Amish - Saadgi Sachai Or Qadeem Rewayatoon Se Jura Hua Haseen Qabila - Article No. 1452

Amish - Saadgi Sachai Or Qadeem Rewayatoon Se Jura Hua Haseen Qabila

آمِش سادگی سچائی اور قدیم روایتوں سے جڑا ہوا حسین قبیلہ - تحریر نمبر 1452

آمش قبیلے کے بارے میں کبھی کہیں پڑھا تھا۔ان کی دلچسپ اور حیرت انگیز باتیں سن کر ان لوگوں سے ملنے یا انہیں دیکھنے کی خواہش شدید تر ہو گئی۔

ہفتہ 22 جون 2019

سلیم مغل
آمش قبیلے کے بارے میں کبھی کہیں پڑھا تھا۔ان کی دلچسپ اور حیرت انگیز باتیں سن کر ان لوگوں سے ملنے یا انہیں دیکھنے کی خواہش شدید تر ہو گئی۔اپنے گزشتہ دورہ امریکہ میں ان کی طرف نہ جا سکا تھا جس کا بہت ملال تھا۔اپنے دوسرے پھیرے میں اس موقعے کو ضائع نہیں کیا جا سکتا تھا،سو اپنے عزیز دوست ڈاکٹر فضل محمود کے ساتھ میں نے ایک بھر پور دن ان کے مختلف گوٹھوں میں گزارا۔

سچ کہتا ہوں مزہ آگیا ۔میں اس دورے کو امریکی دورے کا حاصل کہوں تو غلط نہ ہوگا۔آمش امریکا کی لگ بھگ اکتیس ریاستوں میں آباد وہ قدیم باشندے ہیں جو صدیوں قبل جرمنی اور اس کے اطراف سے چلے اور امریکا آکر یہاں مختلف ریاستوں میں مقیم ہو گئے۔
کھیتی باڑی یا زراعت سے متعلقہ کام ان کا پیشہ تھا جو آج تک ہے ۔

(جاری ہے)

ان کی بڑی تعداد امریکی ریاست پنسلو ینیا میں آباد ہے جو 35ہزار خاندانوں پر مشتمل ہے۔

ہم اس وقت جس علاقے میں موجود ہیں ،اس کا نام”لنکا سٹر “ہے۔
آمشی علاقوں کا حسن یہ ہے کہ یہ لوگ نئے عہد میں بھی اپنی پرانی روایتوں اور قدیم طور طریقوں سے چمٹے ہوئے ہیں اور کسی طور اپنے آپ کو نئے عہد سے جوڑنے کو تیار نہیں۔حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے علاقوں میں بجلی تک استعمال نہیں کرتے،اپنی اندھیری راتوں کو آج بھی قدیم طرز کے لیمپ اور فانوس سے اجالے ہوئے ہیں۔

فطرت اور فطرت کے حسن سے جڑے یہ لوگ سادگی اور سچائی کا عجب نمونہ ہیں۔بڑی بڑی خواہشوں سے کوسوں دور یہ قناعت پسند آمش اپنی محدود دنیا میں خوش اور مگن ہیں ۔انداز ہ لگائیے کہ ان کے پاس کل چار جوڑے کپڑے ہوتے ہیں ۔اس سے زیادہ کا تصور بھی نہیں کرتے ۔ایک پہننے کے لئے ،ایک دھلائی کے لئے ایک پیشہ ورانہ کام کے لئے اور ایک شائد کسی تقریب کے لئے۔

آمش کسی بنک میں اکاؤنٹ نہیں کھولتے۔سودی کا روبار سے دور رہتے ہیں۔ٹیکس دیتے ہیں ،مگر ٹیکس کے بدلے کوئی سہولت نہیں لیتے۔قناعت اور سادگی نے ان کی زندگی کو ایک خاص طرح کے حسن سے بھر دیا ہے ۔ان کی آنکھوں میں جادو ہے اور ان کے چہروں پہ مقنا طیسی کشش۔
آمش لوگ کسی ڈاکٹر سے جدید ادویات کے ذریعہ اپنا علاج نہیں کرواتے۔گھریلو ٹوٹکے زیادہ سے زیادہ ہو میو پیتھی طریقہ علاج سے کام چلا لیتے ہیں ۔
محنت اور فطرت سے قریب رہنے کے باعث ہمیشہ چاک وچو بند رہتے ہیں ۔تازہ اور خالص غذاؤں کا استعمال انہیں ہمیشہ صحت مند رکھتا ہے۔
لیجیے کچھ شادی بیاہ کے بارے میں بھی سن لیجئے۔شادی کے لئے اماں ابارشتہ نہیں ڈھونڈتے ۔لڑکا اپنی دلہن خود پسند کرتا ہے ،مگر لڑکی سے خود نہیں کہہ سکتا۔اگر اظہار کر بیٹھا تو لفنگا کہلا ئے گا۔لڑکا اپنی پسند کا اظہار اپنے مذہبی راہ نما یعنی بشپ سے کرتا ہے اور بشپ صاحب اسے بہت اہمیت دیتے ہیں ۔
وہ لڑکی کے اہل خانہ سے مل کر معاملات کا جائزہ لیتے ہیں ۔کوئی رکاوٹ نہ ہوتو شادی ہو جاتی ہے ۔شادی کی تقریب میں پانچ یا چھے سو افراد شریک ہوتے ہیں ۔شادی کے دن دو لہا دلہن کو تحفہ دینے کا رواج نہیں ہے ۔شادی کے بعد دولہا دلہن ہنی مون منانے کے لئے ایک بگھی میں گھومنے نکلتے ہیں ۔اور گھومنا بھی کیا، وہ ہر اس گھر تک جاتے ہیں جس کے مکین ان کی شادی میں شریک ہوئے تھے ۔
نو بیا ہتا جوڑا ان کا شکریہ ادا کرتا ہے اور جواب میں میزبان انہیں تحفہ پیش کرتاہے۔وہ تحفہ جو شادی کی تقریب میں اُنہیں نہیں دیا گیا تھا،لیجئے وہ تحفہ اب حاضر ہے ۔جس بگھی میں یہ نو بیا ہتا جوڑا گھومنے کے لئے نکلتا ہے وہی بگھی یہاں کی عمومی سواری ہے ۔جدید ٹرانسپورٹ کو استعمال کرنے سے عموماً گریز کیا جاتاہے۔
خواتین شادی سے قبل سفید ایپرن پہنتی ہیں۔
شادی کے وقت یہ ایپرن سنبھال کے رکھ لیا جاتا ہے جو بعد از مرگ پہنایا جاتا ہے ۔شادی کے وقت لڑکے پر لازم ہے کہ وہ مختصر سی علامتی داڑھی کا آغاز کر دے۔
کسی کی لمبی داڑھی دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ اس کی شادی مدتوں پہلے کبھی ہوئی ہو گی ۔لڑکی کو سفید ایپرن میں دیکھیں تو سمجھ لیں کہ ابھی لڑکی کی شادی نہیں ہوئی۔یاد رکھیے کہ آمشوں کے ہاں طلاق یا علیحدگی کا کوئی تصور نہیں ۔
میاں بیوی آخری سانسوں تک ایک دوسرے کے اچھے ساتھی بن کر رہتے ہیں۔
بچے پبلک اسکول نہیں جاتے،بلکہ اپنی برادری کے قائم کردہ اسکول کارخ کرتے ہیں۔آٹھویں تک روایتی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہنر سیکھتے ہیں۔ یہاں ہنر مندی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے ۔ایک بات جان کر کتنا اچھا لگا۔دو کان دار اپنی دوکان پر رکھی اشیاء کی قیمت وہیں لکھ دیتے ہیں اور ساتھ ہی ایک بکس بھی رکھ دیتے ہیں۔
آپ مطلوبہ چیز کی قیمت پڑھیں اور پیسے بکس میں ڈال دیں۔ آپ نے اگر بکس میں پیسے کم ڈالے تو اس پر خفا ہونے کے بجائے سمجھیں گے کہ آپ کی کوئی مجبوری ہوگی ورنہ آپ تو ایسے نہیں کہ جان بوجھ کر کم پیسے ڈالیں ۔واہ کیا کہنے
ڈچ اور انگریزی زبانیں بولتے ہیں۔عیسائیت ان کا مذہب ہے ،مگر پوری بستی میں کوئی چرچ نہیں۔اس مقصد کے لئے ایک ماہ میں دوبار کوئی ایک طے شدہ گھر مذہبی عبادات ورسومات کے لئے اپنی خدمات پیش کرتاہے۔
صبح ہی سے کھانے پکانے اور مہمانوں کے استقبال کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔
اس پورے سفر میں سارہ میری راہ نما اور گائیڈ تھیں۔سارہ نے ہمیں بہت مزے مزے کی باتیں بتائیں۔
ہر نئے لمحے حیرتوں کے بہت سے درکھلے مگر بہت سی باتوں کو آئندہ کسی وقت کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں۔فی الوقت تو تصویریں دیکھئے اور میرے ساتھ اس منظر کا حصہ بن جائیے جو پوری طرح میری روح میں تحلیل ہو چکا ہے ۔

Browse More Moral Stories