Bhalu Ki Ashrafiyaan - Article No. 1509

Bhalu Ki Ashrafiyaan

بھالو کی اشرفیاں - تحریر نمبر 1509

کسان کو اپنی جان بچانے کی فکر تھی اس لئے اس کو سونے کے سکوں کے اس طرح گرنے کا کوئی افسوس نہیں ہو رہا تھا۔

جمعہ 30 اگست 2019

محمد ابراہیم خان
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک کسان پڑوس کے گاؤں میں ایک امیر آدمی سے ملنے کے بعد جنگل کے راستے اپنے گاؤں کی طرف جارہا تھا۔وہ امیر آدمی بڑا سخی تھا وہ فقیروں اور نیک لوگوں کی بڑی عزت کیا کرتا تھا اور ان کو اشرفیوں اور قیمتی تحفے تحائف سے نواز تا تھا ۔اُس امیر آدمی نے غریب کسان کو بھی ڈھیر ساری سونے کی اشرفیاں تحفے میں دی تھیں۔

اتنے سارے سونے کے سکے پا کر وہ غریب کسان بہت خوش تھا۔خوشی کے مارے وہ گنگنا تے ہوئے جلدی جلدی چل رہا تھا تاکہ جنگل کا خطر ناک راستہ جلد از جلد پار کر سکے۔اپنی ڈھن میں مگن اس کسان کو اچانک اس وقت شدید جھٹکالگا جب اس نے اپنے سامنے ایک ریچھ کودیکھا ۔اب وہ بڑی مشکل میں پھنس گیا تھا۔اُسے کوئی ترکیب نہیں سوجھ رہی تھی کہ وہ اب کیا کرے؟آخر کار وہ پیچھے کی طرف بھاگنے لگا جب ریچھ نے اس کو اس طرح بھاگتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی اس کے پیچھے بھاگنے لگا۔

(جاری ہے)


دوڑتے دوڑتے کسان بری طرح تھک گیا ۔اس کے پاؤں کا نپنے لگے۔تھکن کے مارے وہ ایک جگہ کھڑا ہو گیا ۔اسی دوران میں ریچھ بھی اس کے پاس پہنچ گیا۔اب دونوں آمنے سامنے تھے ۔کسان سوچ میں پڑ گیاکہ اگر اپنی جان بچانی ہے تو اسے ریچھ سے لڑنا پڑے گا۔ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ریچھ کسان کے اوپر کود گیا کسان بھی اس سے دو بہ دو لڑنے کے لیے بالکل تیار ہو گیا۔
لڑتے لڑتے کسان کے ہاتھ میں اچانک ریچھ کی دم آگئی۔کسان نے پوری طاقت سے دم کو پکڑ کر گول گھمانا شروع کر دیا۔کسان اور ریچھ دونوں گھومتے رہے ایسے میں کسان کمرسے بندھی ہوئی تھیلی میں سے سونے کی اشرفیاں نکل نکل کر چاروں طرف گرنے لگیں ۔
کسان کو اپنی جان بچانے کی فکر تھی اس لئے اس کو سونے کے سکوں کے اس طرح گرنے کا کوئی افسوس نہیں ہو رہا تھا۔
وہ بس یہی سوچ رہا تھا کہ اس مصیبت سے کسی طرح چھٹکا را مل جائے۔وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھاکہ اگر اُس نے ریچھ کی دم چھوڑ دی تو وہ اس کو جان سے مار ڈالے گا۔کسان اسی سوچ میں ڈوبارہا کہ ریچھ کی دم کو پکڑ کر اسی طرح گول گھماتے رہنے سے ہی اس کی جان بچ سکتی ہے کچھ دیر تک وہ ایسا ہی کرتا رہا کہ ادھر سے ایک لکڑ ہارے کا گزر ہوا۔چاروں طرف پھیلے ہوئے سونے کے سکوں اور گو ل گھومتے کسان اور ریچھ کو دیکھ کر اسے بہت حیرت ہوئی وہ ان دونوں کے قریب آیا اور کھڑے ہو کر انہیں غور سے دیکھنے لگا،پھر اس نے کسان سے پوچھا:”یہ آپ کیا کر رہے ہیں اور چاروں طرف سونے کے سکے کیوں بکھرے ہو ئے ہیں؟“کسان نے لکڑ ہارے کی آواز سن کی اُس کی طرف دیکھا۔

اُس کے ذہن میں ایک ترکیب آگئی۔اس نے اُسے طرح گول گول گھومتے ہوئے کہا:”اے لکڑ ہارے!یہ جو ہر طرف تم سونے کے سکے بکھرے ہوئے دیکھ رہے ہو یہ ریچھ کی دم کو پکڑ کر اس طرح گول گول گھمانے سے نکلے ہیں“لکڑ ہارے کے دل میں لالچ آگیا ،اس نے کہا مجھے بھی ریچھ کی دم پکڑا دیجیے،تاکہ میں بھی اسے گھما کر کچھ سونے کے سکے حاصل کر سکوں۔“کسان کچھ دیر تو یوں ہی دکھا وے کے لیے ثالتا رہا پھر اس نے لکڑ ہار ے کو ریچھ کی دم پکڑ ا دی اور سونے کے سکوں کو جلدی جلدی جمع کرکے وہاں سے بھاگ گیالالچی لکر ہار ا سونے کے سکوں کے لیے اسی طرح پریشانی کے عالم میں ریچھ کی دم پکڑ کر گول گھومتا رہا۔
اُسے سکے نہ ملنے تھے نہ ملے لیکن ہاں!جب وہ بُڑی طرح تھک گیا تو اُس کو لالچ کی سزا مل گئی یعنی بھالو نے اسے مار کر کھا لیا۔
نتیجہ:لالچ بُری بلا ہے

Browse More Moral Stories