Allah Meri Tauba - Article No. 2335

Allah Meri Tauba

اللہ میری توبہ - تحریر نمبر 2335

اللہ پاک کے حضور گڑگڑا کر دعا کی کہ آئندہ مال کی خیرات دینے میں بالکل کنجوسی نہیں کریں گے اور باپ کے نقشِ قدم پر چلیں گے

پیر 22 اگست 2022

محمد عمر امتیاز
باغ کافی بڑے رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔غریبوں کا حق بانٹنے کے بعد جو پھل اور میوے بیچے جاتے اس رقم میں سے بھی مالک غریبوں کا حصہ الگ رکھتا۔پورے قصبے میں کوئی بھی شخص ایسا نہ تھا جو اسے دعائیں نہ دیتا ہو۔
ایک دن وہ آدمی اچانک وفات پا گیا۔پورے قصبے کے لوگ شدید غم و الم میں ڈوب گئے۔اس آدمی کے تین بیٹے تھے۔
اتنا مال و دولت ہونے کے باوجود بھی ان کے دل بہت چھوٹے تھے۔تین دن تک تو وہ باپ کی وفات کا کھانا غریبوں اور فقیروں کو کھلاتے رہے،مگر چوتھے دن رات کو تینوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ والد صاحب چونکہ دور اندیش نہیں تھے،اس لئے وہ مزید دولت جمع نہ کر سکے۔اب ہم تینوں مل کر خوب دولت جمع کریں گے۔کسی کو بھی کوئی پھل،میوہ مفت نہیں دیں گے۔

(جاری ہے)


اللہ پاک کو ان کا یہ بخل پسند نہیں آیا۔

دوسرے دن صبح ملازم روتے پیٹتے ان کے گھر پہنچے اور بتایا کہ باغ خود بخود جل کر خاک ہو گیا۔ایک درخت بھی نہیں بچا۔تینوں بھائی حواس باختہ سے باغ کی طرف بھاگے۔دیکھا تو بالکل ایسا منظر تھا جیسے جلتی ہوئی گھاس پھونس۔تینوں سمجھ گئے کہ یہ سب ہماری خراب نیت کا نتیجہ ہے۔وہ گھر واپس آ گئے اور اللہ پاک کے حضور گڑگڑا کر دعا کی کہ آئندہ مال کی خیرات دینے میں بالکل کنجوسی نہیں کریں گے اور باپ کے نقشِ قدم پر چلیں گے۔

دوسرے روز صبح تڑکے ہی وہ باغ پہنچے تو ایک حیرت انگیز منظر ان کا منتظر تھا۔کیا دیکھتے ہیں کہ جیسے یہ باغ کبھی جلا ہی نہ ہو۔پورا باغ لہلہاتے پھولوں،پھلوں اور میوؤں سے لدا ہوا تھا۔تینوں نے اللہ پاک کا شکر ادا کیا کہ اللہ پاک نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔
اب پھل اُتارے جا رہے تھے۔غریبوں کو بھی بھر بھر کر پھل اور میوے بانٹے جا رہے تھے۔ان پھلوں کا ذائقہ اتنا شیریں تھا کہ پورے قصبے میں ان کی دھوم مچ گئی۔

Browse More Moral Stories