Aqal Ka Aala - Article No. 1893

Aqal Ka Aala

عقل کا آلہ - تحریر نمبر 1893

وہ جہاں کہیں بھی جاتا،اپنا دماغ اور اپنی آنکھیں کھلی رکھتا اور ہر چیز کو بڑے غور سے دیکھتا اور یاد رکھتا

بدھ 10 فروری 2021

سر پر تاج رکھنے والا پرندہ ہدہد آنکھوں پر عینک لگائے ایک شاخ پر چپ چاپ بیٹھا رہتا تھا،جیسے کچھ سوچ رہا ہو۔دن کے وقت اس کے پاس کئی جانور اور پرندے آتے اور جنگل کا سب سے عقل مند پرندہ سمجھ کر اس سے صلاح مشورہ کرتے۔ننھا ہدہد اپنے دادا کے پاس بڑی حیرت سے یہ دیکھتا رہتا۔اس کا جی چاہتا کہ پرندے اور جانور اس کے پاس بھی آئیں اور اسے بھی اپنے اپنے مسائل بتائیں۔
مثلاً ننھے میاں بتاؤ بارش کب ہوگی․․․․؟لیکن کوئی بھی اس کے پاس ایسی باتیں پوچھنے نہ آتا۔دوسری طرف بوڑھے ہدہد کے پاس ہر وقت جانوروں کا تانتا بندھا رہتا۔
ایک روز دو گلہریاں اپنا جھگڑا لے کر آگئیں۔ایک کہنے لگی:جناب مجھے درخت کے نیچے ایک بل سے اخروٹوں کا ڈھیر ملا ہے۔
دوسری نے کہا:سرکار،یہ جھوٹ بولتی ہے۔

(جاری ہے)

وہ اخروٹ مجھے ملے تھے،قبضہ اس نے جما لیا۔

بوڑھے ہدہد نے اپنی عینک کے شیشوں سے جھانکتے ہوئے کہا:بے وقوف گلہریو!لڑائی جھگڑا اچھی بات نہیں۔اس وقت ایک ایک اخروٹ لے کر کھا لو،باقی اسی جگہ حفاظت سے رکھ چھوڑو۔سردیوں میں جب خوب برف باری ہو گی اور تمہیں میلوں تک کوئی چیز کھانے کو نہ ملے گی،تب یہی اخروٹ تمہارے کام آئیں گے لیکن تب بھی برابر برابر بانٹ کر کھانا۔
گلہریوں کو یہ مشورہ پسند آیا اور وہ مطمئن ہو کر چلی گئیں۔
ننھا ہدہد یہ فیصلہ سن کر بہت خوش ہوا اور سوچنے لگا:اگر کوئی جانور میرے پاس بھی اس قسم کا مقدمہ لے کر آیا تو میں بھی ایسا ہی فیصلہ کروں گا۔اتنے میں ننھی چڑیوں کا ایک غول بوڑھے ہدہد کے پاس آیا۔ان میں سے ایک نے کہا کہ ہمیں ایک جگہ دانا پڑا نظر آیا ہے،مگر شبہ ہے کہ وہاں شکاری کا جال بھی ہے۔
ہدہد نے کہا:جہاں بھی شبہ محسوس کرو اس سے بچو۔
دل کو کھٹکا یوں ہی نہیں ہوا کرتا۔
ننھا ہدہد قریب ہی ایک شاخ پر بیٹھا سارا دن عقل مند ہدہد کے پاس آنے والے جانوروں کو دیکھتا۔وہ حیران بھی ہوتا اور افسوس بھی کرتا کہ کوئی اس کے پاس کیوں نہیں آتا․․․․؟
ایک دن ننھے ہدہد کو یہ خیال آیا کہ دادا ہدہد کے پاس جو عینک ہے،شاید اسی میں کوئی خاص بات ہے۔اس کے دل نے کہا دراصل یہی عینک انہیں عقل مندوں والی باتیں سکھاتی ہے۔
یہ سوچ کر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ دادا کی عینک چرا لے۔ایک روز دوپہر کے وقت جب بوڑھا ہدہد آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا،ننھے ہدہد نے موقع غنیمت جانا اور چپکے سے اس کی عینک اتار لی۔اس کے بعد وہ واپس اپنی جگہ پر چلا آیا اور بوڑھے ہدہد کی طرح ناک پر عینک ٹکا کر”عقل مد“بن بیٹھا۔پھر وہ جانوروں کا انتظار کرنے لگا کہ وہ اس کے پاس آئیں اور کام کی باتیں پوچھیں۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک چکوری آکر اس کے پاس بیٹھ گئی اور پوچھنے لگی:ہدہد میاں،آج رات آسمان پر پورا چاند نکلے گا یا نہیں․․․․؟
ننھے ہدہد نے بوڑھے کی نقل کرتے ہوئے عینک کے شیشوں کے اوپر سے چکوری کو دیکھا اور اس کے بعد کچھ دیر ذہن پر زور ڈالا،مگر کوئی بات اس کی سمجھ میں نہ آئی۔کبھی خیال آتا کہ کہہ دے ہاں نکلے گا۔پھر سوچتا اگر پورا چاند نہ نکلتا تو بڑی شرمندگی ہو گی۔
اس لئے اس نے سوچا گول مول بات ہی کرنی چاہیے۔یہی سوچ کر کہنے لگا کہ ہو سکتا ہے آج پورا چاند نکل آئے اور یہ بھی ممکن ہے کہ پورا چا ند نہ نکلے۔چکوری یہ دلچسپ جواب سن کر زور سے ہنسی اور اڑ گئی۔ننھے ہدہد کے پاس جو بھی آیا یہ ان کو مطمئن جواب نہ دے سکا۔ہر مرتبہ سوچتا ہی رہ گیا۔نہ عینک نے اسے کوئی جواب سمجھایا،نہ خود اس کے ذہن میں کوئی بات آئی۔
آخر اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے تو ان باتوں کا کچھ پتہ نہیں۔ سب اس کی جھوٹ موٹ کی عقل مندی کا مذاق اڑاتے ہوئے چلے گئے۔
ننھے ہدہد پر اب یہ بات کھل گئی تھی کہ عینک میں ایسی کوئی بات نہیں جو یہ کسی کو عقل مند بنا سکے۔اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کو ابھی واپس دے آئے گا۔بوڑھا ہدہد ابھی تک آنکھیں بند کیے اپنی جگہ بیٹھا تھا۔ننھا ہدہد اُڑ کر اس کے پاس پہنچا اور آہستہ سے عینک اس کی ناک پر رکھ دی۔
بوڑھے نے ایک آنکھ تھوڑی سی کھول رکھی تھی اور اسے دیکھ رہا تھا۔
آپ جاگ رہے ہیں․․․․؟ننھے ہدہد نے شرمندہ ہو کر پوچھا۔ہاں،میں نے تمہاری حرکتیں دیکھ لی ہیں۔بوڑھے ہدہد نے سنجیدگی سے کہا۔ جتنی عمر کم ہو گی،اتنا تجربہ بھی کم ہو گا اور عقل بھی اتنی ہی تھوڑی ہو گی۔درخت پر سارا سارا دن اور ساری ساری رات بیٹھے رہنے کے بجائے یہ وقت تمہیں جنگل میں گھوم پھر کر گزارنا چاہیے۔
اس طرح تمہارے تجربے اور سمجھ بوجھ میں اضافہ ہو گا۔پھر جب تم میری عمر کو پہنچو گے تو عمر بھر کا تجربہ تمہیں میری طرح عقلمند بنا دے گا۔
بوڑھے ہدہد کی یہ بات ننھے ہدہد کی سمجھ میں آگئی تھی۔اب وہ کچھ وقت بوڑھے ہدہد سے عقل مندی کی باتیں سنتا،پھر جنگل کی سیر کو نکل جاتا۔ وہ جہاں کہیں بھی جاتا،اپنا دماغ اور اپنی آنکھیں کھلی رکھتا اور ہر چیز کو بڑے غور سے دیکھتا اور یاد رکھتا۔اس طرح عمر کے ساتھ ساتھ اس کے علم میں اضافہ ہوتا گیا۔اب اگر کبھی کوئی اس سے مشورہ لیتا ہے تو اس کا دماغ پہلی کی طرح کورا نہیں تھا،وہ اپنے تجربوں کی وجہ سے پرندوں کو صحیح مشورے دیتا۔

Browse More Moral Stories