Amanat - Article No. 2062

Amanat

امانت - تحریر نمبر 2062

شاید کسی نے غلطی سے گھر کے کوڑے کے ساتھ ہی اسے بھی پھینک دیا ہو گا

منگل 14 ستمبر 2021

تحریم خان
گل رحمان ایک یتیم لڑکا تھا،جو اپنی ماں کے ساتھ ایک کچی آبادی میں واقع چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا،اس کے والد مزدور پیشہ تھے،جو دو سال پہلے ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔والد کی موت کے وقت گل رحمان کی عمر گیارہ سال تھی اور وہ چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ اس کی ماں لوگوں کے گھروں کے کام کرنے لگی اور اس طرح اپنا اور اپنے بیٹے کا پیٹ پالنے لگی۔
اس نے گل رحمان کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔
گل رحمان فجر کی اذان ہوتے ہی اپنی ماں کے ساتھ اُٹھ جاتا اور مسجد جا کر نماز ادا کرتا۔مسجد جاتے ہوئے وہ روزانہ ایک لڑکے کو کوڑے دان میں سے ردی کاغذ،پلاسٹک کی بوتلیں،خالی ڈبے وغیرہ چنتے ہوئے دیکھتا۔ایک صبح گل رحمان نے لڑکے سے پوچھا:”تم ردی اور کچرا وغیرہ اِکھٹا کرکے کیا کرتے ہو؟“
لڑکے نے بتایا:”یہ میں ٹھیکے دار کو بیچ دیتا ہوں،وہ مجھے ان ردی چیزوں کے سو،دو سو روپے دے دیتا ہے۔

(جاری ہے)


گل رحمان کے ذہن میں اچانک یہ بات آئی کہ اگر وہ بھی یہ کام کرے تو اسے بھی روزانہ اتنے ہی روپے مل سکتے ہیں۔اس نے اپنی ماں سے اس کام کا ذکر کیا تو انھوں نے منع کر دیا۔وہ روزانہ اپنی ماں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا کہ وہ اسے کام کرنے کی اجازت دے دے۔آخر ماں نے ایک دن اسے اجازت دے دی،مگر اس شرط کے ساتھ کہ اس کی پڑھائی کا نقصان نہ ہونے پائے۔

اب اس کا یہ معمول بن چکا تھا کہ وہ صبح سویرے اُٹھ کر اپنے علاقے کے کوڑے دانوں سے ردی کاغذ،خالی ڈبے،بوتلیں اور دوسری چیزیں اِکھٹا کرتا اور گھر آکر رکھ دیتا،پھر ناشتہ کرکے اسکول چلا جاتا۔شام کو جمع شدہ ردی ایک تھیلے میں ڈال کر ٹھیکے دار کو دے آتا۔
دسمبر کا مہینہ تھا۔شدید سردی پڑ رہی تھی۔ابھی اُجالا پوری طرح نہیں پھیلا تھا،لیکن گل رحمان معمول کے مطابق صبح سویرے کام کے لئے گھر سے نکل پڑا۔
گل رحمان کوڑے دان سے ردی وغیرہ اُٹھانے میں مصروف تھا۔گھر آکر اس نے کچرے کا تھیلا ایک طرف رکھ دیا۔
شام کو جب وہ جمع شدہ ردی چیزیں چھانٹ رہا تھا تو اس کی نظر کالے رنگ کے ایک چھوٹے سے شاپر پر پڑی،جس میں ایک ڈبا تھا۔اس نے جب وہ ڈبا کھولا تو اس میں سونے کا ایک چھوٹا سا ہار اور دو بندے دکھائی دیے۔اس نے وہ ڈبا فوراً اپنی ماں کو دکھایا اور پوچھا:”ماں !یہ ڈبا مجھے کوڑے دان سے ملا ہے۔
اس میں سونے کا ایک ہار اور دو بندے ہیں۔اب آپ بتائیں کہ میں اس کا کیا کروں؟“
ماں نے کہا:”بیٹا!یہ کسی کی امانت ہے۔شاید کسی نے غلطی سے گھر کے کوڑے کے ساتھ ہی اسے بھی پھینک دیا ہو گا۔تم ایسا کرو کہ مسجد کے امام صاحب کو یہ تمام باتیں بتا دو،وہ ضرور کوئی صحیح مشورہ دیں گے۔“
گل رحمان امام صاحب کے پاس پہنچا اور تمام واقعہ سنا دیا۔
امام صاحب نے گل رحمان سے کہا کہ وہ کسی اور سے اس کا ذکر نہ کرے۔کل جمعہ ہے۔وہ نماز جمعہ پڑھنے آئے تو احتیاط سے ڈبا شاپر میں رکھ کر انھیں دے دے۔
گل رحمان نے ایسا ہی کیا۔امام صاحب نے ڈبا اپنے پاس رکھ لیا اور نماز سے پہلے یہ اعلان کیا کہ گل رحمان نامی ایک لڑکے کو محلے کے کوڑے دان سے ایک ڈبا ملا ہے،جو اس نے امانت کے طور پر میرے پاس رکھوا دیا ہے۔
اس میں سونے کی کچھ چیزیں ہیں۔جن صاحب کا یہ ڈبا ہو،وہ نماز کے بعد نشانیاں بتا کر مجھ سے لے جائیں۔نماز کے بعد ایک صاحب نے امام صاحب سے کہا کہ وہ ڈبا میرا ہے،میں بتا سکتا ہوں کہ اس ڈبے میں کیا کیا ہے۔
امام صاحب کے پوچھنے پر انھوں نے وہی چیزیں بتائیں جو ڈبے میں تھیں۔مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ پرسوں شام میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ایک شادی کی تقریب میں گیا تھا۔
واپسی پر رات زیادہ ہو گئی تھی،اس لئے تھکاوٹ اور نیند کی وجہ سے میری بیٹی نے زیورات کا ڈبا شاپر میں رکھ کر بے پروائی سے میز پر رکھ دیا اور سو گئی۔وہ زیورات شاید اس کا ہاتھ لگنے سے میز پر سے کسی طرح نیچے رکھے ڈسٹ بن میں گر گئے۔میں نے صبح ڈسٹ کا کچرا دوسرے کچرے کے ساتھ کوڑے دان میں پھینک آیا۔شام کو دفتر واپس گھر آیا تو معلوم ہوا کہ وہ ڈبا جس میں ہار اور بندے تھے،وہ نہیں مل رہا ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ گل رحمان کی ایمان داری کی وجہ سے وہ زیورات اب تک محفوظ ہیں۔
امام صاحب جب پوری طرح مطمئن ہو گئے تو چند نمازیوں کی موجودگی میں وہ زیورات ان صاحب کے حوالے کر دیے۔انھوں نے امام صاحب کا شکریہ ادا کرکے گل رحمان کو گلے سے لگا لیا اور اسے انعام دینے کی کوشش کی،مگر اس نے انعام لینے سے انکار کر دیا۔
گل رحمان کے اس کارنامے کی خبر،جب اس کے سکول پہنچی تو ہیڈ ماسٹر اور سارے اساتذہ بہت خوش ہوئے۔ہیڈ ماسٹر صاحب نے اس کا ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا اور یہ اعلان کیا کہ آئندہ اس کے تمام تعلیمی اخراجات سکول فنڈ سے ادا کیے جائیں گے۔
گل رحمان نے یہ خوشخبری اپنی ماں کو سنائی تو اس نے بیٹے کو گلے سے لگا لیا۔

Browse More Moral Stories