Bahadur Aur Ladla - Article No. 2309
بہادر اور لاڈلا - تحریر نمبر 2309
”جاؤ میرے پیارو،جاؤ اپنی ماں کے پاس واپس جاؤ،آزاد دنیا میں،جہاں کوئی تمہاری گردنوں میں پٹا نہ ڈالے۔آج سے تم آزاد ہو،جاؤ۔“بہادر اور لاڈلا کچھ دیر تو امانت کو تکتے رہے پھر چھلانگیں لگاتے ہوئے،درختوں کے جھنڈ میں دور بہت دور نکل گئے۔
بدھ 20 جولائی 2022
امانت نے ڈگڈگی بجائی تو گلی کے بچے اپنے گھر سے باہر آ گئے۔امانت نے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:”آج لاڈلا اور بہادر آپ کے سامنے موجود ہیں،دونوں آپ کو سلام کرتے ہیں۔“
یہ کہہ کر امانت نے دونوں کی رسی کھینچی تو دونوں نے اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر بچوں کو سلام کیا۔
”یہ بہادر ہے۔“امانت نے سبز رنگ کی عینک پہنے ایک بندر کی رسی کھینچی۔بہادر نے قلا بازی کھائی تو بچوں نے تالیاں بجائیں۔
”اور یہ ہے لاڈلا،میرا لاڈلا۔“امانت نے سرخ رنگ کی عینک پہنے دوسرے بندر کی رسی کھینچی تو لاڈلا نے بھی قلا بازی لگا کر بچوں سے داد لی۔
پھر امانت نے ڈگڈگی بجائی تو بہادر اور لاڈلا ناچنے لگے۔دونوں کبھی بابو بن جاتے اور کبھی لیٹ کر سائیکل چلانے لگتے۔
(جاری ہے)
یہ تماشا ایک گھنٹے تک جاری رہا۔
بچوں نے زمین پر پیسے پھینکے تو بندروں نے جھک جھک کر سلام کرتے ہوئے پیسے اُٹھائے۔امانت کی جیب میں خاصے پیسے آ گئے تھے۔وہ دونوں کو لے کر پھل منڈی کی طرف گیا۔ان کے لئے کیلے اور امرود لیے۔بہادر اور لاڈلا نے خوب سیر ہو کر پھل کھائے۔امانت نے دونوں کو دو سال پہلے پانچ ہزار میں خریدا تھا۔دونوں بہت چھوٹے تھے۔دونوں کو اشرف نامی شخص پہاڑی مقام سے پکڑ لایا تھا۔وہ آزادی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ اُچھلتے کودتے تھے۔ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگاتے تھے۔جنگلی پھل کھاتے،چشمے کا پانی پیتے،کیا مزیدار زندگی تھی۔اشرف نے جال بچھایا تو دونوں اس میں پھنس گئے۔جال کو اپنے دانتوں سے کاٹنے کی کوشش کی،مگر بے سود۔اشرف پنجرے میں بند کرکے انھیں شہر میں لے آیا۔
خانہ بدوشوں نے گندے نالے کے پاس ڈیرا جمایا ہوا تھا۔یہاں کوئی کاغذ چنتا تھا اور کوئی بھیک مانگتا تھا۔کچھ لوگ بندر اور کچھ ریچھ گلی گلی میں نچا کر روزی روٹی کا بندوبست کرتے تھے۔اشرف جب بھی کوئی بندر پکڑ کر لاتا تھا اسے فروخت کرنے کے لئے خانہ بدوشوں کے پاس آتا تھا۔اشرف نے پنجرے میں بند بندر امانت کو دکھائے تو بندروں نے چیخ چلا کر اپنی ناراضی کا اظہار کیا تھا۔
امانت نے پانچ ہزار روپے میں دونوں بندر خرید لیے اور اسی دن دونوں بندروں کے نام رکھ دیے۔بندر کا تماشا دکھانا امانت کا خاندانی پیشہ تھا۔اس کے باپ دادا یہی کام کرتے تھے۔امانت نے اسی ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔باپ کے انتقال کے بعد اس کے چچا نے اس کی تربیت کی۔چچا کے پاس بھی بھورا بندر تھا۔نہایت پھرتیلا،شرارتی اور کرتب کرنے میں ماہر۔امانت نے چچا راجو سے بندروں کو سدھارنے کی تربیت کی۔اسی تربیت کے ذریعے اس نے بہادر اور لاڈلا کو ناچنے،بابو بننے،مزدور بننے اور سائیکل چلانے کی اداکاری کرنے میں ماہر بنایا۔امانت جہاں بھی تماشا دکھاتا،بچے اور بڑے سبھی بندروں کے کرتب سے محظوظ ہوتے تھے۔دونوں کماؤ پوت ثابت ہوئے تھے۔امانت ان کو لڈو اور برفی کھلاتا تھا۔
امانت کا بیٹا شرافت بھی اب چلنے لگا تھا۔امانت بندروں کی رسی اسے پکڑا کر کہتا تھا کہ ان بندروں کو نچاؤ،کرتب دکھاؤ،شرافت رسی کھینچتا تو بندر قلا بازیاں لگانا شروع کر دیتے تھے۔بندروں کو قلا بازیاں لگاتے دیکھ کر شرافت خوش ہو جاتا تھا۔شرافت نے جب سے چلنا شروع کیا تھا،وہ ایک پل بھی ٹک کر نہ بیٹھتا تھا۔وہ آگے آگے ہوتا اور ماں اس کے پیچھے پیچھے ہوتی تھی۔گندے نالے کے ایک طرف گلی اور دوسری طرف بڑی سڑک تھی۔بڑی سڑک سے بڑی بڑی گاڑیاں گزرتی تھیں۔ماں نے عاجز آ کر اس کے پاؤں میں رسی باندھ کر اسے جھگی میں پڑی چارپائی سے باندھ دیا تھا۔شرافت آگے بڑھتا تو پاؤں میں بندھی رسی سے گر جاتا۔شام کو امانت آیا تو شرافت کے پاؤں میں رسی دیکھ کر بیوی پر ناراض ہوا۔شرافت کے پاؤں میں بندھی رسی کھولی،آزادی پا کر شرافت اپنے باپ سے لپٹ گیا۔
وہ اتوار کا دن تھا۔امانت بہادر اور لاڈلے کو لے کر نئی بستی گلاب نگر گیا تھا۔دونوں نے اپنے کرتب سے بچوں کو محظوظ کیا۔امانت کے جیب میں خاصے پیسے تھے۔ان کے تھیلے میں کھانے پینے کی بھی خاصی چیزیں تھیں۔ایک پارک میں بیٹھ کر امانت نے نوٹ سیدھے کیے۔اس عرصے میں بہادر اور لاڈلا کیلے اور امرود کھاتے رہے۔امانت نے وہیں بیٹھے ہوئے فیصلہ کیا کہ وہ گھر جاتے ہوئے شرافت کے لئے برگر لے کر جائے گا۔وہ برگر دیکھ کر مچل جاتا تھا۔شام تک امانت نے کئی جگہوں پر تماشا دکھایا تھا۔جب وہ گھر پہنچا تو اس کے تھیلے میں برگر موجود تھا۔وہ جھگی میں داخل ہوا تو وہاں ننھا سا چراغ تو جل رہا تھا،مگر وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔بابو مجو نے جب بتایا کہ دوپہر سے شرافت نہیں مل رہا تو امانت کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔امانت کی بیوی کلثوم اپنے بیٹے کو مختلف گلیوں میں تلاش کرتی پھر رہی تھی۔کچھ دیر بعد امانت بھی اس سے جا ملا تھا۔کلثوم نے رو رو کر اپنا بُرا حال کر رکھا تھا۔
شام سے رات ہو گئی،مگر شرافت کا کوئی سراغ نہ ملا تھا۔امانت اور کلثوم تھانے آ پہنچے تھے۔انسپکٹر توحید نے نہایت محبت اور توجہ سے ان کی بات سنی۔انھیں رخصت کرتے ہوئے تسلی دی کہ ان کا بیٹا جلد مل جائے گا۔
تھانے سے نکل کر امانت اور کلثوم جھگی میں تو آ گئے تھے،مگر انھیں ایسا لگ رہا تھا کہ ان کی جھگی کی رونق ختم ہو گئی ہو۔ماں گم شدہ بیٹے کے جوتے اور کپڑے دیکھ کر زار و قطار رو رہی تھی۔وہ ساری رات روتی رہی۔امانت کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے،مگر وہ برداشت کر رہا تھا۔شرافت کی گمشدگی کے باعث امانت کو بہادر اور لاڈلے کا بھی خیال نہیں رہا تھا۔وہ شام ہی سے بھوکے تھے۔دونوں پہلے تو اس طرح خاموش نہ بیٹھے تھے۔بھوکے ہونے پر خوب شور مچاتے تھے۔رات کے آخری پہر امانت اُٹھا،بہادر اور لاڈلے کو کھانے کے لئے کچھ دیا۔تھیلے میں برگر دیکھ کر امانت خود پر قابو نہ رکھ سکا۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اس کے رونے کی آواز دوسری جھگیوں میں سنی گئی۔کئی لوگ اسے تسلی دینے کے لئے آ گئے تھے۔روتے روتے امانت کی نظر بہادر اور لاڈلے کی گردن پر پڑی۔پٹے سے ان کے بال اُڑ گئے تھے۔پھر وہ روتے ہوئے بہادر اور لاڈلے کے بارے میں سوچنے لگا۔کلثوم اور امانت نے تین دن کرب میں گزارے۔بدھ کی شام جب تھانے میں انھوں نے اپنے بیٹے شرافت کو دیکھا تو بے اختیار اس کی طرف بڑھ گئے۔اسے خوب پیار کیا۔دونوں رو رہے تھے۔شرافت خوف زدہ ہو کر خاموش ہو گیا تھا۔انسپکٹر توحید نے بتایا کہ ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے،جس کے قبضے سے دس بچے برآمد کیے گئے ہیں،ان بچوں میں شرافت بھی شامل ہے۔وہ شخص بچوں کو ایک گروہ کے ہاتھوں فروخت کرتا تھا،جو انھیں معذور کرکے بھکاری بناتے تھے۔اگر بروقت کارروائی نہ ہوتی تو یہ بچے بھی فروخت کر دیے جاتے۔
شرافت کے آنے سے جھگی میں رونق لوٹ آئی تھی۔امانت بار بار بہادر اور لاڈلے کی گردنوں کو دیکھ رہا تھا،جہاں مسلسل پٹا پڑا ہونے سے ان کے بال اُڑ گئے تھے۔آخر ایک فیصلہ کرکے امانت نے اشرف کی تلاش شروع کر دی،جس سے امانت نے بندر خریدے تھے۔آخر وہ اشرف کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
”تم ان دو بندروں کو کہاں سے پکڑ کر لائے تھے؟“
امانت کے سوال پر اشرف نے بتایا:”میں انھیں ایوبیہ کے پہاڑی مقام سے پکڑ کر لایا تھا۔“
”تمہیں میرے ساتھ وہاں چلنا ہو گا۔“امانت نے اشرف کو غور سے دیکھ کر کہا۔
”کیوں؟“
اس کیوں کے جواب میں امانت نے ساری بات بتائی تو اشرف نے کہا:’وہاں تک پہنچنے اور واپس آنے میں بہت پیسہ لگے گا۔“
”میں پیسہ خرچ کرنے کے لئے تیار ہوں۔“امانت نے فوراً جواب دیا۔
ایک ہفتے بعد امانت،بہادر اور لاڈلے کو لے کر اشرف کے ساتھ ایوبیہ میں موجود تھا۔درختوں کے جھنڈ کے قریب کھڑے تھے۔
”ہاں،ہاں․․․․یہی وہ جگہ ہے جہاں سے میں نے ان بندروں کو پکڑا تھا۔بالکل یہی جگہ ہے۔“اشرف نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔
امانت نے کچھ کہے بغیر دونوں بندروں کے پٹے کھولے،ان کو پیار کیا۔ان کی گردنوں سے اُڑے ہوئے بال دیکھے اور پُرنم آنکھوں سے انھیں تکتے ہوئے کہا:”جاؤ میرے پیارو،جاؤ اپنی ماں کے پاس واپس جاؤ،آزاد دنیا میں،جہاں کوئی تمہاری گردنوں میں پٹا نہ ڈالے۔آج سے تم آزاد ہو،جاؤ۔“
بہادر اور لاڈلا کچھ دیر تو امانت کو تکتے رہے پھر چھلانگیں لگاتے ہوئے،درختوں کے جھنڈ میں دور بہت دور نکل گئے۔اب امانت خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔اس کے بعد امانت نے ساری زندگی محنت مزدوری کرکے روزی کمائی،مگر کسی جانور کو قید میں نہیں رکھا۔
Browse More Moral Stories
مکّار پری (آخری قسط)تحریر: مختار احمد
Makkar Pari
مجرم پکڑے گئے۔۔تحریر:مختار احمد
Mujrim Pakde Gaye
قربانی کا بدلہ
Qurbani Ka Badla
دو دوست دو دشمن
Do Dost Do Dushman
شرارتی ریچھ
Shararti Reech
آمِش سادگی سچائی اور قدیم روایتوں سے جڑا ہوا حسین قبیلہ
Amish - Saadgi Sachai Or Qadeem Rewayatoon Se Jura Hua Haseen Qabila
Urdu Jokes
ایک بال کی جگہ
aik baal ki jagah
بڑے بڑے بالوں والا
barray barray balon wala
کنجوس شربت والے سے
kanjoos sharbat wale se
جوتوں کی دوکان
jooton ki dokaan
کمینہ
kamena
اداسی کی وجہ
udasi ki wajah
Urdu Paheliyan
ایک ہے ایسا کاری گر
ek hai aisa karigar
پہلے شوق سے کھائیے
pehle shok sy khaiye
دن کو سوئے رات کو روئے
din ko soye raat ko roye
ایک ہے ایسا قصہ خوان
aik hi aisa qissa khan
بھاگا بھاگا نیچے جائے
bhaga bhaga neeche jaye
اک منا پانی میں نہائے
ek munna pani me nahae