Azad Parinda - Article No. 1995

Azad Parinda

آزاد پرندہ - تحریر نمبر 1995

میں آزادی کی زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ایک آزاد پنچھی جیسی زندگی

جمعہ 18 جون 2021

جاوید اقبال
وین اسکول کے سامنے رکی۔سارے بچے اُتر کر اسکول کی طرف چل دیے،مگر حسن اسکول جانے کے بجائے جنگل کی طرف جانے والے راستے کی طرف مڑ گیا۔آج کلاس میں انگلش کا ٹیسٹ تھا اور وہ ذرا بھی تیاری نہیں کر سکا تھا۔سر مصطفےٰ کی مار سے بچنے کے لئے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ آج اسکول ہی نہیں جائے گا۔تھوڑی دیر میں وہ جنگل کے سامنے پہنچ گیا۔
جنگل کے داخلی راستے پر سنہری حروف میں لکھا تھا: ”جادوئی جنگل۔“
حسن نے حیرانی سے یہ الفاظ پڑھے اور جنگل میں داخل ہو گیا۔جنگل میں چاروں طرف سبزہ پھیلا ہوا تھا اور رنگ برنگے پھول جگہ جگہ کھلے تھے۔تتلیاں پھولوں پہ اَٹھلا رہی تھیں۔پرندے چہچہا رہے تھے۔چلتے چلتے حسن ایک آبشار کے سامنے پہنچ گیا۔

(جاری ہے)

ایک چھوٹی سی پہاڑی سے آبشار کا پانی نیچے گر رہا تھا اور نیلگوں پانی ندی میں بہہ رہا تھا۔

ندی میں کنول کے پھول تیر رہے تھے۔
حسن اس نظارے میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک جھاڑیوں سے ایک خرگوش نکل کر سامنے آگیا۔خرگوش نے پیارا سا نیلا ہیٹ پہنا ہوا تھا۔پھر ایک گلہری گلابی ربن باندھے جھاڑی سے نکلی۔رنگ برنگے تنکوں کا چھوٹا سا تاج پہنے ایک چڑیا بھی درخت سے اُتر کر نیچے آگئی۔دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے پرندے اور جانور وہاں اِکھٹے ہو گئے اور حسن سے پوچھنے لگے:”تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟“
وہ سب انسانوں کی زبان بول رہے تھے۔
حسن کو خوشگوار حیرت ہوئی وہ بولا:”میں اسکول سے بھاگ کر یہاں آیا ہوں۔میں اس مشکل زندگی سے تنگ آگیا ہوں۔ہر وقت پڑھائی،ہر وقت گھر کے کام،آئے روز ٹیسٹوں کی مصیبت،ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ۔میں اب واپس اس دنیا میں نہیں جاؤں گا۔جانوروں کی زندگی کتنی اچھی ہے۔نہ پڑھنے کی مصیبت،نہ کاموں کی مشقت۔کھایا پیا بھاگے دوڑے،تھک گئے تو آرام کیا۔جہاں جی چاہا اُڑ کے پہنچ گئے۔
مجھے ایسی ہی زندگی چاہیے آزادی کی زندگی۔“
حسن کی بات سن کر خرگوش مسکرایا اور بولا:”دیکھو حسن!دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔بہ ظاہر جو نظر آتا ہے،حقیقت میں ویسا ہوتا نہیں ہے۔یہاں کی زندگی میں جو مشکلات ہیں تمہیں ان کا اندازہ نہیں ہے۔“
حسن بولا:”جو بھی ہو میں اب واپس نہیں جاؤں گا۔میں آزادی کی زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔
ایک آزاد پنچھی جیسی زندگی۔“
جانوروں اور پرندوں میں آپس میں کچھ کھسر پسر کی،پھر گلہری اپنی عینک ٹھیک کرتی ہوئی بولی:”ٹھیک ہے حسن!اگر تمہاری یہی مرضی ہے تو ہم تمہاری آرزو پوری کر دیتے ہیں۔“
گلہری نے ایک درخت کو اشارہ کیا وہ درخت چل کے وہاں آگیا درخت کی شاخوں پہ سرخ رنگ کے پھل لگے تھے۔گلہری بولی:”حسن! اس درخت سے ایک پھل توڑ کے کھا لو پھر تم جو خواہش کرو گے،پوری ہو گی۔

حسن نے ہاتھ بڑھا کر ایک پھل توڑ لیا اور ایک خوب صورت پرندہ بننے کی آرزو کرکے پھل کھانا شروع کر دیا۔جیسے جیسے وہ پھل کھاتا جاتا، اس پر غنودگی طاری ہوتی جاتی۔پھر نیند سے بوجھل ہو کر اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔بیدار ہوا تو اسے احساس ہوا کہ وہ ایک پرندہ بن چکا ہے،ایک آزاد پرندہ۔
اچانک شور سے اس کی آنکھ کھلی تھی۔اس نے دیکھا کہ سب جانور اور پرندہ افراتفری میں اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں۔
چھوٹے جانور پناہ لینے کے لئے جھاڑیوں کی طرف بھاگے،جب کہ پرندے درختوں کی شاخوں میں چھپنے لگے۔حسن حیرانی سے یہ سب دیکھ رہا تھا کہ اچانک اسے اپنے سر کے اوپر پَروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دی۔اس نے دیکھا کہ ایک بڑا سا پرندہ اس کے اوپر جھپٹنے والا ہے۔حسن کے منہ سے خوف کے مارے چیخ نکل گئی۔وہ اپنی جان بچانے کے لئے اُڑا اور ایک گھنے درخت کی شاخوں میں چھپ گیا۔
وہ بڑا سا پرندہ اپنی خوف ناک چونچ کھولے اسے ڈھونڈ رہا تھا اور حسن اس سے بچنے کے لئے شاخوں اور پتوں میں چھپ رہا تھا۔ایک بار تو اس خوف ناک پرندے کی چونچ اس کے بالکل قریب آئی،مگر خوش قسمتی سے اس کے پَروں کا رنگ پتوں جیسا تھا،اس لئے پرندہ اسے نہ دیکھ سکا اور مایوس ہو کر ایک طرف کو اُڑ گیا۔خطرہ ٹل گیا تھا،مگر کافی دیر تک اسے شاخوں سے نکلنے کا حوصلہ نہ ہوا،پھر ڈرتے ڈرتے وہ اپنی پناہ گاہ سے نکلا۔
اسے پیاس لگ رہی تھی۔وہ اُڑتا ہوا ندی کے کنارے آگیا۔جلدی سے پانی پیا۔اس کے دل کو دھڑکا لگ گیا کہ وہ پرندہ پھر نہ آجائے۔یہ آزادی اس کے لئے مصیبت بن گئی تھی۔وہ پھر درخت پر آکے چھپ گیا۔یونہی شام ہو گئی۔اسے یاد آیا شام کو گھر میں چائے کا دور چلتا تھا۔ساتھ سموسے اور بسکٹ ہوتے تھے۔رات کو مزے دار کھانا سب مل کر کھاتے تھے،پھر وہ کارٹون دیکھتا اور نرم بستر پر سو جاتا،مگر یہاں اندھیری رات تھی اور سناٹا تھا اور سونے کے لئے درخت کی کھردری شاخ تھی۔
یہی سوچتے سوچتے اسے نیند آگئی۔
رات کا جانے کون سا پہر تھا کہ اس کی آنکھ کھل گئی کوئی چیز بُری طرح اسے کاٹ رہی تھی۔چاند کی چاندی میں اس نے دیکھا بہت سے سرخ چیونٹیاں اس کے جسم سے چمٹی ہوئی تھیں اور اسے کاٹ رہی تھیں۔اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔اس نے اپنے پَروں کو زور زور سے پھڑپھڑایا،مگر چیونٹیاں بُری طرح اسے چمٹی ہوئی تھیں۔وہ درخت کے کھردرے تنے پہ لوٹ پوٹ ہو گیا۔
تب کہیں چیونٹیوں نے اس کی جان چھوڑی۔وہ اُڑ کے درخت کی سب سے اونچی شاخ پر جا بیٹھا اور باقی رات جاگ کے گزار دی۔صبح ہوئی تو اس نے سکھ کا سانس لیا وہ درخت سے نیچے اُترا ایک جھاڑی میں اسے چھوٹا سا کیڑا نظر آیا۔اسے دیکھ کر اس کی بھوک چمک اُٹھی۔وہ کیڑے کو کھانے کے لئے اس کی طرف لپکا۔اچانک اس کی نظر کیڑے کے پیچھے بڑی سی بلی پر پڑی،جو اس پر نظریں جمائے اپنا پیٹ زمین سے لگائے آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔
حسن کیڑے کو بھول کر اپنی جان بچانے کے لئے بھاگا۔بلی نے اُچھل کر اس پر چھلانگ لگائی۔اس کا پنجہ اس کے پَروں سے چھو گیا،مگر وہ بال بال بچ گیا۔اسی وقت درخت کے اوپر سے ایک سیاہ پرندے نے غوطہ لگایا اور حسن کو اپنے پنجوں میں دبوچ لیا۔خود کو پرندے کے شکنجے میں دیکھ کر حسن کے منہ سے زوردار چیخ نکل گئی۔
اچانک حسن کے کانوں میں اس کی ماما کی آواز پڑی:”کیا ہوا حسن!میرے بچے!“
حسن نے جلدی سے آنکھیں کھول دیں۔
اس نے خود کو اپنی امی کے قریب پایا۔
”کیا کوئی خواب دیکھا ہے میرے بیٹے نے؟“امی نے پوچھا۔
”ہاں امی!بہت خوف ناک خواب تھا۔“حسن نے اپنی ماما کی آغوش میں سمٹتے ہوئے کہا۔
اس کی امی پیار سے اس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیر رہی تھیں اور حسن سوچ رہا تھا۔یہاں کتنا تحفظ ہے۔بے چارے جانوروں اور پرندوں کو زندہ رہنے کے لئے کیسے کیسے خطروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔موت قدم قدم پر ان کا پیچھا کرتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنا کر ہم پر احسان کیا ہے۔اس کے ساتھ انسان ہونے کے ناطے کچھ ذمے داری بھی ہم پہ ڈالی گئی ہے۔یہ ذمے داریاں،کچھ فرائض ہمیں عمدہ طریقے سے نبھانا ہے۔تبھی ہم اچھے انسان کہلا سکتے ہیں۔

Browse More Moral Stories