Banty - Article No. 1900

Banty

بنٹی - تحریر نمبر 1900

گاؤں دیہات میں لوگ جانوروں کو بڑے پیار سے پالتے ہیں اور ان کا نام بھی رکھتے ہیں

جمعرات 18 فروری 2021

جاوید اقبال صدیقی
فیضی اور طوبیٰ بہت خوش تھے ،کیونکہ آج ان کے بابا منڈی سے قربانی کا جانور لانے والے تھے۔دونوں بچے تیار ہو کر اپنے بابا جان کے ساتھ جانوروں کی منڈی میں پہنچ گئے۔منڈی میں ایک سے ایک خوبصورت گائیں،بیل،بچھڑے،بکرے،دُنبے،بھینسے اور اونٹ فروخت کے لئے لائے گئے تھے۔یہ ایک عارضی منڈی تھی جو شہر سے دور لگائی تھی۔
دونوں بچے اپنے بابا کے ساتھ جانوروں کو دیکھتے ہوئے جا رہے تھے کہ ایک گائے کو دیکھ کر طوبیٰ رک گئی۔
”دیکھیں بابا!یہ بہت خوبصورت گائے ہے،اسے خرید لیتے ہیں۔“طوبیٰ نے کہا۔
بابا اور فیضی کو بھی یہ گائے بہت اچھی لگی۔تھوڑے سے بھاؤ تاؤ کے بعد انھوں نے گائے خرید لی اور اسے لے کر گھر آگئے۔رات بہت ہو چکی تھی دونوں بچے سو گئے۔

(جاری ہے)

سردی کا موسم تھا،اس لئے انھوں نے گائے کو اپنے چھوٹے سے آنگن میں ہی باندھ دیا۔

اگلے دن صبح ہی دونوں بچوں نے اپنے بابا جان کے ساتھ مل کر گائے کو خوب نہلایا۔اس کے پاؤں میں خوبصورت کنگن،ماتھے پر ٹیکہ اور گلے میں دلکش رنگوں کا ہار ڈال دیا،جس سے وہ اور بھی خوبصورت لگنے لگی۔گائے بھی بہت خوش لگ رہی تھی۔ایسا لگتا تھا جیسے گائے کو بھی طوبیٰ اور فیضی کی ہی تلاش تھی۔
اگلے دن صبح فیضی کو ناشتہ کرتے دیکھ کر گائے نے بھیں بھیں شروع کر دیا۔
اس نے جلدی سے اپنا پر اٹھا اس کے منہ کے قریب کر دیا جسے وہ مزے لے کر کھا گئی۔ایسے لگا جیسے گائے ایسے ہی مرغن پراٹھوں کی عادی تھی۔دونوں بچے گائے کی خدمت کرنے میں لگ گئے تھے۔جب بھی وہ گائے کے پاس جاتے وہ ان کے ہاتھ چاٹنے لگ جاتی،جس سے بچے اور بھی خوش ہوتے۔طوبیٰ سے تو اس کا پیار دیکھنے والا تھا۔وہ ہر وقت طوبیٰ کو دیکھتی رہتی تھی۔جب بھی طوبیٰ کوئی چیز کھلانے کے لئے اس کے قریب جاتی گائے تو جیسے گہری سوچ میں گم ہو جاتی۔

”بیٹا!جلدی کرو گائے آگئی ہے اس کو باندھو۔“اماں نے بلو سے کہا۔
”اماں!اس دفعہ گائے کا بچہ میرا ہو گا۔“بلو کہنے لگی۔بلو اپنی اماں اور ابا فضل دین کے ساتھ ایک دور دراز دیہات میں رہتی تھی۔کھیتی باڑی کرنا اور جانور پالنا اس خاندان کا پیشہ تھا۔ان کے گھر میں بہت سارے جانور تھے۔بلو کو اپنے جانور سے بہت پیار تھا۔ان کے گھر میں ایک گائے،تین بکریاں،بہت سی مرغیاں،چوزے،ایک خوبصورت بلی اور گھر کی حفاظت کے لئے ایک کتا بھی تھا۔
کچھ ہی دنوں بعد گائے نے ایک خوب صورت بچہ دیا۔بلو نے اس کا نام بنٹی رکھ دیا۔بلو دن رات گائے اور اس کے بچے کی خدمت کرتی۔ بنٹی اب بڑی ہو گئی تھی،اس لئے وہ گھر بھر میں دوڑتی پھرتی تھی۔بلو جدھر جاتی،بنٹی بھی اس کے ساتھ جاتی۔بنٹی اپنی ماں کے پاس سونے کے بجائے بلو کے پلنگ کے پاس ہی سو جاتی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد بلو کے ہاتھ یا پیر کو چاٹتی رہتی۔
بنٹی ایک سال کی ہونے والی تھی۔ ایک دن بلو کے ابا فضل دین نے کہا:”مجھے ڈر ہے کہ کہیں رات کو بنٹی،بلو کے پلنگ پر نہ چڑھ جائے اور بلو اس کے نیچے دب جائے۔لہٰذا ہمیں بنٹی کو رات میں گائے کے پاس ہی کھونٹے سے باندھنا چاہیے۔“
ابا کے بے حد اصرار کے بعد بلو بنٹی کو کھونٹے سے باندھنے پر راضی ہوئی۔ایک دفعہ بنٹی بیمار ہو گئی اور اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا تو بلو دن رات بنٹی کی تیمار داری میں لگی رہی۔
وہ دن میں دو دفعہ گاؤں کے حکیم چاچا کے پاس جاتی اور بنٹی کے لئے دوا لے کر آتی۔جب بنٹی نے کھانا پینا شروع کیا تو بلو کی جان میں جان آئی۔گاؤں والے بلو کا اپنی گائے سے اتنا پیار دیکھ کر بہت حیران ہوتے۔بنٹی بھی بلو کے ہاتھ سے ہی چارا کھاتی تھی۔اماں یا بابا اس کے پاس جاتے تو وہ منہ دوسری طرف کر لیتی۔ایک دفعہ جب بلو کو سخت بخار ہو گیا اور وہ اُٹھنے کے قابل نہ رہی تو بنٹی نے بھی چارا کھانا چھوڑ دیا۔
وہ سارا سارا دن بلو کے پلنگ کو دیکھتی رہتی ۔جب کھائے پیے بغیر گائے نے دو دن گزار دیے تو اماں زبردستی بلو کو پکڑ کر اس کے پاس لائیں۔بلو نے اس کے ماتھے پر ہاتھ پھیرا اور اسے پانی پلایا۔جب بلو واپس اپنے پلنگ پر جانے لگی تو بنٹی بھی اپنی رسی توڑ کر بلو کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔اب بنٹی ایک خوبصورت مکمل گائے بن چکی تھی۔
ایک دن گاؤں کا قصائی چاچا کرمو بلو کے گھر آگیا اور کہنے لگا:”بھائی فضل دین!تمہارا جانور اب دو سال کا ہو گیا ہے۔
کیا خیال ہے اس سال آجاؤں؟“
بلو،چاچا کرمو کو دیکھ کر اُداس ہو گئی۔وہ اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا،کیونکہ وہ گاؤں کے سارے خوبصورت جانور لے جاکر منڈی میں بیچ دیتا تھا۔اس عید پر اس کی نظر بنٹی پر تھی۔
”کیا بات ہے بیٹی!تم کچھ پریشان لگ رہی ہو۔“
”اماں!میں بنٹی کو نہیں بیچنے دوں گی۔میں نے اسے بہت پیار سے پالا ہے،یہ میری دوست ہے۔
میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔“بلو رونے لگی۔
بلو کو روتے دیکھ کر اماں اس کے قریب آئیں اسے اپنے گلے لگا لیا اور کہنے لگیں:”دیکھو بیٹی!ہم غریب لوگ ہیں اور جانور پالتے ہیں،پھر ان کو بیچ کر ہمیں جو پیسے ملتے ہیں،ان سے ہم اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔یہ گائے تمہاری ہے،اسے بیچ کر جو پیسے ملیں گے،وہ تم اپنے پاس رکھ لینا،کل کو تمہارے کام آئیں گے۔

پھر ایک دن چاچا کرمو آکر بنٹی کو لے گیا۔بلو نے رو رو کر بُرا حال کر لیا۔وہ بار بار اماں سے سوال کرتی رہی کہ اب بنٹی کہاں ہو گی!چاچا کرمو اسے کہاں لے کر جائے گا!شہر والے اسے کہاں رکھیں گے!شہر میں اسے کھانے کو کیا ملے گا!ان ہی سوالوں میں گم رات کے پچھلے پہر بلو کو نیند آگئی۔عید میں ابھی چند دن باقی تھے۔محلے میں طرح طرح کے جانوروں کی گویا نمائش لگی ہوئی تھی۔

طوبیٰ نے کہا:”کیوں نہ ہم اس کا پیارا سا کوئی نام رکھ لیں۔“
فیضی میٹھی گولیاں کھانے کا شوقین تھا،جو بنٹی کہلاتی ہے۔فیضی نے بنٹی کھاتے ہوئے طوبیٰ سے کہا:”ہم اس کا نام بنٹی رکھ لیتے ہیں۔“
جیسے ہی طوبیٰ نے گائے کو بنٹی کے نام سے پکارا۔گائے نے فوراً پلٹ کر طوبیٰ کو دیکھا۔
”مما!لگتا ہے اس کا نام بنٹی ہی ہے۔

”ہاں بیٹا!گاؤں دیہات میں لوگ جانوروں کو بڑے پیار سے پالتے ہیں اور ان کا نام بھی رکھتے ہیں۔“مما نے کہا۔
”ہم اس کو ذبح نہیں کریں گے۔اتنی پیاری گائے ہے ہم اس کو پال لیتے ہیں۔“
”بیٹا!یہ اتنا بڑا جانور ہے ہم اس کو کہاں رکھیں گے۔ہمارے گھر میں جگہ ہی کہاں ہے۔“مما فیضی کو سمجھانے لگیں۔رات کو دیر تک دونوں بچے گائے کے ساتھ ہی رہتے اور صبح ہوتے ہی اس کے کھانے کے بندوبست میں لگ جاتے۔
ان کو اپنے کھانے سے زیادہ بنٹی کے کھانے کی فکر ہوتی۔آج عید قرباں تھی۔فیضی تیار ہو کر اپنے بابا کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے چلا گیا۔نماز پڑھ کر جب وہ واپس آرہے تھے تو انھیں راستے میں قصائی مل گیا،جو ان کی گائے ذبح کرنے آرہا تھا۔قصائی کو گھر میں دیکھتے ہی دونوں بچوں نے کہرام مچا دیا۔فیضی ایک طرف کھڑا رو رہا تھا، جب کہ طوبیٰ نے اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیا تھا۔
رو رو کر بچے ہلکان ہو رہے تھے۔بابا فیضی کو جب کہ مما طوبیٰ کو چپ کرانے کی کوشش کرتے رہے۔اسی ہنگامے میں گائے ذبح ہو گئی۔بچوں کو ان کے ماموں اپنے ساتھ باہر لے گئے۔
”بلو․․․․․بلو!جلدی اُٹھو۔آج عید کا دن ہے تم اب تک سو رہی ہو۔“اماں کی آواز پر بلوں آنکھیں ملتی ہوئی اُٹھ گئی۔وہ سیدھی اماں کے پاس آئی اور رونے لگی۔
”کیا بات ہے بیٹی!آج عید کا دن ہے۔تم رو کیوں رہی ہو؟“
”اماں!آج رات میں نے خواب میں دیکھا بنٹی دو بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی کچھ کھا رہی تھی۔وہ بہت خوش تھی۔اس کے گلے میں ہار اور پاؤں میں خوبصورت کنگن بھی تھے۔اماں!لگتا ہے اس کو وہ جگہ پسند آگئی ہے۔“
”ہاں بیٹا!آج بنٹی اس سے بھی اچھی جگہ چلی جائے گی۔“

Browse More Moral Stories