Ajeeb O Ghareeb Jazeera - Article No. 1678

Ajeeb O Ghareeb Jazeera

عجیب وغریب جزیرہ - تحریر نمبر 1678

کپتان اس جزیرے کو دیکھ کر بہت حیران ہوا اور نقشہ نکال کر دیکھنے لگا اور حیرت سے بولا:”نقشے میں تو اس جگہ کوئی جزیرہ نہیں ،معلوم نہیں یہ کہاں سے آگیا۔

بدھ 4 مارچ 2020

محمد احمد آصف
میرا نام سند باد ہے ،لیکن سمندروں میں کثرت سے سفر کرنے کی وجہ سے لوگ مجھے سند بار جہازی بھی کہتے ہیں ۔میرے پہلے سفر کی کہانی کچھ یوں ہے کہ جب میری عمر 22سال ہوئی تو میرے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ وہ نیک اور خدا سے ڈرنے والے انسان تھے ۔اس کے علاوہ وہ اپنے شہر کے سب سے بڑے تاجر بھی تھے ۔مجھے میراث کے طور پر بہت سا مال ملا ۔
پھر وہی ہوا جو ایسے حالات میں ہوا کرتا ہے ،دولت کی فرا وانی کی وجہ سے میں عیش وعشرت میں پڑ گیا۔ صبح دن چڑھے تک سوتا رہتا۔پھر اُٹھ کر گلاب کے عرق ملے پانی سے غسل کرتا، قیمتی پوشاک پہننا اور پھلوں کا ناشتہ کرتا۔پھر گانے بجانے کی محفلیں شروع ہو جاتیں۔
میری یہ حالت دیکھ کر بہت سے خوشامدی اور مفت خورے دوست میرے گرداکھٹے ہو گئے ۔

(جاری ہے)

ان کا مقصد دن رات میری تعریفیں کرکے مفت روٹی کھانا تھا۔

میں نے بھی سخاوت کا حق ادا کیا اور دونوں ہاتھوں سے دولت خوب لٹائی۔رفتہ رفتہ میں امیر سے غریب ہونے لگا۔جب میرے حالات کمزور ہوئے تو دوست احباب اِدھر اُدھر ہونے لگے ۔میں ان کی بے وفائی پر حیران رہ گیا۔
پھر ایک دن مجھے خیال آیا کہ یوں اپنی دولت کو ضائع کرنا درست نہیں ۔گھر میں بیٹھ کر کھاؤ تو قارون کا خزانہ بھی ختم ہو جاتاہے ۔چنانچہ سوچا کہ جو دولت باقی رہ گئی ہے،اسے تجارت میں لگانا چاہیے اور جو نفع حاصل ہو اس سے گھر چلانا چاہیے۔
اگلے دن میں نے اپنا مال واسباب بیچا اور دوسرے تاجروں کے ساتھ اپنے شہر کی بندرگاہ سے بصرہ کی طرف روانہ ہو گیا۔
ہم خلیج فارس کے راستے جزائر مشرق کے قریب سے ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ۔دوران سفر ہم کئی بندرگاہوں پر اُترے پچھلا سامان بیچا اور نیا خریدا۔ سب کچھ بالکل ٹھیک تھا۔
ایک دن موسم خوش گوار تھا۔ہمارا جہاز بڑی تیزی سے سمندر کے سینے کو چیرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔
اچانک ہمارے راستے میں ایک چھوٹا سا جزیرہ آگیا۔ہمیں معلوم بھی نہ تھا کہ ہمارے ساتھ کچھ بُرا ہونے والا ہے ۔کپتان اس جزیرے کو دیکھ کر بہت حیران ہوا اور نقشہ نکال کر دیکھنے لگا اور حیرت سے بولا:”نقشے میں تو اس جگہ کوئی جزیرہ نہیں ،معلوم نہیں یہ کہاں سے آگیا۔یہ کوئی جادو کا جزیرہ تو نہیں؟“ہم سب اس کی یہ بات سن کر ہنس پڑے۔
جزیرہ کھیل کے میدان جتنا وسیع تھا اور اس پر نرم نرم زرد رنگ کی گھاس لہرا رہی تھی ۔
کپتان نے ملاحوں کو حکم دیا:”باد بان کھول دو اور جہاز کو جزیرے کے قریب لے جاؤ۔“پھر ہم سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:”تم میں سے جو مسافر بھی مختصر وقت کے لئے جزیرے پر جانا چاہے ،اسے میری طرف سے اجازت ہے۔“
ہمارے لئے بڑی غیر متوقع بات تھی ۔ہم بیس کے قریب مسافر جزیرے پر اُترے اور اِدھر اُدھر چہل قدمی کرنے لگے ۔کباب ہماری پسندیدہ غذا تھی ۔
دو چار آدمی جہاز سے لکڑیاں اُتارے لائے اور آگ جلانے کی تیاری کرنے لگے ۔ہم بہت خوش تھے اور ایک دوسرے سے خوب مذاق کر رہے تھے ۔ابھی کباب بھوننے شروع کیے تھے کہ جزیرے نے آہستہ آہستہ ہلنا شروع کر دیا۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے جزیرہ اپنی جگہ سے خاصا ہٹ گیا ۔اس کے بعد ہم نے شدید جھٹکا محسوس کیا ۔ہر شخص یہی سمجھا کہ زلزلہ آرہا ہے۔
اتنے میں جہاز کے کپتان کی آواز آئی:”جلدی واپس آؤ ورنہ مچھلی پانی میں واپس چلی جائے گی ․․․․․جلدی کرو،جلدی۔

تب ہمیں پتا چلا کہ جسے ہم جزیرہ سمجھ رہے ہیں وہ کوئی بہت بڑی مچھلی تھی جو دھوپ سینکنے کے لئے سمندر کی سطح پر آئی ہوئی تھی۔
مسافروں میں سے جو تیرز رفتار تھے وہ تیر کر جہاز پرپہنچ گئے ۔کچھ درمیان میں ڈوبنے لگے اور میں تو ابھی مچھلی کی پشت پر ہی تھا کہ اتنے میں اس مچھلی نے پانی میں ڈبکی لگانا شروع کر دی۔بڑا عجیب منظر تھا۔
مچھلی آہستہ آہستہ نیچے لہروں میں جارہی تھی اور میرے چاروں طرف پانی بلند ہو رہا ہے ۔کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ جزیرہ نہیں ،بلکہ مچھلی ہے ۔مجھے اور تو کچھ سمجھ نہ آیا تو میں نے جلدی سے لکڑی کا ایک ٹکڑا پکڑ لیا اور جلانے کی غرض سے جزیرے پر لایا گیا تھا۔آخری منظر جو میں نے دیکھا یہ تھا کہ ملاحوں کا شوروغل برپا تھا اور جہاز مجھ سے دور ہوتا جا رہا تھا۔
اتنی بڑی مچھلی کے پانی میں غوطہ لگانے کی وجہ سے پانی میں بھونچال سا آگیا۔سخت گھبراہٹ کا وقت تھا میں نے مضبوطی سے لکڑی کو اپنے دونوں بازوؤں میں لے لیا اور آنکھیں بند کرلیں ۔میں کچھی لہروں کے اوپر ہوتا کبھی نیچے ۔چند گھنٹے بعد اندھیرا چھا گیا اور بارش شروع ہو گئی ۔میرا خوف سے بُرا حال تھا۔مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں ساری رات کہاں بتہا رہا۔
آخر خدا خدا کرکے صبح ہو گئی اور دور ساحل کی زمین نظر آنے لگی ۔موجیں آہستہ آہستہ مجھے ساحل کی طرف لے گئیں اور میں اوندھے منہ گیلی ریت پر لیٹ گیا۔سردی ،تھکن اور بھوک سے میری جان نکلی ہوئی تھی ۔منہ میں بھی کچھ پانی چلا گیاتھا ۔کتنی ہی دیر اسی حالت میں لیٹا رہا۔جب سورج ذرا بلند ہوا تو اس کی شعاعوں سے جسم میں کچھ حرارت پیدا ہوئی اور میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
سامنے ایک جزیرہ پھیلا ہوا تھا۔میں گزشتہ دن والے واقعے سے اتنا ڈرا ہوا تھاکہ مجھے لگا کہ شاید یہ بھی کوئی مچھلی نہ ہو ۔اسی غرض سے میں نے اپنا قدم چند مرتبہ زور زور سے زمین پر مارا،لیکن وہاں پر گیلی زمین کے سوا کچھ نہ تھا۔میں نڈھال بھی ہو چکا تھا اور کمزور بھی ،لیکن پھر بھی ہمت کرکے کچھ آگے بڑھا اور چند جڑی بوٹیوں سے اپنی بھوک مٹائی۔
جب ذرا جان میں جان آئی تو چل پھر کر جزیرے کا جائزہ لینے لگا۔
جزیرے کے درمیان گھاس کا ایک میدان تھا جہاں چند حبشی ،گھوڑے چرا رہے تھے ۔مجھے دیکھ کر انھوں نے نعرہ لگایا اور دوڑ کر میرے قریب آگئے۔ یہ چار پانچ لمبے قد کے مضبوط جسموں والے لوگ تھے ۔ان کا رنگ سیاہ اور دانت سفید تھے ۔وہ مجھ سے کسی اجنبی زبان میں بات کرنے لگے ۔پہلے تو میں نے اشاروں سے جواب دینے کی کوشش کی جب ان کی سمجھ میں نہ آئی تنگ آکر عربی میں کہا:”تم کون ہو؟“
ایک بوڑھا حبشی آگے بڑھا اور مجھے عربی میں جواب دینے لگا:” یہی تو ہم تم سے پوچھ رہے ہیں کہ تم کون اور اس جزیرے پر کیسے آئے ہو؟“
میں نے انھیں اپنی ساری کہانی سنادی۔
وہ میرے ساتھ بڑے احترام سے پیش آئے اور اپنے خیمے میں جاکر کھانا کھلایا۔پھر کہنے لگے :”نو جوان !تم دل مضبوط رکھو۔تم ایک رحم دل بادشاہ کے ملک میں ہو ۔ہم سب اس کے غلام ہیں اور روزانہ یہاں شاہی گھوڑے چرانے لاتے ہیں ۔ہم تمھیں دربار میں پیش کریں گے ۔بادشاہ تمھیں دیکھ کر یقینا بہت خوش ہو گا۔“
یہ سن کر میری ہمت بڑھی اور پچھلے واقعات کا خوف دور ہوا۔
میں نے ان کا شکریہ ادا کیا ۔شام کو وہ مجھے شاہی محل میں لے گئے جو آبادی کے درمیان میں بنا ہوا تھا۔
اگلے دن میں بادشاہ کے سامنے حاضر ہوا۔بادشاہ نے میری کہانی سن کر مجھے تسلی دی اور کہا کہ تم میرے مہمان ہو۔جب تک چاہو یہاں رہو ۔اس کے بعد بادشاہ نے حکم دیا کہ شاہی مہمان کی حیثیت سے میرا مکمل خیال رکھاجائے ۔چنانچہ میں زندگی کے باقی دن وہاں گزارنے لگا۔
ہر وقت مایوس اور غمگین رہنے لگا،کیونکہ جو کچھ میرے پاس تھا وہ بھی ضائع ہو گیا اور گھر والے بھی چھٹ گئے ۔اسی جزیرے پر ایک بندرگاہ تھی جہاں ساری دنیا سے تجارتی جہاز آتے جاتے تھے ۔بندرگاہ اتنی بڑی تھی کہ لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے ہر وقت میلے کا سماں رہتاتھا ۔میں اکثر اوقات وہاں چلا جاتا تھا اور کچھ وقت گزار کر واپس چلا آتا۔ ایک دن میں دوپہر کے وقت وہاں کھڑا تھا کہ ایک جہاز آکر رکا۔

ملاحوں نے لنگر ڈال دیا اور تجارتی سامان اُتارنا شروع کر دیا۔تاجر اپنا اپنا سامان وصول کرکے گوداموں میں جانے لگے ۔اچانک میری نظر چند گٹھوں پر پڑی جن پر موٹے حروف سے میرا نام لکھا ہوا تھا ۔اتنے میں میں نے کپتان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ ملاحوں کو حکم دے رہا تھا :”سند باد کا سامان ادھر علیحدہ ایک طرف رکھ دیا اس کا سامان دوسرے سامان میں نہ ملنے پائے۔

میں نے کپتان کی شکل وصورت پر غور کیا تو یاد آیا کہ یہ وہی ہے جس کے ساتھ میں نے سفر شروع کیا تھا۔میں دوڑ کر اس کے پاس گیا اور ابتدائی سلام دعا کے بعد بتایا کہ میں ہی سندباد ہوں جس نے اس کے ساتھ سفر شروع کیا تھا ایک جزیرہ نما مچھلی کی وجہ سے اس سے جدا ہو گیا۔کپتان نے میری بات کا یقین کرنے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا کہ جب مچھلی نے پانی میں غوطہ لگایا تو سندباد ہماری آنکھوں کے سامنے ڈوب گیا تھا۔

میں نے اس سے بحث کی اور کئی نشانیاں بتائیں ۔آخر وہ مطمئن ہو گیا اور میرا سامان میرے حوالے کردیا۔میں نے سامان وہیں بندرگاہ کے گودام میں رکھوایا اور شاہی محل کی طرف چل پڑا۔میرا بس نہ چلتا تھا ورنہ اُڑ کر بادشاہ کے پاس پہنچ جاتا اور اسے بتایا کہ میرا تجارتی سامان اتفاق سے دوبارہ مل گیا ہے۔
بادشاہ کو جب اس بات کی خبر ملی تو وہ بھی خوش ہوا اور میرے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
اس کے بعد میں چند دن مزید اس جزیرے پر رکا،پھر بادشاہ سے اجازت لے کر رخصت ہوا۔اس نے تحفے تحائف دے کر مجھے روانہ کیا۔
اس کے بعد میں راستے میں کئی بندرگاہوں پر اُترا۔اپنا پرانا مال بیچا اور نیا خریدا ۔ایک طویل مدت کے بعد میں اپنے شہر واپس لوٹا۔جب گھر پہنچا تو قبیلے والوں نے میراپر تپاک خیر مقدم کیا اور ایک بہت بڑی ضیافت بھی کی ۔

میرے ساتھ تجارتی سامان کے طور پر صندل کی لکڑی ،مور اور برگد کے مرتبان ،لونگ ،دار چینی،گلاب کے عطریات ،کافور،سونے چاندی کے زیورات ،ریشم وحریر کے کیڑے اور بہت سے جواہرات تھے ۔یہ سارا سامان ہمارے شہر میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔مجھے تجارت میں تقریباً ایک لاکھ سونے کے سکوں کا نفع ہوا۔
میں نے ایک باغ خریدا اور اس میں ایک عالی شان مکان بنوایا۔اس طرح آرام وسکون کی زندگی گزارنے لگا۔جلد ہی میں ماضی کی ساری تکلیفیں اور مصائب بھول گیا اور خوش وخرم رہنے لگا۔

Browse More Moral Stories