Aitbar - Article No. 1942

Aitbar

اعتبار - تحریر نمبر 1942

مجھے تمہارے جھوٹ کی وجہ سے بہت شرمندگی ہوئی

بدھ 7 اپریل 2021

شہلا جمال
یاسر کے والدین پڑھے لکھے تھے اور بہن بھائی بھی اچھی عادتوں کے مالک تھے۔یاسر پڑھائی میں تیز،لیکن جھوٹ بولنے کی عادت میں مبتلا تھا۔ایک دن یاسر نے ہوم ورک نہیں کیا،کیونکہ وہ اسکول سے آنے کے بعد شام تک دوستوں کے ساتھ کھیلتا رہا اور جب گھر آیا تو بہت تھک چکا تھا،اس لئے کھانا کھاتے ہی سو گیا۔دوسرے دن جب وہ اسکول گیا تو ٹیچر نے ہوم ورک نہ کرنے کی وجہ پوچھی۔

”میرے دادا جان کو دل کا دورہ پڑ گیا تھا،سب گھر والے پریشان تھے اور ہم سب اسپتال چلے گئے تھے۔رات کو واپس آئے،اس لئے ہوم ورک کرنے کا وقت نہیں ملا۔“یاسر نے معصوم سی صورت بنا کر کہا۔
”اچھا بیٹا!کوئی بات نہیں آپ آج اپنا ہوم ورک مکمل کر لیجیے گا۔“ٹیچر نے جواب دیا۔

(جاری ہے)


”یاسر اس بات سے بہت خوش ہوا کہ اس کے جھوٹ کو سچ مان لیا گیا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ میں بہت اچھی اداکاری کر لیتا ہوں اور وقت پڑنے پر جھوٹ سے کام لیا جا سکتا ہے۔“یاسر کی امی جب اسکول فیس جمع کرانے گئیں تو انھیں یاسر کی کلاس ٹیچر مل گئیں۔
”مجھے یاسر نے بتایا تھا کہ اس کے دادا کو دل کا دورہ پڑا ہے،اب وہ کیسے ہیں؟“ٹیچر نے پوچھا۔
”وہ تو بالکل ٹھیک ہیں،یاسر نے آپ سے ایسا کیوں کہا؟“امی نے پوچھا۔

یاسر کی ٹیچر نے امی کو ساری بات بتائی۔امی نے ٹیچر سے معذرت کی اور پوچھا:”یاسر پڑھائی میں کیسا ہے؟“
”اچھا پڑھنے والا بچہ ہے اگر اور محنت کرے تو مزید اچھے نمبر لا سکتا ہے۔“ٹیچر نے جواب دیا۔
یاسر جب دوپہر کو اسکول سے گھر آیا تو امی نے کہا:”بیٹا!جھوٹ کبھی چھپ نہیں سکتا اور تم نے تو اپنی ٹیچر سے دادا جان کی جھوٹی بیماری کا بہانا کر دیا۔
مجھے تمہارے جھوٹ کی وجہ سے بہت شرمندگی ہوئی۔“
”امی!اگر مشکل وقت میں جھوٹ سے کام چل جائے تو اچھا ہے۔“یاسر نے ڈھٹائی سے کہا۔
”نہیں بیٹا!جھوٹ،جھوٹ ہے یہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ہمیشہ یاد رکھنا جھوٹ کبھی سچ نہیں بن سکتا اور نہ کبھی چھپ سکتا ہے۔“
یاسر پر امی کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔وہ اسی طرح دوستوں اور گھر والوں سے جھوٹ بولتا رہا۔
جھوٹ بولنے سے یاسر کو یہ نقصان ضرور ہوا کہ سب کا اعتبار اس پر سے اُٹھ گیا۔اب کوئی بھی یاسر کی بات پر یقین نہیں کرتا تھا،مگر یاسر کو اس کی پروا نہیں تھی۔
”بیٹا!مجھے گھر میں کام ہے اور آج تمہاری اسکول فیس جمع کرانی ہے۔میں تمہیں اسکول کی فیس دے رہی ہوں،جمع کرا کے رسید لے آنا۔“ یاسر کی امی نے یاسر کو تاکید کی۔
”جی امی!میں فیس جمع کرا دوں گا۔
“یاسر نے جواب دیا۔
یاسر نے اسکول جا کر جب فیس جمع کرانے کے لئے اپنا بستہ کھولا تو اس میں پیسے نہیں تھے۔وہ سارا دن اسکول میں پریشان رہا کہ فیس کے پیسے کہاں چلے گئے،جب کہ امی نے فیس کے پیسے اس کے ہاتھ میں دیے تھے اور اس نے وہ پیسے کتاب میں رکھے تھے،مگر اب وہ پورے بستے میں نہیں مل رہے تھے۔گھر پہنچ کر بھی یاسر اُداس رہا۔امی نے اُداسی کی وجہ پوچھی تو یاسر نے ساری بات بتائی۔

”بیٹا!جھوٹ نہیں بولتے۔“امی نے خفگی سے کہا۔
”نہیں امی!میں جھوٹ نہیں بول رہا۔“یاسر روہانسا ہو گیا۔
”دیکھو میں نے تمہیں کتنا سمجھایا ہے کہ مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولتے،مگر تم باز نہیں آئے۔“امی نے پھر ڈانٹا۔
”امی!میں سچ کہہ رہا ہوں میں جھوٹ نہیں بول رہا۔“یاسر کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ امی کو کیسے یقین دلائے۔

دوسرے دن یاسر کی امی نے خود اسکول جا کر فیس جمع کرا دی۔اس واقعے سے یاسر کچھ سوچنے پر مجبور ہو گیا۔جب میں جھوٹ بولتا تھا تو سب یقین کر لیتے تھے اور اب جب کہ میں واقعی سچ بول رہا ہوں تو امی یقین نہیں کر رہی ہیں۔یاسر نے اپنی بڑی بہن کو ساری بات بتائی۔
”جب انسان جھوٹ بولتا ہے تو اس کا اعتبار ختم ہو جاتا ہے اور کوئی بھی اُس پر یقین نہیں کرتا۔
اسی لئے امی جان بھی تمہاری بات کا یقین نہیں کر پا رہی ہیں۔“یاسر کی بہن نے سمجھایا۔
”میں آئندہ کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔مجھے معلوم نہیں تھاکہ جھوٹ بولنے والا اگر کبھی سچ بھی بولے تو اس کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔“یاسر نے عزم سے کہا۔
یاسر اسکول میں اُداس رہنے لگا تھا۔دوستوں سے اب مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولتا تھا اور پڑھائی میں مگن ہو گیا،مگر اسے اس بات کی فکر تھی کہ وہ امی کو اپنے سچ کا یقین کیسے دلائے،ان کا اعتبار کیسے حاصل کیا جائے۔
امتحان ختم ہو چکے تھے اور یاسر کی چھٹیاں تھیں۔اس نے اپنے کمرے میں کہانیوں کی کتاب کھولی اور پڑھنے بیٹھ گیا۔
ارے یہ کیا؟یہ پیسے کہاں سے آئے؟یاسر نے کتاب میں سے گرنے والے پیسے زمین سے اُٹھاتے ہوئے کہا۔اس نے پیسے گنے۔وہ اتنے ہی تھے جتنے اس کی امی نے اسکول کی فیس جمع کرانے کے لئے دیے تھے۔اسے یاد آیا اس نے فیس کے پیسے اسکول کی کتاب میں نہیں،بلکہ اس کہانیوں کی کتاب میں رکھ دیے تھے اور بھول گیا تھا۔
پیسے لے کر یاسر فوراً امی کے پاس پہنچا۔
”امی!امی!فیس کے پیسے مل گئے۔“یاسر نے خوشی سے چلا کر کہا۔
”کس فیس کے پیسے؟“امی نے پوچھا۔
”امی!وہی پیسے جو آپ نے مجھے فیس کے لئے دیے تھے اور مل نہیں رہے تھے۔میں کہانیوں والی کتاب میں رکھ کر بھول گیا تھا۔“
”یہ تو اچھی بات ہے۔“امی نے جواب دیا۔
”امی!میں نے جھوٹ نہیں بولا تھا،یہ دیکھیں یہ پیسے اس کا ثبوت ہیں۔
“یاسر نے زور دے کر کہا۔
”بیٹا!جب انسان اپنی ساکھ کھو دیتا ہے تو اس کے سچ پر بھی کوئی یقین نہیں کرتا۔جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے یہ انسان کو دوسروں کی نظروں میں گرا دیتا ہے اور سچ ہمیشہ انسان کو فائدہ پہنچاتا ہے۔“
”امی!میرا آپ سے وعدہ ہے کہ میں اب کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔میں نے جھوٹ بولنے کی سزا بھگت لی ہے۔“یاسر نے امی سے لپٹ کر کہا۔
امی نے یاسر کو پیار کیا اور کہا:”یہ جو فیس کے پیسے ہیں،ان میں اور پیسے ملا کر میں آپ کے لئے نئی سائیکل خریدوں گی یہ آپ کے سچ بولنے کا انعام ہو گا۔“یہ سن کر یاسر خوشی سے جھوم اُٹھا۔

Browse More Moral Stories