Aqal Walon Ki Batein - Article No. 1265

Aqal Walon Ki Batein

عقل والوں کی باتیں - تحریر نمبر 1265

قدرت اللہ صاحب ایک اسکول میں مدرسِ اعلا تھے ۔انھیں پڑھاتے ہوئے پچیس سال گزر گئے تھے ۔

بدھ 2 جنوری 2019

جاوید بسام
قدرت اللہ صاحب ایک اسکول میں مدرسِ اعلا تھے ۔انھیں پڑھاتے ہوئے پچیس سال گزر گئے تھے ۔
وہ بہت محنتی اور ذہین آدمی تھے ۔ایک دن وہ چھٹی کے بعد اپنے دفتر میں بیٹھے طالب علموں کے پرچوں کی پڑتال کررہے تھے ۔اسکول خالی ہو چکا تھا ،بس چوکیدار دروازے پر بیٹھا تھا ۔قدرت صاحب سر جھکا ئے اپنے کام میں مگن تھے ۔
کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ان کو برابر کمرے سے کچھ باتیں کرنے کی آواز آئی ،ایسا لگتا تھا کوئی آپس میں بحث کررہا ہے ۔

وہ حیران ہوئے کہ وہاں کون ہے ۔جب آوازیں مسلسل آنے لگیں تو وہ دفتر سے باہر آئے اور برآمدے میں سے ہوتے ہوئے برابر والے کمرے میں داخل ہوئے ۔ان کی نظر پچھلی بینچوں پر بیٹھی دو لڑکیوں پر پڑی جوزورشور سے کسی بحث میں اُلجھی تھیں ۔

(جاری ہے)


وہ بولے :”بھئی،آپ لوگ ابھی تک․․․․․․“
مگر ان کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے ۔وہ لڑکیوں کو اپنی طالبات سمجھے تھے ،مگر وہ کوئی اور تھیں ۔

قدرت صاحب کا منہ حیرت سے کھل گیا۔انھوں نے چشمہ اُتار کر صاف کیا اور بولے :”آپ لوگ کون ہیں ؟“
دونوں لڑکیاں خاموش ہو گئیں ،مگر وہ بار بار نظریں اُٹھا کر قدرت صاحب کو دیکھ رہی تھیں ۔پھر وہ چپکے چپکے آپس میں سر گوشیاں کرنے لگیں ۔
آخر ایک لڑکی بولی:”ہم آپ کی طالبات نہیں ہیں ۔“
انھوں نے پوچھا :”ہاں ،اتنا تو میں بھی سمجھ گیا ہوں ،پر آپ ہیں کون ؟“
لڑکیوں نے دوبارہ سر گوشیاں شروع کردیں ،ایسا لگتا تھا کہ وہ ہر بات بتانا نہیں چاہتیں ۔
قدرت صاحب حیرت زدہ کھڑے تھے ۔آخر وہ دونوں کسی نتیجے پر پہنچ گئیں ۔دائیں طرف والی لڑکی بولی:”میں ذہانت ہوں ۔“
بائیں طرف والی لڑکی نے کہا:”اور میں محنت ہوں ۔“
”بہت خوب ! آپ دونوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی ۔آپ ہم انسانوں کے لیے بہت اہم ہیں ۔“
قدرت صاحب کرسی پر بیٹھتے ہوئے پُر جوش لہجے میں بولے۔
لڑکیوں کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی ،پھر وہ ادب سے بولیں :”محترم استاد! یہ اتفاق ہے کہ آج آپ نے ہمیں یہاں دیکھ لیا۔
ہم باتوں میں ایسے اُلجھے تھے کہ آپ کی نظروں سے پوشیدہ نہ ہوسکے۔“
”بھئی ،محنت اور ذہانت کہیں بھی ہوں ،وہ چھپ نہیں سکتیں ۔“قدرت صاحب معنی خیز لہجے میں بولے۔
دونوں ان کی بات سمجھ کر مسکرائیں اور تائید میں سر ہلانے لگیں ۔
پھر وہ بولے :”آپ دونوں کس مسئلے پر بحث کررہی تھیں ؟آپ کی بحث کی آواز برابر کمرے تک آرہی تھی۔

”جی ہم ایک سوال کا جواب ڈھونڈرہے ہیں ۔“
”کیا آپ مجھے بتائیں گی ،ایسی کیا گتھی ہے ؟“
دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ،پھر نظروں ہی نظروں میں مشورہ کرنے لگیں ۔
”اگر آپ کو مشورہ کرنا ہے تو میں باہر چلا جاتا ہوں ۔“قدرت صاحب نے پوچھا ۔
”نہیں ،نہیں محترم !“ محنت جلدی سے بولی :”ہم پہلے ہی سر گوشیوں میں بات کرکے آپ سے گستاخی کر چکے ہیں ۔

”کوئی بات نہیں ۔“وہ مسکراکربولے۔
دونوں کچھ دیر سوچتی رہیں ،پھر محنت بولی:”دراصل ہم اس بحث میں اُلجھے ہیں کہ کام یابی کے لیے محنت زیادہ ضروری ہے یا ذہانت ؟“
قدرت صاحب نے گردن ہلائی مسکرائے ۔ان کی نظریں ذہانت اور محنت پر جمی تھیں ،پھر وہ کھنکھارے ۔
محنت اور ذہانت سنبھل کر بیٹھ گئیں ۔
وہ بولے :”بھئی ،سوال تو بہت دلچسپ ہے ،مگر اس کا جواب اتنا مشکل نہیں ،انسانوں نے اپنی زندگی کے طویل تجربوں اور مشاہدوں سے اس کا جواب تلاش کرلیا ہے ۔
ہمارے موجودہ دور کے ایک بہت محنتی ،باعمل انسان اور علم وعقل کے پیکر ،ایک صاحب تھے ۔وہ ساری زندگی قوم وملک کی خدمت کرتے رہے ،مگر کچھ ظالموں کو ان کی خوبی پسند نہیں آئی ۔انھوں نے آپ کو ناحق شہید کردیا۔“
یہ کہتے ہوئے قدرت صاحب کا گلارندھ گیا اور وہ خاموش ہو گئے ۔
محنت اور ذہانت کے سر جھکے ہوئے تھے ۔وہ دَم سادھے بیٹھی تھیں ۔

قدرت صاحب نے آہ بھری ۔پھر دوبارہ بولے :”انھوں نے فرمایا تھا ،کامیابی کے لیے ایک حصہ ذہانت اور نوحصے محنت کی ضرورت ہوتی ہے ۔“
محنت نے خوش ہوتے ہوئے شریر نظروں سے ذہانت کو دیکھا ۔ذہانت یہ سن کر کچھ بجھ سی گئی۔
قدرت صاحب بولے:”بھئی ،تم دل چھوٹا نہ کرو۔میں سمجھا تاہوں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ۔جب انسان کوئی کام شروع کرتا ہے تو اسے ذہانت استعمال کرنی ہوتی ہے کہ کام کس طرح کیا جائے ۔
اچھے اور نئے طریقے اپنائے جاتے ہیں ،تا کہ بنیاد مضبوط ہو ۔یہ پہلا مرحلہ ہوتا ہے ۔اس کے بعد دوسرے مرحلے میں اپنا وقت دینا ہوتا ہے ۔کام کی سختی اور تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے ۔یہ ایک مسلسل عمل ہوتا ہے اور دیر تک چلتا ہے اور اسی کا نام محنت ہے ۔اسی لیے ہمارے بڑے صاحب نے ایک اور نوکا فرق بتایا ہے ۔“
محنت اور ذہانت ان کی بات سمجھنے کی کوشش کررہی تھیں ۔

قدرت صاحب بولے:”مگر آپ دونوں کا ساتھ ہونا ضروری ہے ،ورنہ کوئی ایک بھی کم ہوتو اکثر دوسری کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔آپ اگر اس کا عملی مظاہرہ دیکھنا چاہتی ہیں تو کل یہاں آجائیں ۔ہمیں اس کمرے کی شمالی دیوار میں ایک کھڑ کی لگوانی ہے ،تاکہ یہ ہوادار اور روشن ہوجائے۔“یہ کہہ کروہ باہر نکل گئے۔
دونوں لڑکیوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر سر ہلایا اور غائب ہو گئیں ۔

اگلے دن اتوار تھا۔قدرت صاحب اسکول پہنچے تو محنت اور ذہانت وہاں موجود تھیں ۔دونوں نے مسکراتے ہوئے ادب سے سلام کیا۔قدرت صاحب نے خوش دلی سے جواب دیا ۔اسی دوران مستری اور مزدور آتے نظر آئے ۔مزدور نے اپنی پیٹھ پر ایک کھڑکی اُٹھار کھی تھی ،جب کہ مستری کے ہاتھ میں اوزار کا تھیلا تھا ۔قدرت صاحب نے انھیں اوپر بلالیا۔پہلے مستری اوپر آیا،پھر مزدور آہستہ آہستہ آتا نظر آیا ۔
کھڑکی بہت بھاری تھی ۔وہ ہانپ گیا تھا۔قدرت صاحب بولے :”بھئی ،اندر کمرے میں پنکھے کے نیچے آجاؤ۔“
دونوں اندر چلے آئے جہاں لڑکیاں ایک طرف بیٹھی تھیں ،مگر وہ انھیں نظر نہیں آرہی تھیں ۔مزدور بیٹھ کر سانس درست کرنے لگا ۔جب کہ مستری نے اوزار نکالے اور کھڑکی کی پیمائش کی ،پھر قدرت صاحب اسے شمالی دیوار کی طرف لے گئے اور بتایا کہ یہاں کھڑکی لگانی ہے ۔
مستری نے مہارت سے پوری دیوار کی پیمائش کی اور درمیان میں پنسل سے نشان لگائے ۔
قدرت صاحب بولے:”میاں ! کام بالکل صحیح اور صاف ستھرا ہونا چاہیے ،کوئی غلطی نہ ہو۔“
مستری نے سر ہلایا اور بولا:”جناب! آپ بالکل فکر نہ کریں ۔“
جب نشان لگ گئے تو مستری نے مزدور کو اشارہ کیا۔وہ بڑا ہتھوڑا لے کر کھڑا ہو گیا ۔مستری نے اسے ٹوکا:”بے وقوف آدمی ! ابھی اس کی ضرورت نہیں ،پہلے چھوٹا ہتھوڑااور چھینی استعمال کرنی پڑے گی۔

مزدور نے ہتھوڑا رکھ دیا۔
پھر اس نے مستری کے بتائے ہوئے طریقے سے کام شروع کیا۔مستری کچھ دور کھڑا نظر رکھے ہوئے تھ۔کمرے میں دھڑ دھڑ کی آواز گونجنے لگی ۔قدرت صاحب نے دونوں لڑکیوں کو اشارہ کیا اور باہر برآمدے میں آگئے ۔پھر انھوں نے چوکیدار کو آواز لگائی اور اسے تین کرسیاں لانے کا حکم دیا ۔کرسیاں آگئیں تو وہ ان پر بیٹھ کر کھڑکی سے کام ہوتا دیکھنے لگے ۔
قدرت صاحب انھیں کچھ سمجھاتے بھی جارہے تھے ۔پہلے مزدور نے چھینی سے چھوٹا سوراخ کیا پھر ہتھوڑا اُٹھایا اور دیوار پر برسانے لگا۔دیوار بہت مضبوط تھی اسے بہت محنت کرنا پڑرہی تھی ۔
دھیرے دھیرے دیوار ٹوٹتی گئی ۔جب اس میں بڑا ساخلا پیداہو گیا تو مستری نے رکنے کا اشارہ کیا ۔پھر خلا کا جائزہ لے کر سر ہلایا اور مزدور سے کچھ کہا۔مزدور نیچے جا کر سیمنٹ اور بجری لے کر آیا اورنھیں ملاکر مسالا بنانے لگا۔
مستری نے اسے بتایا کہ کتنی بجری میں کتنا سیمنٹ ملا یا جائے گا۔ جب مسالا تیار ہو گیا تومزدور نے مستری کے ساتھ مل کر کھڑکی اُٹھائی اور مقررہ جگہ پر اٹکادی ۔مستری جلدی جلدی کھڑکی کے چاروں طرف مسالا بھر نے لگا۔جو مزدور اسے لالا کردے رہا تھا ۔
جب کھڑکی کی مضبوطی سے جگہ پر بیٹھ گئی تو مستری نے پلستر کرکے کام ختم کرنے کا حکم دیا۔اس دوران محنت اور ذہانت اس سارے عمل کو غورسے دیکھتی رہیں ۔
غرض مستری کی ذہانت اور مزدور کی محنت سے کھڑکی لگادی گئی ۔اس کام میں ذہانت کم اور محنت زیادہ خرچ ہوئی تھی ۔ابتداذ ہانت سے ہوئی ۔ذہانت طریقے بتاتی ہے ،پھر ان طریقوں پر محنت سے کام کیا جاتا ہے تب کامیابی حاصل ہوتی ہے ۔
قدرت صاحب نے دونوں کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔وہ مسکراکربولیں :”بہت بہت نوازش استادِ محترم ! ہماری اُلجھن دور ہو گئی ہے ۔
“یہ کہہ کر دونوں غائب ہو گئیں ۔
قدرت صاحب نے مستری اور مزدور کو اُجرت دی اور وہ اپنا سامان سمیٹ کر رخصت ہو گئے ۔قدر ت صاحب صاحب بھی اپنے گھر چلے گئے تھے ۔
اسکول سے نکل کر مزدور نے مستری سے پوچھا:”استاد! ایک بات سمجھ میں نہیں آئی! یہ ماسٹر صاحب خود اپنے آپ سے باتیں کیوں کررہے تھے اور انھوں نے تین کرسیاں کیوں منگوائی تھیں ؟“
مستری نے سر کھجایا اور بولا:”یہ عقل والوں کی باتیں ہیں ،ہماری سمجھ میں نہیں آئیں گی ۔“پھر دونوں اپنے اپنے راستے پر ہولیے۔

Browse More Moral Stories