Anokhey Chor - Article No. 1818

Anokhey Chor

انوکھا چور - تحریر نمبر 1818

ہم روز نیہا باجی کے بستے سے ایک کاپی لاتے اور اس میں جو بھی لکھا ہوتا تھا سلیٹ پر اس کی نقل کرتے

منگل 13 اکتوبر 2020

مریم صدیقی
نیہا کے بیگ سے آج پھر ریاضی کی کاپی غائب تھی۔وہ سر پکڑے بیٹھی تھی کیونکہ کل اس کا اہم ٹیسٹ تھا،لیکن گزشتہ چند روز کی طرح آج بھی اس کے اسکول بیگ میں اس کی کاپی نہیں تھی۔دو دن پہلے اس کی اردو کی کاپی بھی اس کے بیگ میں نہیں تھی،ساری رات پریشانی کے عالم میں گزری۔صبح اُٹھ کر یہ سوچ کر بیگ دیکھا کہ رات میں شاید ٹھیک سے نہ دیکھ پائی ہوں۔
حیرت انگیز طور پر اس وقت اردو کی کاپی بیگ میں ہی موجود تھی۔اس نے اپنا وہم سمجھ کر سر جھٹکا اور اسکول جانے کے لئے تیار ہونے لگی۔
آج جب اس نے ٹیسٹ کی تیاری کے لئے بیگ کھولا تو اس میں ریاضی کی کاپی موجود نہ تھی۔ایک مرتبہ پھر پریشانی نے اسے آگھیرا۔ابھی وہ کاپی کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ سعد ادھر چلا آیا۔

(جاری ہے)


”سعد بھائی!آپ نے میری ریاضی کی کاپی کہیں دیکھی ہے؟“نیہا نے سعد کو دیکھتے ہی پوچھا۔


سعد نے انکار میں گردن ہلائی۔اس نے بہن کو پریشان دیکھ کر کہا:”ایک تو تمہاری کاپی روز کھو جاتی ہے،سنبھال کر کیوں نہیں رکھتیں؟“سعد کی بات پر نیہا نے پریشانی سے اسے دیکھا۔”نہیں بھائی!مجھے اچھی طرح یاد ہے،کاپی میں نے اپنے بیگ میں ہی رکھی تھی۔“
”اچھا پریشان مت ہو،آؤ مل کر ڈھونڈتے ہیں۔“
کچھ ہی دیر میں سعد اور نیہا نے پورا کمرہ،لاؤنج،صحن،یہاں تک کے کچن اور امی ابو تک کا کمرہ بھی چھان مارا،لیکن کاپی کہیں نہیں ملی۔
نیہا کے ذہن میں مس افروز کا چہرہ گھوم رہا تھا۔کل یقینا شامت آنے والی ہے۔کل کا سوچ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے۔اب صرف مالی بابا کا کمرہ رہ گیا ہے،چلو وہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔سعد نے ان کے کمرے کی جانب قدم بڑھائے ،لیکن نیہا کو اپنے پیچھے نہ آتے دیکھ کر وہیں رک گیا۔
”کیا ہوا نیہا؟ایسے کیوں کھڑی ہو؟ارے تم رو کیوں رہی ہو؟“نیہا کو روتا دیکھ کر سعد نے اسے وہیں قریب رکھے صوفے پر بیٹھایا۔
”مل جائے گی کاپی نیہا!لیکن رونے سے نہیں تلاش کرنے سے۔دیکھو نیہا!کسی بھی مشکل میں رونا بہت آسان ہوتا ہے،لیکن اس مشکل سے باہر آنے کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے،کوشش کیے بغیر کبھی مشکل حل نہیں ہوتی۔“سعد نے اسے سمجھا کر بڑے بھائی ہونے کا فرض ادا کیا۔
سعد،نیہا سے تین سال بڑا تھا اور آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا جب کے نیہا پانچویں جماعت کی طالبہ تھی۔
دونوں کا شمار اسکول کے لائق ترین طلبہ میں ہوتا تھا،لیکن گزشتہ کچھ روز سے ان کے گھر میں اچانک ہی یہ نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ہر دوسرے روز نیہا کے بیگ سے کوئی نہ کوئی کاپی غائب ہو جاتی اور صبح کے وقت اس کے بیگ میں موجود ہوتی ۔شروع میں تو امی اور سعد نے اس کی لاپروائی کہہ کر توجہ نہ دی کہ وہ خود ہی ٹھیک سے نہیں دیکھتی ،لیکن روز بروز کی شکایت سے وہ بھی پریشان ہونے لگے۔
نیہا کی پڑھائی کا جو نقصان ہو رہا تھا وہ الگ۔
نیہا کو چپ کرانے کے دوران وہ یہ بھول ہی گیاکہ اسے مالی بابا کے کمرے میں کاپی ڈھونڈنی تھی۔مالی بابا جن کا نام سلیم تھا وہ ان کے ہی گھر کے پچھلے حصے میں اپنی بیوی اور دو بچوں علی اور حسن کے ساتھ رہتے تھے۔جہاں ایک کمرہ،کچن اور غسل خانہ بنا ہوا تھا۔ان کی بیوی سلمیٰ گھر کے کاموں میں امی کا ہاتھ بٹا دیا کرتی تھیں اور علی اور حسن دن بھر شرارتیں کرتے تھے۔
کاپی ڈھونڈنے سے قبل سعد نے سوچا کے وہ نیہا کو کل کے ٹیسٹ کی تیاری کرادے۔اس کے بعد وہ کاپی ڈھونڈ لے گا۔وہ نیہا کے ساتھ اسٹڈی روم میں آگیا۔کتاب کی مدد سے اس نے نیہا کے ٹیسٹ کی تیاری کرائی،مشق کرانے کے بعد پہاڑے یاد کرنے کا کہہ کر وہ امی کے پاس چلا آیا۔
”امی روز روز نیہا کی کاپی کا اس طرح غائب ہو جانا اور پھر مل جانا کچھ عجیب نہیں ہے؟“اس نے امی سے کہا تو وہ بھی سوچ میں پڑ گئیں۔

”میں سوچ رہا تھا کہ کہیں علی اور حسن شرارت میں کہیں چھپا تو نہیں دیتے؟ویسے بھی نیہا سارا دن ان کے ساتھ لڑتی رہتی ہے تو وہ شرارت کے طور پر اس کی کاپی چھپا دیتے ہوں؟“اس نے امی کے سامنے اپنے خیال کا اظہار کیا۔
”تم جاؤ اور جاکر ان بچوں سے پوچھ لو،مگر ہاں پیار سے پوچھنا۔“انھوں نے سعد کو سمجھاتے ہوئے کہا۔سعد سر ہلاتا ہوا گھر کے پچھلے حصے کی جانب چلا آیا۔

”تم دونوں یہاں کیا کر رہے ہو؟“حسن اور علی کمرے کے باہر کھڑکی کے نیچے کسی چیز پر جھکے ہوئے تھے۔سعد کو سامنے دیکھ کر ہڑ بڑا کر سیدھے ہوئے۔
”کچھ نہیں سعد بھائی!ہم باتیں کر رہے تھے۔“یہ حسن تھا جو علی کے سامنے آکر کھڑا ہو چکا تھا۔سعد نے دیکھا علی کچھ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔
”مجھے سچ سچ بتا دو ابھی موقع دے رہا ہوں،ورنہ پھر ابو کو ہی بتانا،سعد نے کہہ کر کندھے اُچکائے۔
دونوں کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔
”اور یہ تم کیا چھپا رہے ہو؟“،علی جو کھڑکی میں ہاتھ ڈال کر اندر کچھ رکھنے کی کوشش کر رہا تھا،سعد کے کہنے پر رک گیا۔”دکھاؤ مجھے کیا ہے تمہارے ہاتھ میں؟“، سعد نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔
”دیکھو اگر تم مجھے نہیں بتاؤ گے تو میں ابو کو بتا دوں گا۔پھر سوچ لینا بہت ڈانٹ پڑے گی۔“سعد کے کہنے پر علی نے پیچھے کیا ہوا ہاتھ آگے کر دیا جس میں نیہا کی ریاضی کی کاپی تھی۔
”یعنی میرا شک صحیح نکلا،یہ تم دونوں کی شرارت تھی۔“دونوں سر جھکائے سعد کے سامنے کھڑے تھے۔اس دوران بچوں کی ماں سلمیٰ وہاں آگئی۔
”کیا ہوا سعد بیٹے!ان دونوں نے پھر کوئی شرارت کی ہے؟“سلمیٰ نے سعد کو دیکھ کر پوچھا۔ان کے پوچھنے پر سعد نے ساری بات بتا دی۔وہ غصے سے دونوں کو مارنے کے لئے آگے بڑھیں لیکن اسی وقت سعد کی امی اور نیہا بھی وہاں آگئے۔
اپنی کاپی علی کے ہاتھ میں دیکھ کر نیہا تو آپے سے باہر ہو گئی۔اسے ویسے بھی دونوں بھائیوں سے کچھ زیادہ لگاؤ نہیں تھا۔
سعد کی امی نے کاپی لے کر دیکھی تو کاپی بالکل صحیح حالت میں تھی۔انھوں نے اسے خراب نہیں کیا تھا،لیکن پھر وہ اس طرح نیہا کے بیگ سے کاپی نکالتے کیوں ہیں؟سب کے ذہنوں میں یہی سوال تھا اور اب تو سعد،علی اور حسن کے ابا بھی وہاں موجود تھے۔

سعد کی امی کے پوچھنے پر علی نے بتایا:”ہم بھی سعد بھائی اور نیہا باجی کی طرح پڑھنا چاہتے تھے۔ایک دن ہم نے نیہا باجی سے کہا کہ وہ جو بھی اسکول میں پڑھ کر آتی ہیں، ہمیں بھی پڑھا دیا کریں تو انھوں نے کہا تم لوگ پڑھ لکھ کر کیا کرو گے؟تمہارا جو کام ہے وہی کیا کرو،یہ کہہ کر وہ ہمارا مذاق اُڑانے لگیں۔
علی کی بات پر سب نے نیہا کو دیکھا جو سر جھکائے کھڑی تھی۔
”پھر میں نے اور حسن نے سوچا کے ہم دونوں خود ہی پڑھیں گے،پھر ہم روز نیہا باجی کے بستے سے ایک کاپی لاتے اور اس میں جو بھی لکھا ہوتا تھا سلیٹ پر اس کی نقل کرتے۔یوں ہم روز کچھ نہ کچھ پڑھنے لگے لیکن ہم ان کی کاپی خراب نہیں کرتے۔“علی کی بات پر سعد کے ابو کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔سلمیٰ اور سلیم شرمندگی سے سر جھکائے کھڑے تھے۔سعد کی امی نے آگے بڑھ کر علی اور حسن کو گلے سے لگایا تو سلمیٰ اور سلیم حیرت سے انھیں دیکھنے لگے۔

سعد کے ابو نے نیہا کو دیکھا جو اب تک سر جھکائے کھڑی تھی۔”نیہا بیٹا!ادھر آئیے۔“نیہا ان کے قریب جا کر کھڑی ہو گئی۔
”بیٹا!ہم نے آپ کو کب یہ سکھایا کہ ہم مالک ہیں اور یہ ملازم؟ہم نے تو آپ کو سکھایا ہے کہ اللہ کے سب بندے برابر ہوتے ہیں،مجھے بہت مایوسی ہوئی کہ آپ نے علی اور حسن سے اس انداز میں بات کی۔اگر آپ پڑھ سکتی ہیں،اسکول جاتی ہیں تو وہ کیوں نہیں؟مجھے افسوس ہے کہ یہ خیال مجھے خود ہی کیوں نہ آیا۔
“ان کے لہجے میں خفگی تھی۔
”آئی ایم سوری بابا!“نیہا نے ان کی جانب دیکھ کر کہا۔
”سوری آپ ان دونوں سے کہیے اور آپ کی سزا یہ ہے کہ آج سے آپ ان دونوں کو پڑھائیں گی۔“اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
”اور غلط کام آپ دونوں نے بھی کیا ہے،کسی سے چھپ کر اس کی چیز لینا یا استعمال کرنا چوری کہلاتا ہے اور چوری کرنا بہت بُری بات ہے۔آپ بھی نیہا سے سوری کہیے اور آپ دونوں کی سزا یہ ہے کہ کل سے آپ دونوں بھی اسکول جائیں گے۔“ان کی بات پر علی اور حسن نے حیرت سے انھیں دیکھا اور خوشی کے مارے ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔

Browse More Moral Stories