Adhoori EID - Article No. 1771

Adhoori EID

ادھوری عید - تحریر نمبر 1771

امیر ہو یا غریب سب کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ نئے کپڑے پہنے،ڈھیر سارے پیسے ہوں،خوب ہلہ گلہ ہو،جھولے ہوں،پیزا اور بر گرہو

پیر 27 جولائی 2020

ساجد کمبوہ
پیارے بچو!عید کی آمد آمد ہے عید کا سب کو انتظار ہوتا ہے امیر ہو یا غریب سب کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ نئے کپڑے پہنے،ڈھیر سارے پیسے ہوں،خوب ہلہ گلہ ہو،جھولے ہوں،پیزا اور بر گرہو،چھوٹی عید میں سب کی یہی مصروفیت ہوتی ہیں مگر بڑی عید میں قربانی ہوتی ہے گائے بیل دنبہ اونٹ اور بکرا کی قربانی کا ثواب الگ اور چٹ پٹے کھانوں کا مزہ الگ کوئی دل کلیجی کھا رہا ہوتا ہے کوئی کباب سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے بچوں کو اتنی سمجھ نہیں ہوتی مگر بڑوں کو خوب سمجھ ہوتی ہے کہ قربانی کیا ہے؟کیوں ہے؟اس کا مقصد کیا ہے؟مگر بد قسمتی سے وہ صرف قربانی گوشت کے لئے کرتے ہیں،فریج بھر لیتے ہیں دو دو تین تین ماہ کھاتے رہتے ہیں قربانی کا عظیم فلسفہ نہیں سمجھتے یہ تحریر اُن کے لئے خاص ہے جو صاحب حیثیت ہوتے ہیں مگر دل کے کنجوس ہوتے ہیں گائے بیل میں حصہ بھی رکھ لیتے ہیں اور بکرا مینڈھا بھی قربان کرتے ہیں کسی کے گھر بھیجنا ہوتو گائے بیل اور فریج بھرنا ہوتو بکرے کا گوشت میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک صاحب عید قربان کے کافی دن بعد حج کرکے آئے اور بکرے کی ران لئے قصائی کی دکان پر گئے تاکہ گوشت بنوایا جاسکے وہ صاحب حیثیت لوگ ہیں شہر میں اُن کا بڑا نام ہے۔

(جاری ہے)


پیارے بچو!آپ خود کوشش کریں کہ گوشت اُن غریب غربا تک پہنچائیں جنہیں سال بھر چھوٹا کیا بڑا گوشت نصیب نہیں ہوتا اور والدین سے بھی گزارش ہے کہ وہ مستحق افراد تک قربانی کا گوشت ضرور پہنچائیں جو سفید پوش ہیں ۔عید کے دن سوائے آنسوؤں کے کچھ قربان نہیں کر سکتے یہی قربانی کا فلسفہ ہے۔
بابابابا تین دن رہ گئے ہیں گوشت والی عید میں ہمیں بھی گوشت کھانے کو ملے گا۔
صوبیہ نے کہا۔ہاں وہاں کیوں نہیں بیٹا ہمارے اردگرد محلے میں بہت سے افراد قربانی کرتے ہیں بابا نے کہا مگر بابا پچھلی عید پر تو کسی نے بھی ہمیں گوشت نہیں بھیجا تھا اب تو پورا سال ہو گیا ہے گوشت دیکھے ہوئے کوئی بات نہیں بیٹا یہ دیکھ اللہ نے ہمیں بھوکا تو نہیں رکھا تھا کچھ کھایا تو تھا بابا نے کہا پیاری بیٹی ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔

بیٹا گھبراؤ نہیں آج مولوی صاحب بیان فرما رہے تھے کہ قربانی غریب مسکین لوگوں کو نہیں بھولنا چاہئے ان کے حقوق ہوتے ہیں اس بار دیکھنا ہمیں گوشت ضرور بھجوائیں گے۔بابا نے کہا عید قربان آئی صوبیہ کا بابا نماز عید پڑھ کر گھنٹہ پہلے گھر آچکا تھا۔بابا ابھی تک گوشت نہیںآ یا۔ بڑی بہن عافیہ نے کہا چپ ہو جاؤ کیوں شک کرتی ہو؟بابا خاموشی سے دونوں کی باتیں سنتا رہا․․․․دوپہر تک کہیں سے بھی گوشت نہیں آیا تو صوبیہ کی ماں بولی۔
سنیئے میں نے پیاز ٹماٹر بھی کب سے کاٹ کر رکھ چھوڑے ہیں لیکن کہیں سے بھی گوشت نہیں آیا کہیں بھول نہ گئے ہو گوشت بھجوانا آپ خود جا کرلے آئیں وہ مصروف ہوں گے۔صوبیہ کی ماں تمہیں پتہ ہے میں نے آج تک کسی سے کچھ نہیں مانگا اللہ کوئی سبب بنادے گا۔سہ پہر ہونے لگی کہیں سے بھی گوشت نہ آیا سب بھوکے بیٹھے تھے صوبیہ کے بار بار کہنے پر اور رونے کے انداز پر وہ ڈاکٹر صاحب کے ہاں گئے(ہزار روپے فیس لیتے ہوئے مسکرا کر بات کرتے مگر اب وہی ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر کیا ہمیں بھی گوشت مل سکتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے چہرے کا رنگ بدل گیا وہ حفارت سے بولے پتہ نہیں کہاں کہاں سے آجاتے ہیں گوشت مانگنے تڑاخ سے دروازہ بند کردیا۔
اب وہ سوچ میں پڑ گیا عزت نفس کہتی کہ گھر چلا جائے مگر بیٹی کا کملایا ہوا چہرہ سامنے نظر آرہے تھا وہ مجبوراً شیخ صاحب کے گھر گیا اور دست سوال کیا۔شیخ صاحب نے عجیب سی نظروں سے دیکھا اور گھر گئے کافی انتظار کے بعد ایک شاپر پکڑایا اور جلدی سے دروازہ بند کر دیا۔
گھر پہنچ کر دیکھا تو چربی اور ہڈیاں تھیں۔آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔صوبیہ اور اس کی ماں کمرے میں آئیں ان کے آنسو دیکھ کر بولیں بابا غمگین نہ ہوں ہم پیاز بھون لیتی ہیں یا چٹنی بنا لیتی ہیں ویسے بھی میں نے گوشت نہیں کھانا میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے یہ سننا تھا کہ آنسو سیلاب بن گئے اب وہ رونے والے اکیلے نہیں تھے سارا گھر شامل تھا کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی دیکھا تو پڑوسی اکرم تھا جو سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا۔
انور بھائی کیا حال ہے یہ لو گوشت بھائی گاؤں سے لے کر آیا ہے۔اکرم کے ہاتھ میں تین چار شاپر تھے۔نہیں نہیں اکرم بھائی آپ کا شکریہ ہمارے پاس بہت سا گوشت ہے۔
شکریہ ارے انور بھائی ٹینشن مت لو میں بھی اسی محلے کا رہنے والا ہوں۔یہاں انسان نہیں فرعون بستے ہیں بھائی۔آپ میرے بھائی ہو۔ احسان نہیں ہے۔اس نے زبردستی وہ شاپر انور کو پکڑا دئیے۔
ہم سے اتنا کھایا نہیں جائے گا تم بھی کھالو یہ کہہ کر اکرم لوٹ گیا۔خوشی اور تشکر سے سب گھر والوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اکرم کے لئے ڈھیروں دعائیں نکلیں۔عید کے دن مغرب کے وقت اچانک موسم خراب ہو گیا آندھی بارش سے ہر طرف جل تھل ہو گیا اور ساتھ ہی بجلی چلی گئی رات یوں ہی گزر گئی اگلے دن پتہ چلا کہ ٹرانسفارمر جل گیا ہے۔ دوسرے دن شام کو ٹرانسفارمر اتار کے لے گئے تیسرے دن تک ٹھیک نہیں ہوا چوتھے دن وہ کسی کام سے صوبیہ کے ساتھ نکلا دیکھا کہ شیخ صاحب اور ڈاکٹر صاحب گوشت کے شاپر بھرے گھر سے باہر کوڑے دان میں پھینک رہے تھے۔
بجلی نہ آنے کی وجہ سے فریج میں پڑا سارا گوشت خراب ہو چکا تھا اور اس پر کتے جھپٹ رہے تھے اسے دیکھ کر صوبیہ نے کہا بابا اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے قربانی ان کتوں کے لئے کی تھی؟جسے سن کر شیخ صاحب اور ڈاکٹر صاحب کے چہرے دیکھنے والے تھے۔

Browse More Moral Stories