Azmaish - Article No. 1163

Azmaish

آزمائیش - تحریر نمبر 1163

حفصہ کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے ۔اس نے اپنے شوہر خرم سے کہا :”اس مہینے پیسے جلدی ختم ہوگئے ۔

جمعہ 17 اگست 2018

عفان احمد خان
حفصہ کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے ۔اس نے اپنے شوہر خرم سے کہا :”اس مہینے پیسے جلدی ختم ہوگئے ۔ابھی عائشہ اور عیشال کی فیس بھی جمع کر انی ہیں اور پیسے بچے نہیں ہیں ۔“خرم اُداسی سے مسکرادیا :”ابھی تو بیس تاریخ ہوئی ہے ۔“”مگر اتنی تنخواہ میں تو گزارہ ہی مشکل سے ہوتا ہے ،پھر اس مہینے عیشال بیمار ہوگئی ۔

“حفصہ نے آہستگی سے کہا ۔”ہوں ․․․․․تنخواہ ملنے میں ابھی دس دن ہیں ۔تم اسکول جاکر اس سے کہو کہ اگلے مہینے فیس د ے دیں گے ۔“خرم نے اُداس لہجے میں کہا ۔”میں گئی تھی ،مگر وہ نہیں جانتے اور پھر اگلے ہفتے میرے بھائی کی شادی میں بھی کچھ خرچ ہو گا ۔“حفصہ نے کہا ۔”دیکھو حفصہ اُدھار چکانے کے بعد میری تنخواہ بہت کم بچتی ہے ،مگر میرے پاس ایک پیش کش ہے ۔

(جاری ہے)

“خرم نے بتا یا ۔”کیسی پیش کش ؟“حفصہ نے پوچھا ۔”ایک ٹھیکے دار نے پیش کش کی ہے کہ اس کو ٹھیکا دے دوں تو وہ مجھے کمیشن کے طور پر کم از کم ڈیڑھ لاکھ روپے دے گا ۔“خرم نے بات مکمل کی :” اس کے بعد تمھاری ساری خواہشات پوری ہو جا ئیں گی۔“ ”نہیں ،میں وقتی نمودو نمایش کے لیے اتنا بڑا گنا ہ نہیں مول لے سکتی اور نہ اپنے بچوں کو حرام کا لقمہ کھلانے دوں گی ۔
“حفصہ نے دونوں بچوں کو اپنے بازوؤں میں سمیٹا ۔اس کا لہجہ پہاڑ سے زیادہ مضبوط تھا ۔خرم بولا :” شکریہ حفصہ !یہ آزمایش کے دن ضرور ختم ہوں گے اور ہم دوبارہ سکون سے زندگی گزاریں گے ۔“خرم خان سرکاری دفتر میں ایک اہم عہدے پر فائز تھا ۔اچھی تنخواہ تھی ،گزر بسر اچھی طرح ہورہی تھی ،مگر اچانک خرم کی والدہ سخت بیمار ہوگئیں ،جس کی وجہ سے اسے محکمے سے کافی قرض لینا پڑا تھا ،جو کہ اب وہ آہستہ آہستہ اپنی تنخواہ سے کٹوار ہا تھا ۔
یوں اس کی تنخواہ تقریباََ آدھی رہ گئی تھی ۔ان کٹھن حالات میں اس کی نیک بیوی حفصہ جو ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی او رخود بھی تعلیم یافتہ تھی ،ذرا بھی نہ گھبرائی اور اس نازک موڑ پر خرم کے ساتھ ایک عزم سے کھڑی رہی اور اسے تسلی دیتی رہی ۔اس نے بھوکار ہنا تو گوارا کر لیا ،مگر کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا گوارا نہیں کیا ۔”آپ یہ میرا زیور بیچ دیں ،کچھ پیسے مل جائیں گے ۔
‘حفصہ نے خرم کے آگے اپنا شادی کا زیور رکھ دیا :”زیور تو بنتا رہے گا ۔“”نہیں نہیں ،یہ میں نہیں بیچ سکتا ۔“خرم نے انکار میں سر ہلادیا :” میں کچھ کرتا ہوں ،مگر خدارا ،اسے واپس رکھ دو ۔“خرام نے التجا کی ۔خرم آج بغیر ناشتے کے آفس میں بیٹھا تھا ۔کام میں اس کا بالکل دل نہیں لگ رہاتھا ۔رہ رہ کرا پنی چھوٹی بچیاں یاد آرہی تھیں ۔
اس کے سامنے ٹھیکے داروں کی فائلیں پڑی تھیں ،جنھوں نے ایک پُل بنانے کا ٹھیکا لینے کے لیے خرم کو لاکھوں کی پیش کش کی تھی ۔خرم جانتا تھا کہ یہ پُل کو نا قص مٹیر یل سے بنا کر ناجائز پیسے کمائیں گے اور خرم کو یہ بات گوارانہیں تھی کہ وہ قوم کے پیسے میں خیانت کرے ۔اس پر بہت دباؤ ڈالا گیا ،مگر وہ ثابت قدم رہا اور ٹھیکا اور دیانت دار ٹھیکے دار کی کمپنی کے حوالے کردیا ۔
”اللہ تُو گواہ رہنا میں نے حرام نہیں کمایا ۔“خرم نے فائل پر دستخط کرتے ہوئے دبی زبان میں کہا ۔کھانے کے وقفے میں اکثر افسران کھانے کے لیے باہر جاچکے تھے ،خرم آنکھیں بند کیے کرسی سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا ۔اس کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی ۔اچانک کسی نے اس کا شانہ پکڑ کر اسے ہلایا ۔سامنے ایک لمبا تڑ نگا آدمی کھڑا تھا ۔ ”کون ہیں آپ ؟“ خرم نے آنسو پونچھے ۔
”سر ! میں وفاقی محتسب ادارے سے ہوں ۔آپ کو میرے ساتھ چلنا ہو گا ،مگر کسی کو بتائے بغیر ۔“اس نے نرم لہجے میں کہا ۔کچھ دیر بعد وہ اس ادارے کے ایک بڑے ہال میں موجود تھا ۔”تشریف رکھیے ،مسٹر خرم !“ ایک افسر نے خوش اخلاقی سے کہا ۔خرم نے دیکھا ،وہاں ایک گو ل میز کے دوسری طرف چار افسران بیٹھے تھے۔خرم سا منے بیٹھ گیا۔”مسٹر خرم! میں آپ کی ایمان داری پر آپ کو مبارک باد دیتا ہوں ۔
“ان کے سینئر افسر نے خوش اخلاقی سے کہا ۔”آپ لوگ کون ہیں ؟“ خرم نے پوچھا ،اسے لگا کہ اس کی آواز کسی گہرے کنویں سے آرہی ہو۔ ”خرم صاحب! آپ نے ضرورت کے باجود ٹھیکے میں بدد یانتی نہیں کی ۔ہمیں آپ کے معاشی حالات کا پورا علم ہے ۔آپ کس صورت حال سے گزررہے ہیں ،ہمیں پتا ہے ۔ہم نے مختلف طریقوں سے آپ کو آزمایا ہے ۔مسٹر شیخ اکرام ،ٹھیکے داروں میں شیخ اکرام اینڈ کمپنی نے سب سے کم اور مناسب قیمت لگائی تھی اور انھوں نے آپ کو کمیشن (رشوت ) کی پیش کش بھی نہیں کی ۔
یہ سب باتیں ہمارے پیش نظر ہیں ،تا کہ ہم محکمہ تعمیرات میں دیانت دار اور بددیانت افسران کو پہچان سکیں ۔آپ کو مبارک ہو کہ آپ ہماری تو قعات پر پورا اُترے اور اپنے ملک کو اپنے ذاتی مفاد پر تر جیح دی ۔“ ”میں نے افسران بالا سے سفارش کی تھی ،جو منظورہوگئی ہے ۔“ایک افسر معنی خیز انداز میں مسکرا یا ۔”وہ کیا جناب ؟“ خرم نے دھڑ کتے دل کے ساتھ پوچھا ۔
”حکومت آپ کی ایمان داری پر بہت خوش ہے ۔اس کے صلے میں آپ کو ایک لاکھ روپے نقد انعام اور اس سے بڑے عہدے پر ترقی ملے گی اور ہاں ․․․․․“وہ سانس لینے کے لیے رکا :” آپ کے محکمے کے سربراہ بھی آپ سے بہت متاثر ہوئے ہیں اور اب آپ ان کے نائب کے حیثیت سے کام کریں گے ۔“وہ بولتا چلا گیا ۔”یا اللہ ! تُو نے کتنی جلدی مجھے ذراسی ہمت کا بدلہ دے دیا ۔“ خرم کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔

Browse More Moral Stories