Baap Ka Wada - Article No. 1616

Baap Ka Wada

باپ کا وعدہ - تحریر نمبر 1616

بات یہ ہے کہ میں تمہارا ڈیڈی ہوں میں تو اسی روز مر گیا تھا جس دن میں شہر جارہا تھا،مگر میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ میں کرسمس تمہارے ساتھ مناؤں گا اور تمہیں باسکٹ بال میں چیمپئن بناؤں گا

پیر 30 دسمبر 2019

امریکہ کے ایک گاؤں میں ایک بہت ہی پیارا سا بچہ اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔اس کا نام”جون“تھا۔جون کا باپ ایک بہت مشہور فنکار تھا۔جوتقریبات میں گاتا بجاتا تھا۔اس لیے اس کا زیادہ وقت شہر میں گزرتا تھا۔مگر جون یہ چاہتا تھا کہ اس کا باپ زیادہ وقت اس کے ساتھ گزارے مگر جون کا باپ اپنی مصروفیت کی وجہ سے جون کے لیے وقت نہیں نکال سکتا تھا۔
ایک دن جون کا باپ شہر سے آیاتو اس کے لیے ایک بہت ہی خوبصورت ساپیانو لے کر آیا۔جون کو پیانو بہت پسند آیا۔وہ دن جون نے اپنے باپ کے ساتھ کھیلتے کودتے گزارا۔
جون نے اپنے باپ سے کہا”اس کے سکول میں سالانہ باسکٹ بال کا میچ ہوتاہے اور وہ چاہتاہے کہ وہ اس میچ میں حصہ لے کر پہلا انعام حاصل کرے۔“
جون نے کہا”ڈیڈی مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

میں جانتا ہوں کہ آپ باسکٹ بال کے چیمپئن رہ چکے ہیں۔“
جون کے باپ نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ اسے باسکٹ بال ضرور سکھائے گا۔اس دن جون کے باپ کا فون آیا کہ کرسمس کے سلسلے میں ایک خاص شو ہے جس میں اس کو ضرور آناہے۔کیونکہ اس شوکو دیکھنے وہاں کے میئر آرہے ہیں۔جب جون کے باپ نے اپنے بیٹے کو بتایا کہ وہ شو کے سلسلے میں شہر جارہا ہے تو جون یہ سن کر اپنے باپ سے ناراض ہو گیا۔
جون کے باپ نے اسے مناتے ہوئے اس وعدہ کیا کہ وہ بہت جلد شہر سے واپس آکر اس کے ساتھ کرسمس منائے گا اور اس کو باسکٹ بال بھی سکھائے گا۔یہ کہہ کرجون کا باپ شہر چلا گیا۔باپ کے جانے کے بعد جون افسردہ ہو کر بیٹھ گیا اور پھر کھڑکی سے برف باری دیکھنے لگا کہ اچانک برف کا طوفان آگیا۔طوفان کو دیکھ کر جون پریشان ہو گیا کہ کہیں اس طوفان کی وجہ سے اس کے باپ کوکوئی حادثہ پیش نہ آجائے۔
ایسا ہی ہوا جون کے باپ کو بہت ہی بھیانک حادثہ پیش آیا۔ہوایوں کہ اس کی گاڑی برف کے طوفان میں پھنس گئی اور برف میں دب گئی،اس طوفان میں وہاں کوئی مدد کے لیے بھی موجود نہ تھا جس کی وجہ سے وہ ٹھنڈ اور طوفان میں پھنس کر مر گیا۔وہاں تو یہ ہوا اور یہاں جون اپنے باپ کا بے تابی سے انتظار کررہا تھا،مگر وہ معصوم یہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا باپ اب کبھی نہیں آئے گا۔

گاؤں میں کرسمس کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ہر بچہ اپنے باپ کے ساتھ کرسمس کی تیاریوں میں مصروف نظر آیا۔جون جب بھی کسی بچے کو باپ کے ساتھ دیکھتا تو اسے بہت دکھ ہوتا اور وہ شدت سے اپنے باپ کو یاد کرتا ،جیسے جیسے کرسمس کے دن قریب آرہے تھے جون کی بے چینی اور بے تابی بڑھتی جارہی تھی۔وہ ہر آہٹ پر دروازے کی طرف دیکھتا کہ شاید اس کا باپ آجائے۔
جون کو اداس دیکھ کر اس کی ماں نے اپنے بھائی کو بلا لیا،تاکہ وہ اس کی اداسی دور کر سکے۔آخر کرسمس کا دن بھی آگیا اس دن جون نے اپنے ماموں کے ساتھ مل کر ایک بہت بڑا برف کا آدمی”سنو مین“بنایا۔اس نے اسے اپنے ڈیڈی کا کیپ،دستانے اور مفلر پہنایا اور خود اپنی ماں اور ماموں کے ساتھ کرسمس کی تقریبات میں شریک ہونے چلا گیا۔تقریب سے آنے کے بعد جون بہت تھک چکا تھا وہ آتے ہی سو گیا۔
رات کو کسی وقت اس کی آنکھ کھلی تو اسے باہر بہت تیز ہواؤں کا شور سنائی دیا۔جب اس نے باہر جھانکا تو واقعی بہت تیز ہوا چل رہی تھی وہ سمجھا کہ شاید طوفان آنے والا ہے مگر طوفان نہیں بلکہ اس کے باپ کی روح اس سے ملنے آئی تھی اور جون سے ملنے کے لیے وہ اس سنو مین میں گھس گئی جو کہ جون نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا۔روح کے گھستے ہی سنومین میں جان پڑ گئی اور وہ چلنے لگا۔

اگلے دن جب جون اپنے گھر کے قریب کھیلنے گیا تو کچھ بد تمیز لڑکوں نے جون پر آوازیں کسیں اور کہا جون کا باپ نہیں ہے اس لیے وہ اکیلا گھوم رہا ہے۔اس کا باپ اس سے نفرت کرتاہے اس لیے اسے ملنے نہیں آتا۔یہ کہہ کر وہ جون پر برف کے گولے مارنے لگے۔جون نے رونا شروع کر دیا اور اپنے باپ سے شکایت کرنے لگا”ڈیڈی اگر آج آپ میرے ساتھ ہوتے تو کسی کی ہمت نہ ہوتی کہ مجھے کچھ کہے“۔
یہ کہہ کر روتے ہوئے جون نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا۔اچانک اس پر برف کے گولے آنا بند ہو گئے اور ایک عجیب سا شور سنائی دیا۔
جون نے دیکھا تو وہ حیران رہ گیا کہ جو لڑکے اس پر گولے برسا رہے تھے ۔ان پر اچانک جون کے پیچھے سے برف کے گولے آنا شروع ہو گئے تھے ۔جون نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سنومین گولے پھینک رہا تھا۔
سنومین جون کے پاس کھڑا اسے پیار سے دیکھ کر کہنے لگا۔
جون میں آج سے تمہارا دوست ہوں اب تمہیں کوئی پریشان نہیں کرے گا۔یہ دیکھ کر اس نے پھر گولے ان لڑکوں پر پھینکنے شروع کئے۔جون اور سنومین نے ان لڑکوں کی خوب پٹائی کی اور انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیا۔
سنومین اور جون اچھے دوست بن گئے۔جون سنو مین کو اپنے گھر کی طرف لے آیا۔اس دن کے بعد جون نے دوبارہ ہنسنا اور مسکرانا شروع کر دیا۔
جون کو خوش دیکھ کر جون کی ماں نے جون سے پوچھا”بیٹا جون!کیا تمہارا کوئی نیا دوست بنا ہے ،جو تمہیں اتنا خوش رکھتاہے ۔
کون ہے وہ؟کیا نام ہے اس کا ؟“
جون نے اپنی ماں کو بتایا”ممی وہ ایک سنومین ہے جو مجھے اتنا خوش رکھتاہے،اور اس نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ مجھے باسکٹ بال سکھائے گا۔پیانو بھی سکھائے گا جو مجھے ڈیڈی نے لاکر دیا ہے۔“
یہ سن کر جون کی ماں کو غصہ آگیا اور اس نے جون کو ڈانٹنا شروع کر دیا اور کہا”تم نفسیاتی مریض بن گئے ہو۔“
جون نے اپنی ماں کو یقینی دلانے کی بہت کوشش کی مگر اس کو یقین نہ آیا۔
اب جون سنومین کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے لگا۔سنومین نے اسے باسکٹ بال کھیلنا سکھانا شروع کیا۔جون ہر صبح سنومین کے ساتھ باسکٹ بال کھیلنے چلا جاتا۔سنومین نے اسے باسکٹ بال میں چیمپئن بنادیا،آخر وہ دن بھی آگیا جب جون کے سکول میں باسکٹ بال چیمپئن شپ تھی۔اس روز جون بہت خوش تھا،اسے یقین تھا کہ وہ میچ جیت جائے گا۔
جون کی ماں نے اس سے پوچھا۔
”تم نے باسکٹ بال کس سے سیکھی“
جون نے جواب دیا”میں نے اپنے دوست سے باسکٹ بال سیکھی ہے۔“
جب وہ جانے لگا تو اس نے اپنی ماں سے کہا ممی آج میرا میچ ہے آپ ضرور آئیے گا اور دیکھئے گا کہ میں چیمپئن ہو گیا ہوں۔یہ کہہ کر جون میچ کھیلنے چلا گیا۔اس کے ساتھ سنومین بھی تھا،جسے اس نے پہئے والی گاڑی میں بٹھا رکھا تھا۔جب باسکٹ بال کا میچ شروع ہوا تو جون اتنا زبردست کھیلا کہ لوگوں کو حیران کر دیا اور وہ مچی جیت گیا۔
میچ کے بعد وہ سیدھا اپنے دوست سنومین کے پاس گیا۔سنومین بہت ہی خوش تھا،وہ سنومین کو لے کر آگیا اور گھر کے قریب ہی کھڑے ہوکر باتیں کرنے لگے۔جون کی ماں بھی جون کے پیچھے اس جگہ آگئی جہاں جون اور سنومین آپس میں باتیں کررہے تھے۔یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔
جون نے اپنی ماں کو دیکھا تو خوشی سے کہنے لگا”ممی یہ ہے میرا دوست جس نے مجھے آج چیمپئن بنایا کہ میں باسکٹ بال کا میچ چیت گیا۔

سنومین نے کہا”جون میں آج جو کچھ تمہیں بتا رہاہوں اسے صبر کے ساتھ سننا۔بات یہ ہے کہ میں تمہارا ڈیڈی ہوں میں تو اسی روز مر گیا تھا جس دن میں شہر جارہا تھا،مگر میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ میں کرسمس تمہارے ساتھ مناؤں گا اور تمہیں باسکٹ بال میں چیمپئن بناؤں گا تو میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے،لیکن بیٹا جون میں ہمیشہ تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا کیونکہ میں ایک روح ہوں،مجھے جانا ہو گا․․․․․․․جون تم بہت بہادر بچے ہو،مجھے یقین ہے کہ تم اپنی ممی اور اپنے آپ کو سنبھالو گے اور زندگی کے ہر طوفان کا مقابلہ بڑی بہادری سے کروگے۔اچھا مجھے اجازت دو۔”خدا حافظ “جون کو اپنے باپ کی موت کا بہت افسوس ہوا مگر جون نے اپنے باپ کی کہی ہوئی ساری باتوں پر عمل کیا۔

Browse More Moral Stories