Aqalmand Gadha - Article No. 1896

Aqalmand Gadha

عقل مند گدھا - تحریر نمبر 1896

شیر صاحب گدھا وہ نہیں ہم دونوں ہیں

ہفتہ 13 فروری 2021

زینب غفار
جنگل کے بادشاہ ببر شیر نے چشمے کے کنارے والی چٹان کے نیچے گھنی جھاڑیوں سے جھانک کر دور تک پھیلے دھان کے لہلہاتے کھیت پر نظر ڈالی،بہت دور ایک درخت کے نیچے کوئی چیز ہلتی ہوئی نظر آرہی تھی،شیر نے پنجوں سے آنکھوں کو ملتے ہوئے دوبارہ اس طرف دیکھا،یقینا وہ کالا ہرن تھا،شیر رات سے بھوکا تھا۔کالے ہرن کے لذیذ گوشت کے تصور ہی سے اس کے منہ میں پانی آگیا اور ایک ماہر شکاری کی مانند جھاڑیوں کی آڑ لیتے ہوئے اس نے ہرن کی طرف قدم بڑھائے․․․․․دوسری طرف بانسوں کے جھنڈ میں ایک چیتا بھی ہرن پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
بھوک سے اس کے پیٹ میں بھی چوہے دوڑ رہے تھے۔چیتے نے بھی ہرن کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ہرن دونوں طرف سے بڑھتے ہوئے خطروں سے بے خبر نرم نرم گھاس کھانے میں مشغول تھا کبھی کبھی وہ اپنی بادام جیسی آنکھیں گھما کر اِدھر اُدھر دیکھتا اور پھر گھاس کھانے لگتا۔

(جاری ہے)


جانور خطرے کی بو سونگھ لیتے ہیں۔ہرن کی بے چینی آنکھیں ظاہر کر رہی تھیں کہ اس نے خطرے کی بو سونگھ لی ہے۔

اس نے کان کھڑے کرکے گردن گھما کر چشمے کی طرف دیکھا جہاں میدان میں دو ریچھ کے بچے کھیل رہے تھے،ابھی ہرن پہاڑ کی طرف رخ کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ مشرق اور جنوب سے شیر اور چیتے نے جھاڑیوں سے چھلانگ لگائیں اور دونوں تیر کی طرح ہرن کی طرف لپکے،ہرن لمبی لمبی قلانچیں مارتا ہوا پہاڑوں کی طرف بھاگا۔
شیر اور چیتے کی رفتار کے مقابلے میں ہرن کی رفتار کم تھی،لیکن وہ اپنے ہلکے اور سڈول جسم کی وجہ سے ان دونوں کو غچہ دیتے ہوئے بھاگ رہا تھا،اس بھاگ دوڑ میں ان تینوں نے میلوں کا فاصلہ طے کر لیا،آخر کار ہرن ایک چٹان پر چڑھ گیا،جو اتنی اونچی تھی کہ اس پر شیر اور چیتا نہیں چڑھ سکتے تھے،شیر اور چیتا چٹان کے نیچے زبانیں نکالے ہانپ رہے تھے اور ہرن کو للچائی نظروں سے دیکھ رہے تھے،جب سانسیں درست ہوئیں تو شیر نے کہا۔

”یہ میرا شکار ہے پہلے میں نے تاکا تھا“۔
چیتے نے غصے سے جواب دیا۔”آپ جنگل کے بادشاہ ضرور ہیں لیکن یہ جنگل ہے انسانوں کی دنیا نہیں کہ بادشاہ جو چاہے کرے،جانور اپنے حقوق کی حفاظت کرنا خوب جانتے ہیں۔یہ میرا شکار ہے“۔
شیر دہاڑا:”انسان ہو یا جانور‘جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہر جگہ چلتا ہے میں تم سے زیادہ طاقتور ہوں“۔

شیر اور چیتے کی تکرار سن کر ہرن نے اطمینان کا سانس لیا اور کہا”میرے محترم بادشاہ ہو!یہ میری خوش نصیبی ہو گی کہ میں آپ جیسے شاہی خاندان کے افراد کی غذا بنوں،لیکن پہلے آپ دونوں طے کر لیں کہ آپ میں سے کون میرا لذیذ گوشت نوش فرمائے گا“۔
شیر اور چیتا دوبارہ تکرار کرنے لگے،اسی دوران ادھر سے ایک گدھے کا گزر ہوا تو ہرن نے جھٹ سے مشورہ دیا”میرے خیال سے آپ دونوں اس سلسلے میں گدھے صاحب سے مشورہ لے لیں،کیونکہ مشورہ دینے کے لئے عقلمند ہونا ضروری نہیں“۔

شیر نے کہا”چلو مجھے منظور ہے،وقت پڑنے پر گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے“۔
چیتے نے گدھے کو حکم دیا”گدھے کے بچے!ادھر آ․․․․․“
گدھا پہلے تو ڈرا کہ کہیں یہ دونوں اسے ہی ہڑپ نہ کر لیں،پھر ڈرتے ڈرتے دانت نکالتا ہوا ان کے قریب آیا اور جب اس نے پورا قصہ سنا تو خوشی سے مشورہ دیا”ہاں تو شیر صاحب آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ نے ہرن پر پہلے نظر بد ڈالی جب کہ چیتے صاحب کا دعویٰ ہے کہ ہرن کو دیکھ کر پہلے ان کی رال ٹپکی،کیونکہ یہاں کوئی گواہ نہیں ہے اس لئے میرا مشورہ ہے کہ آپ دونوں اپنی اپنی جگہ تشریف لے جائیں اور جب میں رینکنا شروع کروں تو آپ دونوں دوڑنا شروع کر دیں جو بھی پہلے یہاں پہنچ جائے گا وہی ہرن میاں کو نوش فرمانے کا حق دار ہو گا“۔

شیر اور چیتا بھوک سے بے تاب تھے،لیکن دونوں کو اپنی تیز رفتاری پر ناز تھا اس لئے انہوں نے گدھے کی تجویز مان لی اور یہ طے ہوا کہ دونوں اپنی اپنی جگہ لوٹ جائیں گے اور اس دوران ہرن صاحب چٹان سے اتر کر نہا دھو کر ان میں سے ایک کی خوراک بننے کے لئے میدان میں کھڑے ہو جائیں گے اور جیسے ہی گدھے صاحب اپنی بے سری آواز میں رینکنا شروع کر دیں گے،دوڑ شروع ہو جائے گی۔

شیر اور چیتا اپنی اپنی جگہ واپس چلے گئے،جب کافی دیر تک گدھے کے رینکنے کی آواز نہ آئی تو دونوں کا ماتھا ٹھنکا،پہلے تو انہوں نے ایک دوسرے کو گھورا،پھر چٹان کی طرف دوڑنا شروع کیا،جب وہ چٹان کے نزدیک پہنچے تو دیکھا وہاں چاروں طرف ویرانی اور سناٹا تھا۔ہرن کا کہیں پتا نہ تھا اور گدھے کے سر سے سینگ ہی نہیں پورا گدھا ہی غائب تھا۔شیر نے غصے سے چیخ کر کہا۔”اس گدھے کے بچے نے ہمیں دھوکا دیا“۔چیتے نے سر جھکا کر افسوس سے کہا۔”شیر صاحب!گدھا وہ نہیں ہم دونوں ہیں“۔

Browse More Moral Stories