Aik Hi Rasta - Article No. 2225
ایک ہی راستہ - تحریر نمبر 2225
سلیم اب بھی تمہیں اپنا دوست سمجھتا ہے،اس کے ساتھ مل جاؤ
بدھ 6 اپریل 2022
انسپکٹر ساجد الیکٹرونک ذرائع سے ہونے والے جرائم کی چھان بین کے ماہر تھے اور اس سلسلے میں انھیں اپنے محکمے میں بہت شہرت ملی تھی۔اس وقت وہ ایک کیس کی فائل کو پڑھ رہے تھے کہ کسی انجان نمبر سے کال آئی۔انھوں نے ایک گہری سانس لی اور فون اُٹھا لیا۔دوسری طرف کوئی اجنبی تھا،مگر اس نے جو اطلاع دی وہ اہم تھی۔فون کرنے والے نے بتایا کہ سلیم نامی ایک نوجوان لڑکا ایک سماجی تنظیم کی آڑ میں کچھ ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث تھا۔
انسپکٹر ساجد نے تھوڑی ہی دیر میں اس لڑکے کی کھوج لگا لی۔وہ کالج کا ایک طالب علم تھا اور بظاہر اس کا سابقہ ریکارڈ ٹھیک لگ رہا تھا۔انسپکٹر ساجد نے سلیم سے ذاتی طور پر ملنے کا فیصلہ کیا اور وہ اس کے گھر پہنچ گئے۔
(جاری ہے)
سلیم بظاہر ایک نیک اور ہمدرد لڑکا تھا۔
انسپکٹر ساجد نے اپنا تعارف ایک سماجی کارکن کے طور پر کرایا تو سلیم نے کھل کر اپنے اور اپنی فلاحی تنظیم کے مقاصد بتائے اور اپنی ویب سائٹ بھی دکھائی۔”دراصل ہم غریب ترین بچوں کی مدد کرتے ہیں۔“وہ کہتا رہا:”اور وہ مدد اس طرح ہوتی ہے کہ ان کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو،پھر ہم اس کی ویڈیو بنا لیتے ہیں جو اپنے یوٹیوب چینل پر اَپ لوڈ کر دیتے ہیں۔اس چینل سے کوئی آمدنی ہونا شروع نہیں ہوئی،لیکن اگر ہوئی تو وہ بھی ان بچوں پر خرچ کریں گے۔“
سلیم نے یہ کہہ کر ایک ویڈیو دکھائی۔اس میں کچرے کے ڈھیر کے پاس چند بچے ہاتھ سے بنے ایک بھدے سے بلے سے کرکٹ کھیل رہے تھے۔سلیم ان سے جا کر کچھ بات کرتا ہے۔پھر ان کو بیٹ دیتا ہے۔جو بچے تیز شارٹ لگاتے ہیں،تیز گیند کراتے ہیں،کیچ کرتے ہیں،وہ ان کو انعام میں بیٹ،گیندیں اور لکڑی کی وکٹیں تقسیم کرتا ہے۔آخر میں سارے بچے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔
ویڈیو ختم ہوئی تو سلیم بولا:”بظاہر ویڈیو نہ خاص ہے اور نہ اس کی مدد سے کسی کا کچھ بنے گا،مگر ہماری مثال اندھیرے میں ایک شمع جلانے والوں کی سی ہے کہ ہم اپنے حصے کا اندھیرا ختم کریں گے۔“
انسپکٹر ساجد سلیم کی طرف دیکھتے رہ گئے۔انھوں نے ایسے نپے تلے انداز میں کسی کو بات کرتے نہیں سنا تھا۔چنانچہ ان کو سلیم کی باتوں میں لطف آیا،مگر وہ کوئی کام کی بات نہ جان سکے۔
اسی شام کو انھوں نے سلیم کی ویب سائٹ کو دیکھا اور چندہ دینے کا طریقہ کار دیکھا تو حیران رہ گئے۔وہاں درج تھا کہ ہم ہر کسی سے چندہ نہیں لیتے۔چندہ دینے کے لئے آپ کو اپنی آمدنی کے جائز ہونے کا ثبوت دینا ہو گا۔علاوہ ازیں ہم صدقہ فطرانہ بھی نہیں لیتے۔صرف وہ خیرات لیتے ہیں جسے اللہ کی مخلوق پر بغیر کسی امتیاز کے خرچ کرنے کی مکمل اجازت ہو۔
انسپکٹر ساجد نے ایک جعلی آئی ڈی کے ذریعے سلیم سے رابطہ کیا اور اسے دس ہزار روپے دینے کی پیش کش کی۔سلیم نے جواب دیا کہ وہ اس پر سوچے گا اور اپنے دوستوں سے مشورہ کرے گا۔اس نے انسپکٹر ساجد کو ایک فارم بھیج دیا،تاکہ وہ اپنی معلومات دے سکیں۔
جلد ہی ایک بڑی تعداد میں لوگ سلیم سے رابطہ کرنے لگے جو اسے مالی امداد فراہم کرنا چاہتے تھے۔
انسپکٹر ساجد ناشتہ کر رہے تھے کہ سلیم کا فون آ گیا۔جب وہ سلیم کے پاس پہنچے تو سلیم نے بتایا:”میرے بارے میں کوئی شخص غلط پرچار کر رہا تھا،اس کا پتا چل گیا ہے وہ اس کا دوست سہیل ہے۔“
انسپکٹر ساجد نے فوری کارروائی کرتے ہوئے سہیل کو تھانے بلوا لیا۔جب وہ انسپکٹر ساجد کے سامنے آیا تو مطمئن لگ رہا تھا۔اس نے بغیر کسی سوال کے اپنا بیان دینا شروع کر دیا۔
”انسپکٹر صاحب!میں اپنا جرم قبول کرتا ہوں۔میں نے آپ کو فون کیا اسی طرح میڈیا تک بھی سلیم کے متعلق اطلاعات پہنچائیں۔اس سارے معاملے کے پیچھے میں ہی تھا۔“
”تو تم نے سلیم سے بدلہ لیا؟“انسپکٹر ساجد نے پوچھا:”اس بات کا کہ اس نے تمہاری منفی سوچوں کی بنا پر تمہیں اپنی تنظیم سے الگ کیا۔تم اسے نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔“
سہیل مسکرایا اور بولا:”انسپکٹر صاحب!میں سلیم کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔وہ بہت ہی نیک طریقہ کیا ہے۔پھر بھی آج میرا دوست پورے ملک میں مشہور ہو چکا ہے۔اسے اب پیسے کی کوئی فکر نہیں ہے۔مجھے اُمید ہے،اس کی ذات سے لوگوں کو بہت فائدہ پہنچے گا۔میرا مقصد پورا ہو چکا ہے۔“
انسپکٹر ساجد نے سوچتی نظروں سے سہیل کی طرف دیکھا اور پھر بولے:”تم بھی حیرت انگیز حد تک با خبر انسان ہو اور جدید زمانے کے تقاضے جانتے ہو۔بے شک تم نے غلط راستہ اختیار کیا،مگر میں تمہیں معاف کرتے ہوئے یہ مشورہ دیتا ہوں کہ آئندہ اس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مت کھیلنا اور سلیم اب بھی تمہیں اپنا دوست سمجھتا ہے،اس کے ساتھ مل جاؤ۔ایک اور ایک مل کر گیارہ ہوتے ہیں۔دونوں کا راستہ ایک ہی ہے،اس لئے اس کے ساتھ چلو۔یہی دوستی اور کامیابی کا راستہ ہے۔“
”میں ضرور سلیم سے معافی مانگوں گا اور آپ کا بہت بہت شکریہ۔“سہیل نے کہا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔انسپکٹر ساجد اسے جاتے ہوئے دیکھنے لگے۔
Browse More Moral Stories
بچوں میں کارٹون کا کریز
Bachoon Main Cartoon Ka Craze
دیانت داری
Dianat Daari
انسان دوست
Insaan Dost
شیروں کی باتیں
Sheron Ki Batain
خطا کا پُتلا
Khata Ka Putla
ہوشیار بلی اور دشمن کی مثال
Hoshayar Billi Aur Dushman Ki Misaal
Urdu Jokes
ایک شخص بہت کم گو تھا
Aik Shakhs bohat kam go thaa
بچہ دادی جان سے
bacha daadi jaan se
بچہ دکاندار سے
Bacha dukandar se
ایک شخص
aik shakhs
سپاہی عورت سے
sipahi aurat se
شوخ لڑکی
shokh ladki
Urdu Paheliyan
اک بڈھے کے سر پر آگ
ek budhe ke sar par aag
شیشے کا گھر لوہے کا در
sheeshay ka ghar lohe ka dar
فٹ بھر ہے اس کی لمبائی
fut bhar he uski lambai
بازو اور ٹانگیں ہیں آٹھ
bazu or tangen he aath
اس سے خود بولا تو نہ جائے
us sy khud bola tu na jaye
لاتیں کھائے بھاگی جائے
laten khae bhagi jae