Asaal Roop - Article No. 1969

Asaal Roop

اصل روپ - تحریر نمبر 1969

وہ بیس کروڑ روپے کا مطالبہ کر رہا تھا

بدھ 12 مئی 2021

حفصہ فیصل
وسیم ایک بڑے صنعت کار طفیل ربانی کا پندرہ سالہ نوجوان بیٹا تھا،جو مہم جو مزاج کا مالک تھا۔مختلف کھنڈرات کا دورہ کرنا،خزانوں اور نوادرات کی تلاش اس کا شوق تھا۔پیسے کی فراوانی تھی۔والد بزنس میں مصروف ہوتے،جبکہ والدہ نے ایک غیر سرکاری تنظیم قائم کر رکھی تھی،جہاں وہ مصروف رہتیں۔کچھ دن پہلے وسیم کی ملاقات پروفیسر نجمی سے ہوئی۔
پروفیسر صاحب نوادرات جمع کرنے کے شوقین تھے۔وسیم اکثر ان سے ملتا رہتا تھا۔
ایک دن وہ پروفیسر صاحب کے گھر ان سے باتیں کر رہا تھا کہ اچانک پروفیسر صاحب نے کہا:”نویلا کے جنگلات کے اندر ایک پرانا قلعہ ہے۔اس قلعے کے عقبی حصے میں بیش قیمت نوادرات دفن ہیں،اگر کسی طرح وہ نوادرات حاصل ہو جائیں،تو ہمارے دن پھر جائیں گے۔

(جاری ہے)

ان نوادرات کی قیمت کا ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔

اگر ہم نے کسی غیر ملکی عجائب گھر کو وہ نوادرات بیچ دیے تو دنیا کے امیر ترین لوگوں میں ہمارا شمار ہو گا۔“
وسیم حیران ہو کر پروفیسر نجمی کی باتیں سن رہا تھا:”لیکن ایک اہم بات یہ ہے کہ نویلا کے جنگلات دراصل سانپوں کی آماجگاہ ہیں۔سمجھو،وہاں تمہیں قدم قدم پر سانپ ہی سانپ ملیں گے۔“
وسیم کو ایک لمحے کے لئے اپنے سارے جسم پر سرسراہٹ کا احساس ہوا،ساتھ ہی پروفیسر نجمی کی شخصیت بھی پُراسرار سی لگی۔

”کیا ہوا بھئی؟ابھی سے ڈر گئے؟”پروفیسر صاحب نے اسے غور سے دیکھا۔
”نہیں،نہیں تو!میں کسی سے نہیں ڈرتا۔“وسیم جوش سے بولا۔
”شاباش میرے شیر!“یہ سن کر پروفیسر کو بہت خوشی ہوئی۔
”اب تمہیں میں ایک دکان کا پتا بتاتا ہوں،جہاں سے تمہیں سانپوں سے بچاؤ کا لباس خریدنا ہے۔تھوڑا مہنگا ہو گا،مگر تمہاری حفاظت خوب کرے گا۔

”یہ میں آج ہی خرید لوں گا۔“
”ٹھیک ہے،پھر جاؤ اور تیاری کرو،کل تمہیں اس مہم پر روانہ ہونا ہے۔“
نویلا کے جنگلات کو گوگل میپ (Google Map) پر تلاش کرتا ہوا وسیم اپنی کار میں آگے بڑھ رہا تھا۔والدین گھر پر نہیں تھے،اس لئے گھر کے پرانے ملازم خان بابا کو نویلا جنگل کے بارے میں بتا کر روانہ ہو گیا۔وسیم بے حد پُرجوش تھا۔
اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ نوادرات سے بھرا صندوق ابھی اس کے سامنے آجائے گا اور وہ اسے لے اُڑے گا،لیکن آگے راستہ بہت دشوار تھا۔
ایک سرسراتا ہوا سانپ جنگل کی ابتداء میں ہی اچانک نظر آگیا تھا،جو اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔وسیم نے ایسا نیلا سانپ اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔
اسے پروفیسر کی بات یاد آگئی کہ نیلے سانپ مکمل زہریلے ہوتے ہیں،یعنی ان کی نس نس میں زہر بھرا ہوتا ہے۔
اس کے ذہن میں بے شمار سوالات جنم لے رہے تھے۔اس نے ’اسپارک گن“ سے سانپ کا نشانہ لیا،مگر اسپارک کی چنگاری نے بھی سانپ کا کچھ نہ بگاڑا۔وسیم نے سوچا کہ یہاں سے بھاگ جائے،لیکن پھر پروفیسر نجمی کے سامنے اپنی بے عزتی کا خیال آڑے آگیا۔
ارے سانپ کہاں گیا؟وسیم نے آنکھیں ملیں،لیکن اب وہاں کسی سانپ کا نام و نشان نہ تھا۔
”چلو بلا ٹلی“وسیم خوشی سے بولا،لیکن اچانک رسی کا پھندا،وسیم کے گلے میں آیا اور وسیم کا دم گھٹنے لگا،وہ جان توڑ رسی کے پھندے سے خود کو چھڑانے لگا اور یہ دیکھ کر اس کے حواس گم ہو گئے کہ جسے وہ رسی سمجھ رہا تھا،وہ سانپ تھا جو اس کے گلے میں پھندا بنا ہوا تھا۔
اگلے ہی لمحے خوف سے وسیم کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔
”آخر وسیم کدھر گیا ہے؟رات ہو گئی،وہ اب تک نہیں لوٹا،تم کیسی ماں ہو جس کو اپنے بیٹے کی خبر نہیں؟“طفیل صاحب اپنی بیگم کو ڈانٹ رہے تھے۔
”وہ صرف میرا ہی نہیں آپ کا بھی بیٹا ہے۔“بیگم طفیل نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”صاحب!وسیم میاں،نویلا کے جنگلات کی طرف گئے ہیں۔
“خان بابا نے انکشاف کیا۔
”یہ،یہ کون سے جنگلات ہیں اور کہاں ہیں؟“بیگم نے سوالی لہجے میں کہا۔
”یہ لڑکا اور اس کی مہم جوئی․․․․ہم سب کو کسی دن لے ڈوبے گی۔“طفیل صاحب بولے۔
”چھوٹے صاحب اپنی کار پر گئے ہیں۔“ملازم نے بتایا کار میں ٹریکر لگا تھا،اس لئے انھوں نے فوراً ٹریکر کمپنی کو فون کیا۔
طفیل صاحب پولیس موبائل کے ساتھ نویلا کے جنگل کے باہر کھڑے تھے ،وسیم کی کار بھی وہاں موجود تھی،مگر وسیم کا کچھ پتا نہیں تھا۔
طفیل صاحب دیوانہ وار جنگل کی طرف بڑھے،لیکن اسی لمحے ان کے موبائل فون کی گھنٹی بجی:”بیٹے کے لئے بہت پریشان ہیں،طفیل صاحب!“
”کون،کون ہو تم؟کہاں ہے میرا بیٹا؟“
”بیٹے سے بھی ملوائیں گے۔سنا ہے آپ کا بیٹا اکلوتا ہے۔“
”کیا،کیا چاہیے تمہیں؟“طفیل صاحب بے صبری سے بولے۔
”فقط بیس کروڑ!“
”بیس کروڑ!“طفیل صاحب نے دہرایا۔

انسپکٹر جامی جو طفیل صاحب کے ساتھ ہی کھڑے تھے ،ساری گفتگو سن اور سمجھ چکے تھے۔فون بند ہو چکا تھا۔طفیل صاحب کی حالت خراب ہو رہی تھی۔انسپکٹر جامی نے انھیں دلاسا دیا۔فون کرنے والے کے نمبر کو ٹریس کیا گیا،لیکن وہ نمبر ٹریس نہ ہوا۔
”جہاں تک میرا اندازہ ہے،وسیم اسی جنگل میں موجود ہے۔“انسپکٹر جامی نے تجزیہ کیا۔پھر ایک افسر سے کہا:”حوالدار!مزید نفری بلاؤ۔
ابھی جنگل کا محاصرہ کرنا ہے۔“
”نہیں انسپکٹر!وہ میرے بیٹے کی جان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔“
#’#’آپ بے فکر رہیں طفیل صاحب!وسیم کو کچھ نہیں ہو گا۔“
”جنگل کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا ہے۔وسیم کو لے کر باہر نکل آؤ،ورنہ انتہائی سخت کارروائی کی جائے گی۔“اعلان وقفے وقفے سے تین بار کیا گیا،لیکن کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔

”ہم آخری بار تنبیہ کر رہے ہیں،دس تک گنتی گنی جائے گی،باہر آجاؤ،ورنہ نقصان اُٹھاؤ گے۔“
پتوں کے سرسرانے کی آواز پر سب کی نگاہیں اس سمت اُٹھیں،جہاں سے پروفیسر نجمی اپنا حفاظتی لباس پہنے جنگل سے بہار آرہے تھے۔ان کی نشاندہی پر چند سپاہی بے ہوش وسیم کو اسٹریچر پر ڈال کر لے آئے۔سب لوگ اسے لے کر اسپتال پہنچے۔
وسیم کو ہوش میں آتا دیکھ کر طفیل صاحب بیٹے کی جانب لپکے:”کیسا ہے میرا بیٹا!“
##”پاپا!میں یہاں!وہ جنگل․․․․․پروفیسر․․․․․․نوادرات․․․․سانپ“
وسیم اٹک اٹک کر بول رہا تھا۔

”سب جھوٹ تھا بیٹا!اس پروفیسر نے تمہیں اپنی باتوں کے جال میں پھنسا کر اغوا کرنے کی کوشش کی تھی،وہ بیس کروڑ روپے کا مطالبہ کر رہا تھا۔یہ تھا اس کا اصل روپ۔پولیس کے بروقت اقدام اور اللہ کے فضل نے تمہیں بچا لیا۔مجھے معاف کر دو،میرے بیٹے!مجھے معاف کردو،پیسے کمانے کی دھن میں،میں اپنا فرض فراموش کر بیٹھا تھا۔“
”مجھے بھی معاف کر دو میرے بیٹے!“بیگم طفیل بھی پیچھے سے شرم سار ہو کر آگے آئیں۔
”نہیں،نہیں امی،پاپا!مجھے شرمندہ نہ کریں،میں نے بھی اس شوق کو اپنے سر پر حد سے زیادہ سوار کر لیا تھا۔“
تینوں کی آنکھوں میں خوشی اور ندامت کے آنسو تھے۔

Browse More Moral Stories