Barfani Muhim Joyi - Article No. 2215

Barfani Muhim Joyi

برفانی مہم جوئی - تحریر نمبر 2215

راشد اور رمضان کی سب سے یادگار برفانی مہم

جمعرات 17 مارچ 2022

ارسلان اللہ خان
راشد اور رمضان ہم مزاج دوست تھے۔کالج کے امتحانات سے فارغ ہوئے تو اس بار ناران کاغان کے برف پوش علاقوں کی سیر کا پروگرام ترتیب دیا۔دونوں نے موسم کے مطابق اپنا گرم سامان اور ضرورت کی تمام چیزیں ساتھ لیں،تاکہ کسی قسم کی کوئی دشواری نہ ہو۔اسی دوران ان دونوں نے اپنے استاد پروفیسر انور سے ملاقات کی جو ایک بہترین شکاری تھے اور اکثر مہمات پر جاتے رہتے تھے۔
انھوں نے دونوں دوستوں کو بہت سی اہم باتیں بتائیں۔انھوں نے ایک کاغذ دیتے ہوئے کہا:”اس سفر کو محض تفریح کا ذریعہ نہ بناؤ،بلکہ اسے مہم بناؤ۔کاغان میں میرا دوست اکرم بٹ رہتا ہے،میں پرسوں تم دونوں سے وہاں ملوں گا۔پھر ہم برفانی مہم پر ساتھ جائیں گے۔“
”یس سر!“راشد اور رمضان نے پُرجوش ہو کر کہا۔

(جاری ہے)


دونوں کاغان میں بٹ صاحب کے گھر پہنچ گئے۔


”خوش آمدید میرے نوجوان دوستو!مجھے انور نے تم دونوں کے بارے میں بتا دیا تھا۔“
”جی سر!ہمیں آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔“
اگلے دن پروفیسر انور بھی کاغان آ گئے۔مزیدار کھانے کے بعد وہ اکرم بٹ کے ساتھ مل کر اپنی برفانی مہم جوئی کا نقشہ لے کر بیٹھ گئے۔
اگلے دن چاروں حضرات مہم پر روانہ ہو گئے۔”آج تو خرگوش اور پہاڑی بکرے ہاتھ آئے،لیکن کل․․․․“پروفیسر انور نے بٹ صاحب کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا۔

”یار راشد مجھے تو نیند ہی نہیں آ رہی۔جانے ان حضرات کے کیا ارادے ہیں؟ہم تو اچھا خاصا تفریح کرنے نکلے تھے اور بے وجہ ان کے ساتھ پھنس گئے۔“
”رمضان!اب یہ مت بولو!دیکھو تم نے ہی کہا تھا کہ شکار کرنا ہے۔“
اگلے دن بھرپور ناشتے کے بعد بٹ صاحب نے دونوں لڑکوں کو پستول چلانے کی ٹریننگ دی۔اس کے بعد پروفیسر انور شکاری لباس میں نمودار ہوئے۔
آج تو بٹ صاحب بھی ماہر شکاری لگ رہے تھے۔جیپ میں بیٹھ کر چاروں افراد برفانی علاقے کی جانب چل دیے۔
”دیکھو نوجوانوں!ہم اس وقت کاغان کے قریب ہی ایک گاؤں میں جا رہے ہیں جو برف سے ڈھک چکا ہے۔شدید برف باری ہے۔لوگوں کے پاس کھانے پینے کا سامان بھی ختم ہو رہا ہے اور باہر وہ نکل نہیں سکتے،کیونکہ وہاں ایک آدم خور چیتا کہیں سے آ گیا ہے۔
بٹ صاحب کو باقاعدہ فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ سے آرڈر ملا ہے کہ گاؤں والوں کو اس عفریت سے نجات دیں۔“
یہ سننا تھا کہ راشد اور رمضان کے حواس گم ہو گئے۔
”بچوں!ڈر تو نہیں گئے یا کوئی مسئلہ تو نہیں ہے!“
”نہیں نہیں سر!ہمیں تو مزہ آ رہا ہے۔“
کچھ ہی دیر میں جیپ برفانی گاؤں میں تھی۔مستقل برف باری ہو رہی تھی جو کبھی تیز ہو جاتی اور کبھی ہلکی۔
کافی دیر تک گھوم پھر کر مقامی لوگوں کی مدد سے علاقے کا جائزہ لیا گیا۔جب سب تھک گئے تو گاؤں کا ایک شخص سب کو اپنے گھر لے گیا۔یخ بستہ ہواؤں اور جسم کو جما دینے والی سردی میں اس نے گرما گرم بکرے کا سالن اور نان سے اپنے مہمانوں کی ضیافت کی۔کچھ دیر سستانے کے بعد جب وہ باہر نکلے تو شام ڈھل رہی تھی۔روشنی ماند پڑ رہی تھی۔ہلکی ہلکی برف باری جاری تھی کہ اچانک کسی کی زور دار چیخ سنائی دی۔
پروفیسر انور،بٹ صاحب کے ساتھ بندوقیں لے کر وہاں بھاگے۔پیچھے پیچھے رمضان اور راشد بھی تھے۔کچھ مقامی لوگ بھی ساتھ تھے۔تھوڑی دور جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی خون میں لت پت پڑا ہے اور ایک خوف ناک چیتا اس پر وار کرنے والا ہے۔اتنے سارے لوگوں کو ایک ساتھ دیکھ کر چیتا پہلے تو گھبرایا،لیکن اس پر بھوک کا اتنا غلبہ تھا کہ وہ بھاگنے کے بجائے وہیں کھڑا ہو کر باقی لوگوں پر غرانے لگا۔
پروفیسر صاحب نے راشد اور رمضان کی جانب آنکھوں سے واپس جانے کا اشارہ کیا تو وہ پیچھے ہٹ گئے اور ایک ذرا اونچے اور محفوظ مقام پر جا کر سارا منظر دیکھنے لگے۔دراصل گاؤں والوں نے ان درندوں سے محفوظ رہنے کے لئے مختلف جگہوں پر کچھ مچان قسم کی محفوظ پناہ گاہیں تیار کر رکھی تھیں جن میں چھپ کر جان بچائی جا سکتی تھی۔راشد اور رمضان بھی ایک ایسی ہی پناہ گاہ تک پہنچ گئے تھے۔

بٹ صاحب اور پروفیسر انور آگے بڑھنے لگے تو گاؤں کے لوگ بولے:”نہیں صاحب!آگے مت بڑھو․․․یہ بہت خطرناک جانور ہے،تمہیں مار ڈالے گا۔“
پروفیسر صاحب نے منہ پر اُنگلی رکھ کر دھیرے سے کہا:”خاموش!چپ رہو۔مجھے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے دو۔“
”بٹ!یہ مجھ پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔تم رائفل سنبھال لو اور باقی لوگ اس کو بھگانے کے بجائے زخمی کے پاس جا کر اس کی جان بچائیں ورنہ وہ تڑپ تڑپ کر مر جائے گا۔

ابھی یہ بات پروفیسر صاحب نے کہی ہی تھی کہ برفانی چیتے نے بجائے پروفیسر انور کے،بٹ صاحب پر حملہ کر دیا۔اس اچانک حملے کا سامنا کرنے کو کوئی تیار نہ تھا۔پروفیسر صاحب نے گاؤں والوں سے اپنی رائفل لی،لیکن بدحواسی میں ان سے گولی ہی نہ چلی۔ادھر چیتا بٹ صاحب کو گرا چکا تھا۔اُدھر سب کے اوسان خطا ہو چکے تھے۔بٹ صاحب کو اپنی موت کا یقین ہو گیا۔
چیتے نے اپنے خونخوار دانتوں اور نوکیلے پنجوں سے حملہ کرکے انھیں لہولہان کر دیا تھا۔اچانک ایک گولی چلنے کی آواز آئی اور چیتا یک دم ڈھیر ہو گیا۔گولی چیتے کے بھیجے میں لگی تھی۔سب حیران تھے کہ آخر یہ کون اس نازک وقت میں فرشتہ بن کر آیا اور بٹ صاحب کی جان بچا لی۔اب جو سب نے دیکھا تو وہ ”راشد“ تھا۔لوگ ابھی تک حیران تھے کہ آخر یہ ہوا کیا ہے۔
اسی دوران رمضان آگے بڑھا اور فوراً اس زخمی اور بٹ صاحب کو گاؤں والوں کی مدد سے قریبی کلینک لے گیا،جہاں ان کو طبی امداد فراہم کی گئیں۔
راشد کو مقامی لوگوں نے کندھوں پر بیٹھا کر سارے برفانی علاقے کی سیر کرائی۔رمضان بھی اس کے ساتھ تھا۔رمضان کو بھی بٹ صاحب اور زخمی آدمی کی فوری امداد کرنے پر خوب سراہا گیا۔پروفیسر انور نے کہا:”مجھے تم پر فخر ہے،بچو!“
بٹ صاحب اور زخمی آدمی نے بھی دونوں دوستوں کا بھرپور شکریہ ادا کیا۔گاؤں والوں نے سب کو تحائف سے نوازا اور سارا برفانی علاقہ مزے سے گھمایا۔یہ راشد اور رمضان کی سب سے یادگار برفانی مہم تھی۔

Browse More Moral Stories