Bi Lomri Sudhar Gayin - Article No. 2522

Bi Lomri Sudhar Gayin

بی لومڑی سدھر گئیں - تحریر نمبر 2522

بندر میاں کی رحم دلی اور درگزر سے کام لینے کا بی لومڑی پر ایسا اثر ہوا کہ اُس دن کے بعد سے انھوں نے کبھی بندر میاں کو کیا کسی کو بھی اپنی چالاکی سے نقصان نہیں پہنچایا۔

جمعرات 18 مئی 2023

شائستہ زریں
بندر میاں تو مشہور ہی اپنی نقالی اور شرارتوں کی وجہ سے تھے جس سے جنگل کے تمام جانور لطف اُٹھاتے لیکن بی لومڑی کو اُن کی یہ حرکت سخت ناگوار گزرتی تھی،کیونکہ اکثر و بیشتر وہ بندر میاں کی شرارت کا نشانہ بنتی تھیں۔بات محض شرارت تک ہوتی تو کوئی بات نہ تھی،بندر میاں مذاق ہی مذاق میں بی لومڑی کی بے عزتی کر دیا کرتے تھے اور اپنی عزت تو سبھی کو پیاری ہوتی ہے۔
بی لومڑی نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ بندر میاں سے اپنی بے عزتی کا بدلہ ضرور لیں گی اور جلد ہی بی لومڑی کو موقع بھی مل گیا۔
ہوا یوں کہ بی لومڑی کو سخت بھوک لگ رہی تھی۔انھوں نے چٹپٹی چاٹ بنائی جسے ندیدوں کی طرح جلدی جلدی کھا رہی تھیں،اپنی اُنگلیاں چاٹ چکیں تو پیالہ زبان سے چاٹنے لگیں۔

(جاری ہے)

بندر میاں جو اتفاقاً وہاں آ نکلے تھے،بڑے اشتیاق سے بی لومڑی کی ندیدی حرکتیں دیکھ رہے تھے اور وہ اس سے بے خبر مزے سے چٹخارے لیتی جا رہی تھیں اور کہتی جا رہی تھیں واہ مزہ آ گیا۔

کیا چاٹ بنائی ہے میں نے،واہ بی لومڑی واہ۔“
بندر میاں اُس وقت تو خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے،لیکن کچھ ہی دیر بعد اُنہوں نے سارے جانوروں کو جمع کیا اور بی لومڑی کی وہ نقل اُتاری کہ ہنستے ہنستے سب کا بُرا حال ہو گیا۔دل ہی دل میں بی لومڑی بھی بندر میاں کی فن کاری کا اعتراف کر رہی تھیں،لیکن بھرے مجمع میں اپنی بے عزتی اُنھیں بہت کھل رہی تھی۔
بی لومڑی نے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کا پکا ارادہ کر لیا۔اُن کی فطرت تھی جب تک انتقام نہ لے لیتیں اُن کو چین نہ پڑتا تھا۔اور بالآخر وہ دن آ ہی گیا جب بی لومڑی نے بندر میاں سے اپنا بدلہ لے لیا۔
اُس روز موسم سخت گرم تھا،دھوپ بھی بہت تیز تھی،بندر میاں گرمی سے نڈھال برگد کے سائے میں مزے سے سو رہے تھے۔اُنھیں یوں بے خبر سوتا دیکھ کر بی لومڑی کو اپنا انتقام یاد آ گیا۔
وہ دبے پاؤں بندر میاں کے نزدیک گئیں اور خار دار جھاڑی پہلے بندر میاں کے چہرے اور پھر کلائی پر زور سے مار کر پل بھر میں یہ جا،وہ جا۔
بی لومڑی اپنی چالاکی کی وجہ سے مشہور تھیں،اب یہ سوچ کر وہ بہت خوش تھیں کہ میں نے اپنا کام کر دکھایا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی،لیکن یہ اُن کی بھول تھی،کیونکہ بی لومڑی کے ستائے ہوئے ریچھ ماما اور بطخ خالہ نے بی لومڑی کی یہ حرکت اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تھی۔
اب وہ بندر میاں سے جن کا چہرہ اور کلائی بُری طرح زخمی ہو گئے تھے،اُن کی تکلیف کی شدت محسوس کر کے نہ صرف ہمدردی کر رہے تھے،بلکہ جنگل کے بادشاہ شیر سے بی لومڑی کی شکایت کر کے انصاف کی درخواست پر اصرار بھی کر رہے تھے۔پہلے تو بندر میاں نے انکار کر دیا اور پھر بطخ خالہ کے احساس دلانے پر کہ یہ خاموشی کل بی لومڑی کو اوروں پر ظلم کرنے پر اُکسائے گی بندر میاں نے جنگل کے بادشاہ سے انصاف طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

بندر میاں نے جب تمام ماجرا جنگل کے بادشاہ کو سُنایا تو اُنھوں نے فوراً تمام جانوروں کو دربار میں حاضری کا حکم دیا۔تمام جانور بادشاہ کے دربار میں حاضر ہو گئے۔بادشاہ سلامت انصاف کی کرسی پر بیٹھے تھے اور بندر میاں بی لومڑی کے ظلم کی داستان سُنا رہے تھے۔ان کا زخمی چہرہ اور کلائی سے رستا ہوا خون بی لومڑی کے ظلم کی گواہی دے رہا تھا۔
بطخ خالہ اور ریچھ ماما نے بی لومڑی کے خلاف حلفیہ گواہی دی تھی۔تمام جانور بی لومڑی کو لعنت ملامت کر رہے تھے۔پہلے تو وہ انکار کرتی رہیں لیکن بندر میاں نے ثبوت پیش کر دیے۔کوئی راہِ فرار نہ پا کر بالآخر بی لومڑی نے اقبالِ جرم کر ہی لیا۔
جنگل کے بادشاہ شیر نے اپنی گرجدار آواز میں فیصلہ سنایا کہ ایک ماہ تک جنگل کے تمام جانور بی لومڑی سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے اور شاہی دربار میں ہونے والے جشن میں بھی بی لومڑی شرکت نہیں کریں گی۔

یہ فیصلہ سنتے ہی بی لومڑی کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔اُن کی آنکھیں بھر آئیں،جنگل کے اس سالانہ جشن کی تیاری تو وہ کئی ماہ پہلے سے کر رہی تھیں۔بی لومڑی منہ بسورے،کبھی حسرت بھری نظروں سے اپنے ساتھیوں کو دیکھتیں جن کے ساتھ مل کر انھوں نے اس جشن کی تیاریاں کی تھیں اور کبھی بادشاہ سلامت پر التجا بھری نظر ڈالتیں۔یہ منظر دیکھ کر بندر میاں نے اپنی تکلیف بھلا کر بی لومڑی کی نقل اُتاری۔
عادت سے مجبور جو تھے۔پھر یہ عادت اُن کی پیدائشی بھی تو تھی۔کیسے وہ اس سے چھٹکارا پاتے؟تمام جانور ہنس رہے تھے۔بندر میاں کی بے ساختہ اداکاری پر شیر بادشاہ بھی مسکرا دیے۔اپنی بھد اُڑتے دیکھ کر بی لومڑی شرمندہ بھی ہوئیں اور اُداس بھی۔
بندر میاں کو وقتی طور پر غصہ تو آ گیا تھا لیکن اب اُنھیں افسوس ہو رہا تھا کیونکہ بی لومڑی کی کافی بے عزتی ہو چکی تھی۔
خود بندر میاں کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا کہ ایسی شرارت یا مذاق نہیں کرنا چاہیے جس سے کسی کی عزت خراب ہو یا کسی کی دل آزاری ہو۔فطرتاً بندر میاں بہت رحم دل تھے۔اُنھوں نے بادشاہ سے بی لومڑی کے لئے معافی کی درخواست کی تو اُن کی سفارش پر لومڑی کی سزا ختم کر دی گئی۔
بندر میاں کی رحم دلی اور درگزر سے کام لینے کا بی لومڑی پر ایسا اثر ہوا کہ اُس دن کے بعد سے انھوں نے کبھی بندر میاں کو کیا کسی کو بھی اپنی چالاکی سے نقصان نہیں پہنچایا۔بی لومڑی نے بندر میاں سے معافی بھی مانگ لی تھی۔اب انھوں نے انتقام سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔دوسروں کو معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کا سبق بی لومڑی نے بندر میاں سے سیکھا تھا۔

Browse More Moral Stories