Angothi Ka Hungama - Article No. 2100

Angothi Ka Hungama

انگوٹھی کا ہنگامہ - تحریر نمبر 2100

ایک انگوٹھی۔دو مجرم۔تین سہیلیاں۔چار سپاہی

جمعہ 29 اکتوبر 2021

مصباح شاہ
”تمہاری انگوٹھی تو بہت پیاری ہے اور اس کا نگینہ کتنا چمکدار ہے۔“عائشہ نے جنت کے ہاتھ میں نئی انگوٹھی دیکھ کر کہا جو اپنے جوتے کے تسمے باندھنے میں مصروف تھی۔
”اچھا!“جنت نے مصنوعی حیرت کا اظہار کیا اور مسکرانے لگی۔
گھنٹی بجی اور دونوں جلدی جلدی اسمبلی ہال کی طرف جانے لگیں۔وہ دونوں میٹرک کی طالبہ تھیں۔
چھٹی کے وقت سکول کے گیٹ کے باہر عائشہ جنت کا انتظار کر رہی تھی۔جنت اس کے سامنے آئی اور اپنی بند مٹھی عائشہ کے سامنے کرکے بولی:”بوجھو اس میں کیا ہے؟“
”مجھے کیا پتا!“عائشہ مسکرا کر بولی۔
جنت نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کاغذ میں لپٹی ہوئی کوئی چیز اس کے ہاتھ میں پکڑا دی۔عائشہ نے اسے کھولنا چاہا تو جنت جھٹ سے بولی:”نہیں نہیں،ابھی نہیں گھر جا کر کھولنا۔

(جاری ہے)

“وہ دونوں گھر کی طرف چل دیں۔
شام کو بازار میں عائشہ کی ملاقات جنت سے ہو گئی۔اس نے جنت سے کہا:”تم نے جو انگوٹھی مجھے دی ہے،وہ بہت ہی پیاری ہے۔کہاں سے لی تم نے؟“
”وہ تو مجھے صاحبہ نے دی تھی۔“
”یہ شور کیسا ہے؟مجھے لگتا ہے لڑائی ہو رہی ہے۔“
وہ دونوں آگے مجمع کی طرف بڑھیں۔انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ مل کر انکل ارسلان سے بحث کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مال واپس کرو،ورنہ تمہارا بُرا حشر کر دیں گے۔

انکل ارسلان کا کہنا تھا کہ انھیں تھوڑا سا وقت دیا جائے۔وہ نقصان کی تلافی کر دیں گے۔
عائشہ یہ سب دیکھنے میں محو تھی۔اچانک اسے محسوس ہوا کہ انگوٹھی اُنگلی میں سے نکل کر کہیں گر گئی۔بہت ڈھونڈنے پر بھی نہ ملی تو وہ دونوں اپنے اپنے گھر کی طرف بڑھ گئیں۔
دروازے پر دستک ہوئی۔جنت نے دروازہ کھولا عائشہ کی بہن حوریہ کو دیکھ کر اس نے پوچھا:”ارے حوریہ!تم․․․․․کیا ہوا؟“
حوریہ نہایت پریشانی کے عالم میں بولی:”عائشہ گھر پر نہیں ہے۔
میں دیکھنے آئی تھی کہ وہ تمہارے ہاں تو نہیں ہے!“
بازار میں اس کی انگوٹھی گم گئی تھی۔جب نہیں ملی تو وہ مجھے چھوڑ کر اپنے گھر چلی گئی تھی۔
”کون سی انگوٹھی؟“حوریہ نے پوچھا۔
”وہ انگوٹھی میں نے اُسے صبح دی تھی۔“
حوریہ نے جنت کی بات کاٹتے ہوئے کہا:”وہ انگوٹھی عائشہ نے صبح مجھے دکھائی تھی اس میں موجود نگینہ بہت چمک رہا تھا۔
میں نے اس سے وہ انگوٹھی مانگی اس نے مجھے دکھانے کے لئے دی اور اس کے بعد وہیں بھول گئی۔“
وہ دونوں باتیں کرتی ہوئی گلی کے کونے تک پہنچی تو جنت نے کہا:”دیکھو تو آج یہ گھر کھلا ہوا ہے،یہ تو ہمیشہ بند ہوتا ہے۔“
تجسس سے مجبور ہو کر وہ دونوں دروازہ کھول کر اندر کی طرف بڑھیں،لیکن اندر کا منظر دیکھ کر اور آوازیں سن کر دونوں کا دل اُچھل کر حلق میں آ گیا۔

”دیکھو مسٹر ارسلان!مجھے میرا ہیرا دو یا پھر اس کی قیمت دو۔ورنہ تم جانتے ہی ہو کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔“
وہ آدمی ارسلان کو دھمکا رہا تھا جب کہ ارسلان صاحب کرسی پر مایوس انداز میں بیٹھے ہوئے تھے۔
”میری بات سنیں،میری بیٹی نے غلطی سے وہ انگوٹھی جس میں ہیرا تھا،اپنی سہیلی کو دے دی ہے۔ہم ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں،جیسے ہی مل جائے گی،ہم آپ کے حوالے کر دیں گے۔
مجھے جانے دیں میں آپ کے پاس آپ کے ہیرے سمیت ہی آؤں گا۔“ارسلان صاحب التجائیہ انداز میں بولے۔
”ٹھیک ہے،لیکن آج رات تک کی مہلت ہے۔“وہ شخص جس کے چہرے پر نقاب تھا،اپنی لال آنکھیں پھاڑ کر بولا۔
ارسلان صاحب باہر نکل گئے۔دونوں آڑ میں ہو گئیں۔وہ آگے بڑھیں تو ایک طرف انھیں کچھ آہٹ محسوس ہوئی۔جنت اور حوریہ نے ایک کمرے کے دروازے کے اندر جھانکا تو وہاں سے عائشہ کی ایک جھلک نظر آئی۔
وہ زمین پر لیٹی ہوئی تھی اور ایک آدمی پستول لیے کھڑا تھا۔ اچانک اس آدمی کی نظر ان پر پڑی اور وہ انھیں پکڑنے کے لئے ان کی طرف بڑھا۔حوریہ جو جنت کے پیچھے کھڑے تھی،فوراً بولی:”ہم دونوں بھاگیں گی تو یہ ہم دونوں کو پکڑ لیں گے۔تم آہستہ آہستہ سے بھاگنا جب تک یہ تمہیں پکڑے گا۔میں جا کر کسی کو مدد کے لئے بلا لوں گی۔“
حوریہ نے فوراً بھاگنا شروع کیا۔
جنت تھکے تھکے انداز سے بھاگ رہی تھی۔اس آدمی نے جلد ہی جنت کو پکڑ کر رومال اس کی ناک پر رکھ دیا تو اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔
حوریہ بھاگتے بھاگتے گلی سے باہر نکل آئی۔گھبراہٹ کے مارے اسے لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے گھر کا راستہ ہی بھول گئی ہو۔اچانک اسے اپنے سامنے پولیس کی ایک گاڑی نظر آئی۔وہ بھاگتے ہوئے گاڑی کی طرف بڑھی۔ڈرائیور نے جب بچی کو اپنی گاڑی کے سامنے دیکھا تو فوراً گاڑی روک دی۔
حوریہ جلدی سے پولیس افسر کی طرف بڑھی اور انھیں سب کچھ جلدی جلدی بتانے لگی۔
حوریہ دوبارہ وہیں آئی جہاں سے وہ بھاگی تھی اور زور زور سے دروازہ پیٹنے لگی۔
باس نے کہا:”پہلے جا کر سوراخ سے دیکھو،کون ہے۔“
”جی باس!“گن والا آدمی دروازے کی طرف بڑھا:”باس!وہ لڑکی ہے جو بھاگی تھی۔“
”فوراً پکڑو اور اس سے پوچھو،شاید وہ انگوٹھی کے بارے میں جانتی ہو،ہمیں پتا چل جائے کہ انگوٹھی کہاں ہے۔

اس آدمی نے حوریہ کو اندر کی طرف کھینچا اور دروازہ بند کرنے کی کوشش کی۔حوریہ فوراً اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر روتے ہوئے بولی:”خدا کے لئے میری بہن کو چھوڑ دو پلیز پلیز۔“
اس لڑکی کی آواز بند کرو اور اسے بھی اندر لے جاؤ۔“باس حکم دیتا ہوا اندر چلا گیا۔
وہ آدمی جیسے ہی حوریہ کے منہ پر رومال رکھنے لگا،ویسے ہی اس آدمی کے منہ پر ایک زور دار مُکا پڑا۔
وہ زور سے زمین پر گرا۔
”ارے ہم لے کر جاتے ہیں اندر،اتنی جلدی کیا ہے۔“پولیس کے چار سپاہی جلدی سے اندر آئے اور اسے پستول کی زد پر لے لیا۔باس نے جھانک کر دیکھا کہ کیا معاملہ ہے۔اس پر بھی قابو پا لیا گیا۔جنت اور عائشہ دونوں کو ہوش میں لایا گیا۔
تھانے میں ارسلان اور اس کے باس کے بیان سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں مل کر غیر قانونی طریقے سے ہیروں کی اسمگلنگ کرتے ہیں اور کچھ دن پہلے ہی انھیں ایک بہت بڑے مافیا سے قیمتی ہیرا مہیا کرنے کا آرڈر ملا تھا۔
ارسلان صاحب نے وہ ہیرا حاصل کرکے ایک انگوٹھی میں جڑوا دیا تھا جیسے عام انگوٹھی پر ایک نگینہ لگا ہوتا ہے۔وہ انگوٹھی غلطی سے میز کی دراز میں رہ گئی۔ان کی بیٹی نے جب چمکتے ہوئے نگینے والی انگوٹھی دیکھی تو اُٹھا لی اور اپنی سہیلی جنت کی سالگرہ پر تحفہ میں دے دی۔جنت سے وہ انگوٹھی عائشہ تک پہنچی۔باس کو پتا چل گیا تو اس نے عائشہ کو اغوا کیا،تاکہ پوچھ سکے کہ انگوٹھی کہاں ہے؟
ارسلان اور اس کے ساتھیوں کو جیل بھیج دیا گیا۔
حوریہ نے وہ انگوٹھی لا کر پولیس افسر کو دے دی۔تھوڑی ہی دیر میں پورے محلے میں خبر پھیل گئی کہ حوریہ،جنت اور عائشہ نے مل کر اسمگلروں کو پکڑوایا ہے۔اگلے دن جب وہ تینوں سکول پہنچیں تو سارے بچے انھیں فخریہ انداز میں دیکھ رہے تھے اور ٹیچرز انھیں پکڑ پکڑ کر شاباش دے رہی تھیں۔

Browse More Moral Stories