Akhri Darwaza - Article No. 1123

آخری دروازہ - تحریر نمبر 1123
گورنمنٹ ہائی اسکول میں عبدالحمید نامی ایک نئے استاد مقرر ہوئے وہ دوسرے استادوں سے ذرا مختلف تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ طلبا نصاب کے ساتھ ساتھ مختلف انداز سے اپنا دماغ استعمال کریں تاکہ کچھ سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو۔
جمعرات 24 مئی 2018
بلال الرشید:
گورنمنٹ ہائی اسکول میں عبدالحمید نامی ایک نئے استاد مقرر ہوئے وہ دوسرے استادوں سے ذرا مختلف تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ طلبا نصاب کے ساتھ ساتھ مختلف انداز سے اپنا دماغ استعمال کریں تاکہ کچھ سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو۔ ایک دن انہوں نے اعلان کیا کہ آج کے ٹیسٹ میںناکام ہونے والا جو طالب علم اپنی غلطی کو کوئی مناسب وجہ بیان کرے گا اسے معاف کر دیا جائے گا۔
(جاری ہے)
پھر آخری بچے کی باری آئی اس کا نام عنایت تھا اگر وہ بھی اپنی غلطیوں کی کوئی دلیل پیش کر دیتا تو یہ کلاس معمول کے انداز میں ختم ہو جاتی۔ ماسٹر صاحب نے ہاتھ آگے بڑھایا کہ عنایت اپنا پرچا انھیں دکھائے۔ اس کی آنکھیں آنسوو¿ں سے بھری تھیں اور خوف کی شدت سے وہ کانپ رہا تھا پرچا اس کے ہاتھ سے گر گیا۔ماسٹر صاحب نے پوچھا:” کتنی غلطیاں ہیں؟۔“بڑی مشکل سے وہ سرگوشی میں بولا::” ماسٹر صاحب! میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے۔ مجھے معاف کر دیجئے۔“ ماسٹر صاحب کو یوں محسوس ہوا، آسمان سے جیسے ایک بجلی ان کے دل پر آگری ہو، ہو لرز کر رہ گئے وہ کرسی پر بیٹھ گئے اور اس کے الفاظ دہرانے لگے:” میرا توسب کچھ ہی غلط ہے مجھے معاف کر دیجیے۔“ وہ یہ جملہ دہراتے اور عنایت کی طرف دیکھتے۔بچوں نے دیکھا کہ ماسٹر صاحب بھی عنایت کی طرف کانپ اُٹھے ہیں جیسے عنایت کانپ رہا تھا۔ کچھ لمحے بعد ماسٹر صاحب کے اوسان بحال ہوئے انہوں نے عنایت سے کہا:”وہ کوئی ایک وجہ تو بتائے، کوئی عذر تراشے۔“ سب کو اندازہ تھا کہ وہ عنایت کو معاف کرنا چاہتے تھے۔ روتے، کانپتے عنایت سے کہا:” میرے پرچے میںکوئی ایک لفظ بھی درست نہیں۔ میںبھلا اپنا بچاو¿ کس طرح کر سکتا ہوں۔ ماسٹر صاحب! آپ اگر معاف کرتا چاہیں تو کسی عذر کے بغیر بھی معاف کر سکتے ہیں۔“ یہ سن کر ماسٹر صاحب کو ایک اور جھٹکالگا۔ عنایت سے مکمل طور پر خود کو ماسٹر صاحب کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا تھا۔جب عنایت سزا کے خوف سے کانپ رہا تھا۔ ماسٹر صاحب نے خیالوں ہی خیالوں میں خود کو روزِ محشر رب ذوالجلال کی عدالت میں پایا۔ انہیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے عنایت کے ہاتھ سے گرنے والا پر چادراصل ان کا نامہ¿ اعمال ہے۔ ایک ایک کر کے انہیں اپنی زندگی کی تمام غلطیاں ، ایک ایک گناہ یاد آرہا تھا۔ چشمِ زدن میں انھوں نے اپنی پوری زندگی پہ ایک نگاہ دوڑالی تھی۔ انھیں ایسا لگا کہ ان کے نامہ¿ اعمال میں غلطیاں ہی غلطیاں ہیں۔ سب کچھ ہی تو غلط ہے انہیں یہ محسوس ہو رہا تھا کہ خدا کے حضور اپنے دفاع میںکہنے کے لیے ایک لفظ بھی ان کے پاس موجود نہیں۔
انسان کے پاس جب اپنی صفائی میںکہنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا تو وہ خود کو پروردگارِ عالم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ عنایت کی وجہ سے ماسٹر صاحب پہ قیامت کی وہ گھڑی طلوع ہو چکی تھی۔ حشر سے پہلے ہی اپنے رب کے حضور وہ پیش ہو چکے تھے۔ وہ دل میںعنایت کے شکر گزار تھے۔ آج ایک طالب علم کی وجہ سے استاد کو توبہ کی توفیق ہو ئی تھی انسان وقتی طور پر بہک جاتا ہے لیکن خلوص سے کی جانے والی توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔ جس طرح ایک طالب علم نے خود کو استاد کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا تھا، استاد نے خود کو رحمت پروردگار کے سپرد کر دیا تھا۔ یہ توبہ کی گھڑی تھی۔ انسان کے پاس سچی توبہ کی صورت میں ایک ایسی چابی موجود ہے جس سے رحم و کرم کے درکھولے جاسکتے ہیں استاد نے بچوں سے کہا:” جب سب دروازے بند ہو جائیں اور انسان کے پاس عذر تراشنے کا موقع بھی نہ ہو تو اس وقت صرف توب کا دروازہ کھلا ہوتا ہے۔“ استاد نے عنایت کو گلے لگاتے ہوئے اس سے کہا:” اگر آئندہ تم محنت اور توجہ سے پڑھنے کا وعدہ کرو تو میں تمہیں معاف کرتا ہوں۔“عنایت نے وعدہ کیااور خوشی خوشی اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔
Browse More Moral Stories

بے بس بادشاہ
Bebas Badshah

پکّی دوستی
Pakki Dosti

نابینا فقیر کی دانشمندی
Nabina Faqeer Ki Danishmandi

ابھی تو عمر باقی ہے۔۔تحریر:رحمت اللہ شیخ
Abhi To Umar Baki Hai

کامل یقین
Kamil Yaqeen

پانچواں مجرم
Panchwaan Mujrim
Urdu Jokes
مریض ڈاکٹر سے
Marez Doctor se
تسبیح
tasbih
ایک شخص
aik shakhs
دعوت
dawat
ایک صاحب
Aik sahib
ایک آدمی
Aik admi
Urdu Paheliyan
گوری ہے یا کالی ہے
gori hai ya kali hai
لیٹی لیٹی گھر تک آئے
leti leti ghar tak aye
بے شک اس کو مارا کوٹا
beshak usko mara kota
بے شک دن بھر پیتے جائیں
beshak din bhar peety jaye
ہرا ہرا یا پیلا پیلا
hara hara ya peela peela
جانے بوجھے ایک خدائی
jany bojhy ek khudai