Bale Ka Ghora - Article No. 1369

Bale Ka Ghora

بالے کا گھوڑا۔ تحریر: مختار احمد - تحریر نمبر 1369

ایک گاؤں میں دو کمہار رہا کرتے تھے- ایک کا نام بالا تھا اور دوسرے کاگامو- دونوں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایک دوسرے کے پڑوس میں رہتے تھے

جمعہ 12 اپریل 2019

ایک گاؤں میں دو کمہار رہا کرتے تھے- ایک کا نام بالا تھا اور دوسرے کاگامو- دونوں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایک دوسرے کے پڑوس میں رہتے تھے- وہ مہینے کے شروع کے پندرہ دنوں میں تو چکنی مٹی اور ریت سے برتن بنا بنا کر انھیں ایک جگہ جمع کرتے رہتے پھر مہینے کے باقی پندرہ دنوں میں انہیں فروخت کرنے کے لیے نکل جاتے-
بالے کے پاس بھی ایک گھوڑا تھا اور گامو کے پاس بھی- وہ دونوں اپنے اپنے گھوڑوں پر برتن لاد کر گلی گلی محلے محلے بیچا کرتے تھے- کسی روز گاؤں میں ان کے برتنوں کی بکری نہیں ہوتی تھی تو اگلے روز وہ شہر کا رخ کرتے-
شہر اگرچہ دور پڑتا تھا مگر وہاں ان کے برتن ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتے تھے اور انھیں اچھے پیسے بھی مل جاتے تھے- بالا سوچتا تھا کہ شہر والے برتنوں کو زیادہ جلدی توڑتے ہیں، اس لیے انھیں ہمیشہ نئے برتنوں کی ضرورت رہتی ہے- وہ اس بات پر بہت حیرت کرتا تھا کہ شہر میں رہنے والے ان کی حفاظت پر زیادہ توجہ کیوں نہیں دیتے جس کی وجہ سے وہ جلد ہی ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں- وہ فخر سے سوچتا کہ اس کے گھر میں تو ابھی تک مٹی کا وہ پیالہ موجود ہے جس میں اس کی دادی پانی پیا کرتی تھی-
بالے اور گامو کے گھوڑے شکل و صورت میں بالکل ایک جیسے تھے، قد کاٹھ بھی ایک سا اور رنگ بھی ایک سا- ان کی شکل و صورت تو ایک ہی جیسی تھی مگر ان کے مزاجوں میں زمین آسمان کا فرق تھا-
بالے کا گھوڑا نہایت اچھا تھا- وہ بالے کا تو دوست تھا ہی مگر اس کے گھر والوں سے بھی بڑا مانوس تھا- جب بالا اس پر مٹی کے برتن لادتا تو وہ خاموشی سے کھڑا دم ہلاتا رہتا اور ذرا بھی ادھر ادھر نہ ہوتا- اسے پتہ تھا کہ اس کے حرکت کرنے سے اس کے مالک کے مٹی کے برتن نیچے گر کر ٹوٹ جائیں گے اور اس کا نقصان ہوگا- بالے کو اپنے گھوڑے سے بہت محبّت تھی- وہ اس کا بہت خیال رکھتا تھا- وقت پر چارہ اور پانی دیتا- شام کو میدان سے اس کے لیےہری ہری اور نرم نرم گھاس درانتی سے کاٹ کر لاتا اور اس کے سامنے ڈالتا- اس کے گھوڑے کو جو اور باجرہ بہت پسند تھا- جو اور باجرہ اگرچہ خریدنے میں مہنگے تھے مگر بالا ہفتے میں دو تین دفعہ اس کے لیے جو کے دانے اور باجرہ بھی لے آتا- بالے نے آج تک اپنے گھوڑے کو نہیں مارا تھا- وہ کہتا تھا کہ یہ میرا دوست ہے- میں اپنے دوست کو کبھی نہیں ماروں گا- بالے کا گھوڑا اس لیے اچھا تھا کہ اس کے مالک کا سلوک اس کے ساتھ اچھا تھا-
اس کے برعکس گامو کا گھوڑا بڑا اڑیل تھا- کسی اور کو تو کیا گامو کو بھی اپنے قریب نہیں آنے دیتا تھا- ایک روز تو اس نے گامو کے ہی دولتیاں جھاڑ دی تھیں اور وہ دور زمین پر جا گرا تھا- اس کے بعد غصے میں آ کر اس نے ایک موٹے ڈنڈے سے اپنے گھوڑے کی بہت پٹائی کی تھی- جس جگہ گھوڑے کی دولتیاں پڑی تھیں اس جگہ گامو کو کئی روز تک شدید درد ہوتا رہا تھا- اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس بدتمیز گھوڑے کا کیا علاج کرے- گامو کا گھوڑا اس لیے ایسا بن گیا تھا کہ گامو کا رویہ اس کے ساتھ نہایت ظالمانہ تھا-
ایک روز صبح صبح کا وقت تھا- گامو اپنی چھت پر چڑھا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ اسے بالا نظر آیا- بالا اپنے گھوڑے کے نزدیک گیا تو گھوڑا اسے دیکھ کر زمین پر سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور خوشی سے دم ہلاتے ہوےٴ ہنہنانے لگا- بالے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا- اس کے چارے کی بالٹی کا جائزہ لیا اور جب اسے اطمینان ہوگیا کہ اس کے گھوڑے نے پیٹ بھر لیا ہے تو وہ مٹی کے برتنوں سے بھری دو ٹوکریاں لے آیا اور انھیں احتیاط سے گھوڑے کی پشت سے لگی کاٹھی میں لٹکا دیں اور برتنوں کو بیچنے کے لیے گھر سے نکل گیا-
یہ منظر دیکھ کر گامو نے بڑی حسرت سے سوچا کہ ایک گھوڑا بالے کا ہے کتنا اچھا، سیدھا سادھا اور شریف- میرے گھوڑے کو دیکھو تو زمانے بھر کا بدمعاش ہے- یہ بات سوچ کر ہی اسے غصہ آگیا، اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، ڈنڈا اٹھا کر دے دھنا دھن اپنے گھوڑے پر برسا دیے-
اس اچانک افتاد پر پہلے تو گھوڑا حیران ہوا، پھر کھڑے ہو کر اس نے جو دولتی جھاڑی تو اس روز کی طرح گامو پھر دور جاگرا اور جس جگہ گھوڑے کی لاتیں پڑی تھیں، زور کا درد شروع ہوگیا- اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے-
شور شرابا سن کر اس کی بیوی جو اپنے کام میں مصروف تھی، دوڑ کر آئ- اسے دیکھ کر گامو ہائے ہائے کرتے ہوےٴ اٹھ کھڑا ہوا اور آنکھیں نکال کر بولا "سارا قصور تیرا ہے- نہ جہیز میں ایسا گھوڑا لاتی، نہ میں روز روز پٹتا- دور ہو جا میری نظروں سے"- اس کی بیوی اس کی عادتوں سے اچھی طرح واقف تھی، اس نے سوچا کہ اگر کچھ کہے گی تو اور بات بڑھے گی- وہ خاموشی سے چلی گئی-
گامو کا درد اتنا بڑھا کہ اس روز وہ کام پر بھی نہ جا سکا- دن بھر چارپائی پر پڑا ہائے ہائے کرتا رہا- شام کو اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی- اس نے سوچا کہ میرا گھوڑا اور بالے کا گھوڑا دونوں ایک جیسے ہیں، تو کیوں نہ میں چپکے سے اپنے گھوڑے سے بالے کے گھوڑے کو بدل لوں- یہ سوچ کر اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آگئی- وہ رات ہونے کا انتظار کرنے لگا-
جب آدھی رات ہوگئی تو وہ دھیرے سے اٹھا- دیوار پھاند کر بالے کے گھر میں داخل ہوا پھر باہر کا دروازہ کھولا اور اپنا گھوڑا اندر صحن میں لے آیا- اپنے گھوڑے کی رسی اس نے منہ میں دبائی اور زمین پر بیٹھ کر بالے کے گھوڑے کی رسی کھونٹے سے کھولنے لگا-
وہ سارا کام نہایت خاموشی سے کر رہا تھا کہ اچانک اس کے گھوڑے نے اچھل کود شروع کردی- وہ گھبرا گیا- اس کو ڈر تھا کہ اس شور سے بالے کی آنکھ نہ کھل جائے- پھر وہ ہی ہوا- اس کے گھوڑے نے اچھل کود بند نہیں کی تھی جس کی وجہ سے بہت شور ہورہا تھا- اس شور سے بالے اور اس کی بیوی کی آنکھ کھل گئی- اس کی بیوی خوفزدہ ہو گئی کہ گھر میں چور گھس آئے ہیں- بالا باہر نکلنے کے لیے چارپائی سے اٹھا تو اس کی بیوی گھبرا کر بولی "بالے- باہر مت جا- آج کل چور اپنے ساتھ پستول لیے پھرتے ہیں"-
مگر بالا ڈرپوک نہیں تھا، ایک بہادر آدمی تھا- اس نے لالٹین اٹھائی اور لاٹھی لے کر باہر نکلا- اس کی بیوی اس کے پیچھے پیچھے تھی-
بالا باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ گامو اپنے گھوڑے کے ساتھ وہاں موجود ہے- اس کا گھوڑا بگڑ گیا تھا اور بہت اچھل کود کر رہا تھا-
"گامو تم اتنی رات گئے میرے گھر میں کیا کر رہے ہو؟ تم اندر کیسے آئے، میں نے تو دروازے کی کنڈی اندر سے خود لگائی تھی"- بالے نے حیران ہوتے ہوےٴ کہا-
اس کی بیوی بہت سیدھی تھی، بالے سے بولی "بالے تو دیکھ نہیں رہا ہے- گامو بھائی کا گھوڑا بدک کر ہمارے گھر میں گھس آیا ہے- وہ اسے لینے آئے ہیں- کیوں گامو بھائی؟"-
ان کی باتیں سن کر اور شرمندگی کے احساس سے گامو کی آنکھوں میں آنسو آگئے- اس نے گلوگیر آواز میں کہا "بالے بھائی- مجھے معاف کردو- مجھ سے بھول ہوگئی ہے- میں اپنا اڑیل گھوڑا تمہارے سیدھے سادھے گھوڑے سے بدلنے کے لیے آیا تھا- میرے گھوڑے نے مجھے بہت تنگ کر کے رکھا ہوا ہے"-
گامو کو روتے ہوےٴ دیکھا تو بالے کو اس پر بہت ترس آیا- اس کی بیوی بھی افسردہ ہو گئی اور بولی "کتنا خراب گھوڑا ہے جس کی وجہ سے ہمارے گامو بھائی کو چور بننا پڑ گیا ہے"-
بالے نے گامو کو تسلی دی، اس کے گھوڑے کو چمکارا، اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو گھوڑا حیرانی سے بالے کو دیکھنے لگا- وہ اس بات پر حیران ہو رہا تھا کہ اس کی حرکتوں پر پٹائی نہیں لگی- وہ خوشی سے ہنہنانے لگا- گامو بھی اپنے گھوڑے کی اس کی تبدیلی پر حیران نظر آ رہا تھا-
بالے نے گامو سے کہا "گامو اپنے گھوڑے کو گھر میں باندھ آؤ- پھر ہم آرام سے بیٹھیں گے- مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنا ہے"- پھر وہ اپنی بیوی سے مخاطب ہوا "شاداں- تو اتنی دیر میں چائے بنالے"-
گامو شرمندہ شرمندہ سا اپنا گھوڑا لے کر چلا گیا- تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا- اس کے چہرے پر ابھی تک ندامت کے آثار تھے- بالے نے اسے ایک مرتبہ پھر تسلی دی اور بولا "تم فکر مت کرو- میں نے تمہاری اس حرکت کو معاف کردیا ہے- میں اس کا تذکرہ کسی سے نہیں کروں گا- شاداں کو بھی منع کردوں گا کہ وہ کسی سے کچھ نہ کہے- بس اب تم مطمئن ہوجاؤ"-
اس کی باتیں سن کر گامو کا دل پھر بھر آیا- اس نے کہا "میرے ساتھ کسی کا بھی سلوک اچھا نہیں ہے، بیوی بچے بھی میری بات نہیں سنتے- میرا گھوڑا بھی میرے بس میں نہیں ہے، مجھے دیکھتے ہی بدکنے لگتا ہے- اسی بات پر غصے میں آکر میں اس کی پٹائی بھی لگاتا ہوں اور کئی کئی دن تک بھوکا بھی رکھتا ہوں مگر یہ بد ذات پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا- بالے بھائی میں کیا کروں- میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا"- اتنا کہہ کر گامو پھر سسکیاں بھر بھر کر رونے لگا-
اس کے رونے کی آواز سنی تو شاداں ایک پیالے میں پانی بھر کر لے آئ- اس نے کسی سے سن رکھا تھا کہ روتے ہوےٴ کو پانی پلادو تو اس کا رونا تھم جاتا ہے-
گامو نے پانی نہیں پیا، بولا "میں گھوڑا باندھنے گھر گیا تھا تو وہاں سے پانی بھی پی لیا تھا- اب نہیں پیوں گا"- پھر اس کا رونا بغیر پانی پئے ہی تھم گیا- اس نے بالے سے بڑے حسرت بھرے انداز میں کہا "میں کیا کروں بالے بھائی- میرے ساتھ میرے گھر والوں کا اور اس گھوڑے کا سلوک کیسے ٹھیک ہوگا؟"-
بالے نے کہا "گامو میں تمہیں اپنے بھائیوں جیسا سمجھتا ہوں- میری بات کا برا نہیں ماننا- ہم دونوں شروع ہی سے ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں- پڑوسیوں کا رشتہ سگے رشتے داروں سے بڑھ کر ہوتا ہے- تمہارے گھر سے ہمیں روز لڑائی جھگڑوں کی آوازیں آتی ہیں تو ہمیں بہت افسوس ہوتا ہے- تم اپنے بیوی بچوں پر چیختے چلاتے رہتے ہو- بچوں کو ذرا ذرا سی بات پر مارتے ہو- یہ نہیں سوچتے کہ تمہاری بیوی دن بھر تمہاری خدمت کے لیے گھر کے کاموں میں لگی رہتی ہے- بچے پڑھنے مدرسے بھی جاتے ہیں اور گھر کے کاموں میں اپنی ماں کا ہاتھ بھی بٹاتے ہیں- تم پھر بھی ان کی تعریف کے دو بول نہیں بولتے، الٹا انھیں مارتے پیٹتے رہتے ہو- میرا تو کوئی بچہ مجھے پانی پلاتا ہے تو پانی پی کر میں کہتا ہوں "واہ بھئی- تمہارے ہاتھ کا کتنا میٹھا پانی ہوتا ہے" میری اس بات سے ہی وہ بہت خوش ہوجاتا ہے"-
"بالے بھائی- تمہاری ساری باتیں ٹھیک ہیں- میں اپنے غصے، بدمزاجی اور سختیوں سے اپنے گھر والوں پر رعب جما کر رکھتا ہوں- مگر ان باتوں سے میرے گھوڑے کے اڑیل پن کا کیا تعلق ہے- وہ تو جانور ہے اس میں عقل کہاں؟"-
"یہ ہی ہماری بھول ہے کہ ہم جانوروں کو بے عقل سمجھتے ہیں- ان میں بہت عقل ہوتی ہے اور ہمارا سلوک دیکھ کر وہ ہم سے یا تو محبّت کرتے ہیں یا نفرت- میں ایک بار پھر کہوں گا کہ برا نہیں ماننا، اگر گامو بھائی تم اپنے سلوک میں تبدیلی لے آؤ تو کیا تمہارے گھر والے اور کیا تمہارا گھوڑا، سب ہی تمہارے قریب آجائیں گے- میں نے آج تک اپنے گھوڑے کو نہیں مارا ہے- وہ میرے اور میرے گھر والوں کے رزق کا ذریعہ ہے- میں ہمیشہ اس سے پیار محبّت کا سلوک کرتا ہوں، خود کھانا بعد میں کھاتا ہوں، اس کا چارہ پہلے ڈالتا ہوں- ایسا ہی اچھا سلوک میں اپنے گھر والوں سے بھی کرتا ہوں- شاداں کوئی سا بھی کھانا پکائے میں خوش ہو کر کھاتا ہوں اور کھانے کی تعریف کرتا ہوں- اس سے میرا تو کچھ نہیں جاتا مگر اس کا دل بڑھ جاتا ہے- اپنے بچوں کو بھی میں ڈانٹتا ڈپٹتا نہیں ہوں- میں ان کے کاموں پر بھی ان کو شاباش دیتا ہوں- ان شاباشیوں کی وجہ سے وہ مزید اچھے اچھے کام کرتے ہیں"-
بالے کی بات سن کر گامو سوچ میں پڑ گیا- تھوڑی دیر بعد اس نے کہا "بالے بھائی میں نے کبھی تم لوگوں کے گھر سے لڑائی جھگڑوں کی آواز نہیں سنی"-
"اور خدا نے چاہا تو کبھی سنو گے بھی نہیں- میں اپنے گھر کا سربراہ ہوں، گھر کے سربراہ کا سلوک گھر میں رہنے والوں کے ساتھ اچھا ہو تو پھر نہ لڑائیاں ہوتی ہیں اور نہ جھگڑے"- بالے کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ شاداں ان کے لیے چائے لے آئ- وہ سب چائے پینے لگے-
چائے ختم ہوئی تو گامو اٹھتے ہوےٴ بولا "بالے بھائی- میں تمہارا بہت شکر گزار ہوں- تمہاری باتیں سن کر مجھے اپنی ساری غلطیاں ایک ایک کر کے یاد آگئی ہیں- میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کا اب نہ تو ہر وقت جلتا کڑھتا رہوں گا، نہ کسی بات پر غصہ کروں گا اور نہ ہی کسی سے برا سلوک کروں گا- نہ اپنے گھر والوں کے ساتھ اور نہ ہی اپنے گھوڑے کے ساتھ "-
یہ کہہ کر گامو اپنے گھر چلا گیا - وہ صبح اٹھا تو اس کی ناک میں پراٹھوں کی خوشبو آئ- وہ اٹھ کر باہر نکلا، اس کی بیوی باہر صحن میں مٹی کے چولہے پر توا رکھ کر پراٹھے بنا رہی تھی- وہ ایک پیڑھی گھسیٹ کر اس کے پاس بیٹھ گیا اور بڑے پیار سے بولا "نوراں- توکتنے اچھے پراٹھے بنا رہی ہے، خوشبو سے میری تو آنکھ ہی کھل گئی- آج میرے لیے تین پراٹھے بنانا"-
اس کی بات سن کر نوراں حیران رہ گئی- اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ اس طرح کے الفاظ اپنے شوہر کے منہ سے سنے تھے- مارے خوشی کے اس کی تو بانچھیں کھل گئیں- "میں تین نہیں تیرے لیے چار پراٹھے پکاؤں گی- تو سارا سارا دن محنت بھی تو بہت کرتا ہے- بھوک تو لگتی ہی ہوگی"-
نوراں کی یہ پیار بھری باتیں گامو نے آج پہلی مرتبہ غور سے سنی تھیں- اسے یہ سوچ کر بہت اچھا لگا کہ نورا کو اس کی بھوک پیاس کی اتنی فکر ہے-
ناشتے میں دیر تھی اس لیے گامو اٹھ کر اپنے گھوڑے کے پاس آیا- گھوڑا اس کو دیکھ کر بدکا مگر گامو نے اس کی پیٹھ پر محبت سے ہاتھ پھیرا، پھر اس کا سر پکڑ کر اپنے سینے سے لگایا اور بولا "اب گامو سے بدکنے کی ضرورت نہیں، گامو بدل گیا ہے میرے دوست"- پھر اس نے گھوڑے کی ناند میں تازہ چارہ ڈالا، ایک بالٹی میں جو کے دانے بھر کر اس کے سامنے رکھے، اس کو ایک مرتبہ پھر پیار سے چمکارا تو گھوڑا بھی ہنہنانے لگا اور اپنا چارہ کھانے میں مشغول ہو گیا-
اچانک گامو کی نظر لکڑی کے موٹے سے ڈنڈے پر پڑی تو اسے دل ہی دل میں بہت ندامت محسوس ہوئی- اس ڈنڈے ہی سے وہ اس بے زبان جانور کو بری طرح پیٹا کرتا تھا- اس نے وہ ڈنڈا اٹھایا اور لے جا کر نوراں کو دے دیا- "لے نوراں اس کو چولہے میں ڈال دے- اس سے میں نے اپنے گھوڑے پر بڑے ظلم کیے ہیں"-
نوراں نے اس کام میں دیر نہیں لگائی- اس کا دل خود اس وقت بہت دکھتا تھا جب گامو اس بے زبان پر ظلم کرتا تھا- تھوڑی دیر بعد ان کے دونوں بچے بھی مدرسے جانے کے لیے اٹھ گئے- انہوں نے جب دیکھا کہ ان کا باپ ناشتے کے لیے بیٹھا ہے تو وہ اس ڈر سے دوبارہ کمرے میں چلے گئے کہ گامو کسی بات پر انھیں ڈانٹنے نہ لگ جائے-
گامو خود اٹھ کر ان کے پاس گیا- دونوں کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور انھیں ناشتے کا کہا- اس کے بدلے ہوےٴ رویے نے بچوں کو بھی حیران کر دیا تھا مگر وہ خوش بھی بہت تھے َاور خوش خوش مدرسے چلے گئے-
جب بچے مدرسے چلے گئے اور گامو بھی کام پر جانے کے لیے تیار ہوگیا تو نوراں اس کے جوتے اٹھا کر لائی، انھیں جھاڑ پونچھ کر اسے دیے اور بولی "نظر نہ لگے- گامو تو تو بالکل ہی بدلا بدلا لگ رہا ہے- رات کوئی خواب تو نہیں دیکھ لیا؟"-
گامو ہنس کر بولا "ہاں نوراں- رات میں نے ایک خواب ہی دیکھا تھا- اس خواب میں بالا بھائی، شاداں بہن اور ہم دونوں کے گھوڑے بھی تھے"- یہ کہہ کر گامو خاموش ہوگیا- نوراں کی سمجھ میں اس کی بات تو نہیں آئ مگر وہ اس بات پر بہت خوش تھی کہ گامو ایک نیا انسان بن گیا ہے-

Browse More Moral Stories