Bara Kaam - Article No. 2396

Bara Kaam

بڑا کام - تحریر نمبر 2396

اگر تم ہوشیاری اور چالاکی نہ دکھاتے تو آج یہ ڈاکو بینک لوٹ کر لے جاتے

جمعرات 17 نومبر 2022

عاصمہ فرحین
نوید چودہ جماعتیں پاس کرکے سند لے چکا تھا،لیکن اسے اب تک اپنے معیار کی ملازمت نہ مل سکی تھی۔وہ اپنے والدین،تین بہن بھائیوں اور دادی کے ساتھ رہتا تھا۔اس کے والد کسی ادارے میں معمولی نوکری کرتے تھے،جس سے گھر کا خرچ مشکل سے پورا ہوتا تھا۔آخر مجبور ہو کر اخبار میں اعلان کردہ سیکیورٹی گارڈ کی نوکری کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

تین مہینے کی تربیت کے بعد وہ ایک نجی بینک میں سیکیورٹی گارڈ کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دینے لگا۔وہ جاسوسی ناولز پڑھنے کا شوقین تھا۔اسی لئے وہ ہر آنے جانے والے پر نظر رکھتا اور چوکس رہتا۔وہ صبح چہل قدمی کرتا اور رات کو جم بھی جاتا تھا۔بینک میں آنے جانے والے جو لوگ اسے مشکوک لگتے،ان پر نظر رکھتا۔

(جاری ہے)

اس طرح محنت اور دل لگا کر کام کرتے ہوئے چھ مہینے گزر گئے تھے۔


اسی دوران دوسرا سیکیورٹی گارڈ چھٹیوں پر گاؤں چلا گیا اور نئے سیکیورٹی گارڈ عزیز نے اس کی جگہ لے لی تھی۔
ایک دن لمبے قد اور بڑی عمر کے ایک صاحب آئے۔انھیں بینک اکاؤنٹ کھلوانا تھا۔تھوڑی دیر بعد وہ غصہ کرتے ہوئے چلے گئے۔دوسرے دن وہ پھر آئے،مگر ان کا بینک اکاؤنٹ نہیں کھل سکا۔جب تین چار دن تک وہ مسلسل آتے رہے اور ان کا کام نہ بنا تو نوید سے رہا نہ گیا اور پوچھ بیٹھا:”انکل!ایسا کیا مسئلہ ہے کہ آپ کا کام نہیں ہو رہا ۔
کہیں تو میں بینک منیجر سے بات کرتا ہوں۔“
تھوڑے ہی عرصے میں سب اسے اچھی طرح جاننے لگے تھے۔
”اگر تم میرا یہ کام کر دو تو،تمہاری بڑی مہربانی ہو گی۔“وہ نوید کے ہاتھ میں پانچ سو روپے کا نوٹ پکڑاتے ہوئے کہنے لگے۔
”مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔“نوید نے رقم لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا۔
چھٹی کے وقت جب اس نے منیجر صاحب سے بات کی تو وہ منہ بناتے ہوئے کہنے لگے:”وہ عجیب آدمی ہے۔
مجھے نہیں لگتا کہ اسے بینک میں اکاؤنٹ کھلوانا ہے۔بس کسی نہ کسی بہانے ہر ایک کے کمرے میں گھس جاتا ہے اور غصہ کرتا ہے۔اگر اسے اکاؤنٹ کھلوانا ہی ہے تو اس کے لئے ضروری کاغذات ساتھ لانے چاہییں۔اب اگر اس نے بدتمیزی کی تو اس کا بینک میں داخلہ بند کر دوں گا۔“
نوید کی سمجھ میں کچھ نہ آیا،مگر اسے تجسس ہوا تھا۔دوسرے دن وہ بینک کے اندر کسی ضروری کام سے گیا۔
واپسی آیا تو گارڈ عزیز کے پاس ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔نوید کو محسوس ہوا کہ اس نے اس آدمی کو پہلے کہیں دیکھا ہے۔کچھ ہی دیر میں وہ چلا گیا تھا۔
رات کو نوید سوچتے سوچتے سو گیا۔صبح عزیز غیر حاضر تھا۔اس کی طبیعت خراب تھی۔
آج نوید کی چھٹی حس اسے کسی خطرے سے ہوشیار کر رہی تھی۔وہ دل ہی دل میں دعائیں پڑھتا ہوا چوکس ہو کر ہوشیاری کے ساتھ ہر آنے جانے والے کو دیکھنے لگا۔

رات کو گھر جانے سے پہلے وہ کچھ جگہوں پر گیا۔پھر اس نے موبائل فون پر ضروری پیغامات بھیجے۔اس کے بعد مطمئن ہو کر سو گیا۔
اگلے دن وہ سب سے پہلے بینک منیجر کے پاس گیا اور تھوڑی دیر بعد جب وہ آفس سے نکلا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
گرمی زوروں پر تھی۔سہ پہر کے بعد چار آدمی کار میں سوار بینک کے مرکزی دروازے پر اُترے۔ان کے چہروں پر ماسک لگے ہوئے تھے اور آنکھوں پر سیاہ چشمے لگا رکھے تھے۔
سر کو ڈھانپ رکھا تھا۔دو ڈاکو اندر چلے گئے اور ایک نے پھرتی سے نوید کی پیٹھ پر پستول رکھ دی اور کہنے لگا:”اندر چلو۔“
ایک باہر کھڑا رہ گیا۔سامنے ہی ایک شربت والا ریڑھی کے پاس موجود تھا۔
اندر جاتے ہوئے نوید یکدم لڑکھڑایا اور گملے میں سے ایک پھول توڑ کر دروازے سے باہر پھینک دیا۔ڈاکو نوید کو اندر لے گیا تھا۔بینک میں موجود دو ڈاکو لوگوں پر پستولیں تانے ہوئے تھے۔
جب کہ ایک کیشیئر کے پاس کھڑا تمام رقم تھیلے میں ڈلوا رہا تھا۔
کچھ ہی دیر بعد وہ تھیلا ہاتھ میں لیے باہر نکلے۔جیسے ہی باہر آئے پولیس کے سپاہیوں نے انھیں چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔
انسپکٹر صاحب نے جب ان کے چہروں سے ماسک،چشمے اور رومال ہٹائے تو حیران رہ گئے۔ان میں ایک گارڈ عزیز اور دوسرا وہی لمبا تڑنگا شخص تھا جو بوڑھا بن کر روزانہ بینک اکاؤنٹ کھلوانے آتا تھا۔
ان دونوں نے مل کر بینک کے بارے میں تمام معلومات حاصل کر لی تھیں۔ان کے دو ساتھی اور تھے۔انسپکٹر صاحب نے نوید کو بلایا اور کہنے لگے:”تم نے بہت بڑا کام کیا ہے۔اگر تم ہوشیاری اور چالاکی نہ دکھاتے تو آج یہ ڈاکو بینک لوٹ کر لے جاتے۔کاش ہر کوئی تمہاری طرح بہادر بن جائے۔تمہارا شکریہ برخوردار!
”جناب!میں پولیس میں بھرتی ہونا چاہتا تھا۔
گریجویٹ ہوں،مگر بے روزگاری سے پریشان ہو کر گارڈ کی نوکری کر لی اور آج اپنی جاسوسی فطرت اور بے چین طبیعت کی وجہ سے مجرموں کو گرفتار کرا دیا۔گارڈ عزیز اور اس آدمی پر مجھے شک تھا،جو نقلی بال اور داڑھی لگا کر بینک آ رہا تھا۔اسی لئے میں نے بینک کے سامنے موجود شربت والے سے کہہ دیا تھا کہ اگر کوئی گڑبڑ ہو اور تم مجھے گملے میں سے پھول توڑتے یا دروازے پر پھینکتے ہوئے دیکھو تو مددگار پولیس کو فون کر دینا۔
اس نے ایسا ہی کیا اور اللہ کا کرم ہے کہ آپ یہاں پر ہیں۔“نوید نے مسکراتے ہوئے کہا۔
انسپکٹر صاحب نے پوچھا:”اگر پولیس بروقت نہ آتی تو․․․․؟“
”تو ڈاکوؤں کے پاس جو نوٹ تھے،وہ جعلی تھے۔میں نے پہلے ہی اس بارے میں منیجر صاحب سے بات کر لی تھی اور بازار سے نقلی نوٹ خرید کر انھیں دے دیے تھے۔“نوید نے منیجر صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
اگلے دن اخبار میں نوید کی بہادری اور شربت والے کے تعاون کے چرچے ہو رہے تھے اور پولیس کے محکمے نے نوید کو نوکری دینے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔

Browse More Moral Stories