملکی حالات کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا۔بیٹا!اس وقت کی ملکی صورتحال سے تم اچھی طرح واقف ہو بلکہ سبھی لوگ واقف ہیں کیونکہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے کھڑی فصلوں کا تو نقصان کیا تھا مال مویشی بھی چلے گئے اور تمہارا چھوٹا بھائی بھی لوگوں کو بچاتے ہوئے پانی کے ریلے میں بہہ گیا ہے۔

خط پڑھ کر دونوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اس طرح کچھ دن گزر گئے مگر دادا جان گاؤں سے شہر نہیں آئے۔ایک دن علی نے سکول سے لوٹتے ہوئے اورنج رنگ کی سائیکل جو پسند کی تھی کوئی دوسرا لڑکا چلا رہا تھا۔اُسے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔
علی اسلم چاچا کے پاس جا کر شکوہ کرنے لگا۔اسلم چاچا آپ نے بہت اچھا کیا جو آپ نے میری پسند کی سائیکل کو فروخت کر دیا۔
مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں کیونکہ میرے ابا کے پاس اتنی قیمتی سائیکل مجھے خرید کر دینے کی طاقت نہیں تھی۔اسلم چاچا علی کی بات سُن کر آنکھیں تر ہو گئیں۔علی روتے ہوئے سکول بیگ سے دادا جان کا خط نکال کر اسلم چاچا کے حوالے کرکے چلا گیا۔علی کے جانے کے بعد اسلم چاچا نے علی کا دیا ہوا خط پڑھا اور دل میں احساس ہوا کہ میری وجہ سے گلی محلے کے نجانے کتنے ہی بچوں کے دل کو دکھ پہنچا ہو گا۔

یوں اسلم چاچا نے گلی محلے کے ہر بچے کو خوش کرنے کے لئے ہر لڑکے کو ایک ہفتے کے لئے فری سائیکل چلانے کی اجازت دے دی۔یوں گلی محلے کا ہر بچہ فری سائیکل چلا کر اپنا شوق پورا کرنے لگا۔اسلم چاچا نے کہا بچے کھلونوں سے کھیلتے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔آج کے بچے کل کا روشن مستقبل ہیں․․․․․اسلم چاچا بچوں کی ضد کے آگے ہار گئے۔

Browse More Moral Stories